لاہور : پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘دو پریس کانفرنسز ہوئیں جس میں ہماری نظر میں معاملات سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیے گئے ہیں اور ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج جو پریس کانفرنس ہوئی اس کا ماخد یہی تھا کہ ادارے نے فیصلہ کیا کہ وہ غیر سیاسی رہے گا اور سب کی یہی خواہش رہی ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے تو آسان رہے گی اور مشکلات پیدا نہیں ہوگی اور اگر ایسا ہوتا پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘کل ہمارے ایک ساتھی، جن کی رکنیت معطل کردی گئی ہے، نے جانتے ہوئے کہ تحریک انصاف کی بڑی واضح پالیسی رہی ہے کہ ہمارے جتنے بھی احتجاج ہوئے ہیں وہ پرامن ہوئے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری پالیسی بڑی واضح ہے کہ ہمارا مارچ پرامن ہے، قانون کے دائرے کے اندر ہوگا، قانون کے تقاضوں کا احترام کرتے رہیں گے، کل کی پریس کانفرنس صرف لوگوں میں ایک خوف پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی’۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘کل کی پریس کانفرنس ایک مذموم کوشش تھی جو ہماری نظر میں ناکام رہی کیونکہ اس کا پول کھل گیا، جس طرح انتظام کیا گیا تھا جو چینل کوریج نہیں دیتے پی ٹی وی بالخصوص مہربان رہا اور پوری کوریج دی گئی اور کڑی سے کڑی مل گئی اور پول کھل گئی کہ اس کے پیچھے کون سی قوت تھی اور سوچ کیا کار فرما تھی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی اور کہا جا رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کسی قیمت قبول نہیں ہوگا تو ہم سیاسی عدم استحکام کے خواہاں نہیں ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سیاسی عدم استحکام اس دن شروع ہوا، جس دن عدم اعتماد کے ووٹ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی، پھر کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی، جس سے ہماری سیاست اور ہماری معیشت پر جو اثر پڑا سب کے سامنے ہے’۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘عدم استحکام ہم نے پیدا نہیں کیا بلکہ ہم اس کا حل پیش کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ عدم استحکام آچکا ہے، ملک میں اس وقت عدم استحکام کی کیفیت رونما ہو چکی ہے، ہم اس کا ایک جمہوری حل پیش کر رہے ہیں وہ ہے انتخابات، جس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گی اور گومگو کی صورت حال ختم ہوجائے گی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘سائفر کا ذکر آیا کہ یہ ایک من گھڑت بیانیہ ہے، ہر گز نہیں، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ سائفر ایک حقیقت تھی اور حقیقت ہے، ذکر کیا گیا کہ کامرہ میں اس کا تذکرہ ہوا تو اس نشست میں اسد عمر، عمران خان اور میں بھی موجود تھا، اہم شخصیات موجود تھیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب سائفر اور اس کی سنجیدگی کا ذکر آیا تو ہمیں کہا گیا یہ بالکل سیریس مسئلہ ہے اور اس پر ڈیمارش ہونا چاہیے، پھر اس کی اہمیت سامنے رکھتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کا ایک سے زیادہ اجلاس بلائے گئے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر وہ حقیقت نہیں تھی اور اگر وہ ایک من گھڑت کہانی تھی تو ڈیمارش کی ضرورت کیا تھی، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ سیاسی مداخلت ہوئی ہے، پھر تو اس کا تذکرہ اٹھتا ہی نہیں ہے’۔
سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ ‘یہ بھی تاثر دیا گیا کہ ہم نے اپنے سفیر اور ان کے بیانیے کو سیاسی مقاصد کے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی تو ہر گز نہیں، سفیر نے دیانت داری سے واشنگٹن میں جو نشست ہوئی اس کو ریکارڈ کی اور سائفر اس کی ترجمانی کر رہا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سفیر کہہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے سفارتی تجربے میں اس قسم کی زبان استعمال ہوتے دیکھی نہیں ہے، اس میں دھمکی تھی، ایسی زبان استعمال کی گئی جو سفارتی نہیں تھی اور ناقابل قبول تھی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘سفیر کی رائے میں وہ گفتگو اس نوعیت کی تھی کیونکہ انہوں نے ڈیمارش کی تجویز دی تھی اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا ڈیمارش کیا جائے، اگر سائفر پر ہم نے بیانیہ گھڑا تو یہ حقیقت کے برعکس ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم کوئی ایسا بیانیہ نہ گھڑیں گے اور نہ گھڑا ہے، جس سے پاکستان کو نقصان ہو یا پاکستان کے کسی ملک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں، یہ ہماری ہرگز نیت نہیں تھی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘تحریک انصاف نے بحیثیت ایک جماعت کے ہم نے ہمیشہ اداروں کا احترام اور دفاع کیا ہے، ہر موڈ پر کیا ہے، ہم سجھتے ہیں اداروں کے مضبوط ہونے سے نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوتی ہے بلکہ ملک مضبوط ہوتا ہے’۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘یہ تاثر دینا کہ خدانخواستہ ہم کسی ادارے کے درپے ہیں یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یہ حقیقت کے برعکس ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے ہمیشہ ان کی قربانیوں کا ادراک کیا ہے، دہشت گردی کی جنگ میں ملک کو محفوظ کرنے میں کردار ادا کیا ہے، ہم نے اس کی تعریف کی اور تسلیم کیا ہے، کورونا اور سیلاب میں آتے ہیں تو اس کردار کی تعریف کی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی بات کی گئی لیکن ہماری سوچ اس کے برعکس ہے اور ہم نے کبھی ایسی غیرذمہ دارانہ نعرے بازی نہیں کی’۔وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ‘ملاقاتوں کا حوالہ دیا گیا، ان ملاقاتوں کا مقصد کیا تھا، کیا ہماری کوئی غیرآئینی فرمائش یا کوئی ایسا مطالبہ کیا جو جمہوری قدروں یا آئین کے برعکس ہو، ہر گز نہیں، بارہا کہتے رہے ایک نکاتی ایجنڈا ہے ہمارا، وہ ہے ملک میں شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات’۔
فیس بک کمینٹ