جس وقت یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا، بہت کم لوگوں کے خیال میں پاکستان اس ٹائٹل کی دوڑ میں فیورٹ تھا۔ نام لیے جا رہے تھے تو انڈیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ کے۔ حتیٰ کہ سال خوردہ تجربہ کار کھلاڑیوں پہ مشتمل ویسٹ انڈین سکواڈ بھی کئی مبصرین کی نظر میں فیورٹ تھا۔
مگر پاکستان اکثر اندازوں، پیش گوئیوں اور تخمینوں میں سے غائب تھا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی، اپنے گروپ کی پہلی ٹیم بن چکی ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
بڑے ایونٹس میں چھوٹی ٹیموں سے مقابلے عموماً بے جان اور بے مقصد سے ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن بہرحال ان مقابلوں میں بڑی، تگڑی ٹیموں پہ ایک تلوار سی ضرور لٹکی رہتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔
اور ایسے اپ سیٹ بھی ریکارڈ پہ موجود ہیں، بھلے وہ 1999 کا بنگلہ دیش بمقابلہ پاکستان ہو یا 2007 کا آئرلینڈ بمقابلہ پاکستان ہو یا پھر 2011 کا آئر لینڈ بمقابلہ انگلینڈ یادگار میچ ہو۔
سو ایسے میچز میں پریشر نہ بھی ہو، ایک خاص احتیاط بھرا خوف سا ضرور ہوتا ہے۔ اور بابر اعظم نے اچھا فیصلہ کیا کہ اگلے مشکل مرحلے کی آمد سے پہلے ہی ذرا ایک بار بیٹنگ کو بھی اچھی طرح آزما لیا جائے اور بولرز کو بھی اوس کے چیلنج سے نمٹنے کا ایک موقع دیا جائے۔
جس انداز میں نمیبیا کے بولرز نے آغاز کیا، پاکستانی اوپنرز کو رنز بٹورنے میں خاصی مشکلات درپیش رہیں۔ وکٹ بھی بیٹنگ کے لیے آسان نہیں تھی اور پاور پلے میں نمیبیا کی بولنگ بھی خوب تھی۔
ٹرمپل مین اور ویزے نے تسلسل کے ساتھ مخصوص لینتھ کو ٹارگٹ کیا اور نئے سیمنگ گیند کے سامنے بابر اعظم و رضوان کی صلاحیتوں پہ سوال اٹھائے۔
لیکن ان پاکستانی اوپنرز کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مروجہ انداز کی ’ٹی ٹوئنٹی مار دھاڑ‘ پسند نہیں کرتے بلکہ سمارٹ بیٹنگ سے اچھے سٹروک پیدا کرتے ہیں۔ اور اگر گیند ٹھیک سے بلے پہ نہ آ رہا ہو تو رکنا اور روکنا بھی بخوبی جانتے ہیں۔
پاکستان نے پہلے بیٹنگ کر کے مجموعہ ترتیب دینے کا جو ہدف لیا تھا، وہ ایسا کامیاب رہا کہ یہ ہدف نمیبیا ہی کیا، کسی بھی ٹیم کے لیے پہاڑ کا سا تھا۔
پاکستانی بولنگ کے لیے چیلنج مگر یہ تھا کہ اوس پڑنے کے بعد نم گیند کی نگہداشت کیسے کریں گے جو بالخصوص سپنرز کے لیے بہت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
اگر نائٹ میچ کی دوسری اننگز میں اوس پڑنے لگے تو بولرز کے لیے گیند پہ گرفت برقرار رکھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ امارات کی وکٹوں پہ تو بسا اوقات رن اپ بھی گڑبڑا جاتا ہے اور لینتھ تو پھر چُوک ہی جاتی ہے۔ اور یہیں بلے باز کو کریز استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے جہاں سے وہ اپنی سہولت کے شاٹ کھیل سکتا ہے۔
انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ میں بھی انڈین بولنگ کا یہی مسئلہ نظر آیا کہ اوس پڑنے کے بعد وہ درستی سے گیند کی نگہداشت نہ کر سکے اور بابر اعظم و محمد رضوان نے بیٹنگ کو نہایت سہل کر دکھایا۔
یہ ورلڈ کپ جوں جوں اختتامی مراحل کی جانب بڑھ رہا ہے، موسم کے اعتبار سے اوس کا تناسب بھی بڑھتا جائے گا اور دوسری اننگز کی بولنگ کی مشکلات بھی بڑھتی جائیں گی۔
یہاں انگلینڈ کی سری لنکا کے خلاف بولنگ قابلِ ذکر ہے کہ جس نے تائمل ملز کی انجری کے سبب اوورز کھونے کے باوجود گیند کی ایسی نگہداشت کی کہ ایک ممکنہ اپ سیٹ کا راستہ روک لیا۔
گو یہاں ابوظہبی میں اوس اتنی نہیں تھی جتنی انگلش بولنگ کو شارجہ میں جھیلنا پڑی لیکن پاکستانی بولنگ بھی اس چیلنج میں کامیاب رہی اور نمیبیا کے بلے بازوں کو پوری طرح سے ہاتھ کھولنے کا موقع نہیں دیا۔ پاکستان نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ اب فیورٹ صرف انگلینڈ ہی نہیں ہے۔
بابر اعظم کی ٹیم کے لیے یہ جیت شاید پچھلی فتوحات سے بھی زیادہ خاص ہے کہ بالآخر یہ پاکستان کے لیے سیمی فائنل کی ‘سرکاری رسید’ ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ