گو کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی تحریک انصاف سے بات چیت کے لیے باقاعدہ کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ اقدام بھی موجودہ حکومت کو استحکام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے سوموار کی صبح تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کو اپنے دفتر میں بات چیت کا آغاز کرنے کی دعوت دی ہے۔ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ امید کی جارہی ہے کہ طویل عرصے تک ایک دوسرے سے سینگ پھنسائے رکھنے کے بعد اب حکومت، تحریک انصاف کی کچھ باتیں مان لے گی اور تحریک انصاف بھی کسی مفاہمت پر راضی ہوجائے گی۔ دونوں طرف سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے مثبت اشارے بھی دیے ہیں۔ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی اعلان کردہ تحریک ، مذاکرات کے نتیجہ تک مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ احتساب عدالت نے سوموار کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پونڈ مقدمے کے فیصلے کا اعلان غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک ’عدالتی‘ فیصلہ ہے لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں اسے حکومت کی رعایت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
190پاؤنڈ ریفرنس کو ماہرین بے حد اہمیت دے رہے ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس مقدمہ میں نیب کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں ۔ معاملہ کی تفصیلات بتائے بغیر عجلت میں کابینہ سے ’اجازت‘ لینے کے شواہد اور گواہیاں عدالت میں پیش کی جاچکی ہیں۔ خیال ہے کہ دیگر تمام مقدمات کے برعکس یہ معاملہ کسی حد تک شفاف اور واضح ہے جسے کسی اعلیٰ عدالت میں بھی رد کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر یہ قیاس آرائیاں اور اندازے درست ہیں تو اس ریفرنس میں ملنے والی سزا عمران خان کو طویل عرصہ تک قید رکھنے کا سبب بن سکتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف مذاکرات کے لیے تحریک انصاف کا کل مقدمہ ہی یہ ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔ اگرچہ اب سیاسی طور سے اس مطالبے کو قابل قبول بنانے کے لیے تحریک انصاف کے تمام کارکنوں اور لیڈروں کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن حکومت اگر عمران خان کو رہا کرنے پر آمادہ ہوجائے تو تحریک انصاف باقی مطالبات پر شاید اصرار نہ کرے۔
عمران خان کی رہائی درحقیقت ان کے سیاسی رویہ پر منحصر ہوگی۔ اگر وہ رہا ہونے کے بعد بھی احتجاج اور انتشار کی موجودہ حکمت عملی جاری رکھتے ہیں تو حکومت شاید یہ مطالبہ ماننے پر آمادہ نہ ہو۔ کیوں کہ اس وقت قیادت کے بغیر تحریک انصاف کمزور فریق کے طور پر دکھائی دینے لگی ہے۔ البتہ عمران خان جیل سے باہر آگئے تو پارٹی کو قیادت کا فقدان نہیں رہے گا۔ تحریک انصاف کی صفوں میں دکھائی دینے والی دراڑیں بھی دور ہوجائیں گی اور احتجاج یا سیاسی موجودگی کو پرزور طریقے سے پیش کیا جاسکے گا۔ یہی حکومت کا سب سے بڑا خوف ہے۔ اس لیے مذاکرات کے دوران حکومت یا تو عمران خان کی رہائی پر براہ راست بات کرنے سے گریز کرے گی یا پارٹی سے کسی باقاعدہ سیاسی طریقہ کار کی ضمانت مانگی جائے گی۔ عمرا یوب کی قیادت میں عمران خان نے تحریک انصاف کی جو کمیٹی بات چیت کے لیے مقرر کی ہے، اگرچہ اس میں پارٹی کے سارے اہم لیڈر موجود ہیں لیکن عمران خان کی غیر موجودگی میں یہ کمیٹی نامکمل اور کسی فیصلہ تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوگی۔ کمیٹی کا واحد کام حکومت کی طرف سے کی جانے والی پیش کش سن کر اسے عمران خان تک پہنچانا ہوگا۔ اس پیچیدہ عمل میں شاید مذاکرات کا عمل بیچ میں ہی بحران کا شکار ہوجائے ۔ کیوں کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر اعتماد سازی کا کام نہیں کیا گیا ۔ حکومت یا عمران خان ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔
مذاکرات میں انتخابات کی عدالتی تحقیقات کے علاوہ دوسرا بڑا مطالبہ سانحہ9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات ہیں۔ گزشتہ روز فوجی عدالتوں نے اس روز توڑ پھوڑ اور تخریب کاری میں ملوث 25 افراد کو سزائیں دینے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی یہ واضح کیا ہے کہ اس روز عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر منظم حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے لوگوں کو سزائیں دئے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ گویا فوج مسلسل اصرار کررہی ہے کہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے پر سزا ملنی چاہئے۔ سیاسی طور سے اس مشکل کا یہ حل نکالنا ممکن ہے کہ تحریک انصاف اس روز ہونے والے واقعات سے لاتعلقی اختیار کرلے اور واضح کرے کہ اس کا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ لیکن فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا اعلان ہونے کے بعد عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں ایک بار پھر 9 مئی کے واقعات کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیتے ہوئے الزام لگایا گیا ہے کہ یہ کارروائی تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو نقصان پہنچانے کے لیے کی گئی تھی۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے بعض قائدین یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مذاکرات میں تحریک انصاف سے سانحہ9 مئی پر معافی مانگنے کا تقاضہ کیا جائے۔ اگر پی ٹی آئی کا وفد معافی مانگنے پر آمادہ نہ ہو تو یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ پرامن سیاسی مفاہمت پر تیار نہیں ہیں۔
سانحہ9 مئی پر فوج کے واضح اور غیر متزلزل مؤقف کی وجہ سے شہباز شریف حکومت کے لیے اس معاملہ پر کوئی نرمی دکھانا ممکن نہیں ہوگا۔ غالباً ا س کی طرف سے 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کی پیش کش کی جائے گی۔ کیوں کہ حکومت کو یقین ہے کہ اس روز کسی سرکاری اہلکار نے فائرنگ نہیں کی اور اس روز تحریک انصاف کے جو دو یا تین کارکن فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تھے، ان کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کرایا گیا تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکتا کہ ان کی موت کس قسم کے اسلحہ کی فائرنگ سے ہوئی تھی۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کی قبریں کھول کر ان کا پوسٹ مارٹم کرانے کی پیش کش کر سکتی ہے۔ اس پیش کش کو قبول کرنا شاید پی ٹی آئی کے لیے ممکن نہیں ہوگا یا اسے بہت کم رعایت سمجھا جائے گا۔ تحریک انصاف کا اصل مقدمہ 9 مئی کے الزام سے بریت ہے۔ حکومت اس بارے میں پارٹی کی کوئی معاونت نہیں کرے گی۔
ان حالات میں حکومت اور تحریک انصاف کے وفود کی ملاقات اگر فوری طور سے نہ بھی ختم ہوئی اور شرکا نے بات چیت کو طول دے کر کسی نتیجہ تک پہنچنے کا اشارہ دینے کی کوشش کی تب بھی فی الوقت کوئی ایسی بنیاد دکھائی نہیں دیتی جس کی وجہ سے امذاکرات کامیاب ہونے کی امید باندھی جاسکے۔ تحریک انصاف کو اپنی مقبولیت اور کسی بھی انتخابات میں سو فیصد کامیابی کا یقین ہے تو دوسری طرف شہباز حکومت کو یقین ہے کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں عسکری قیادت لازمی موجودہ حکومتی انتظام کی حمایت کرے گی۔
تحریک انصاف اس کے علاوہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے بھی امید لگائے بیٹھی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ نیا امریکی صدر پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر عمران خان کی رہائی ممکن بنائے گا۔ اگرچہ بیشتر تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ اس لیے کوئی امریکی صدر عمران خان کی رہائی کے لیے غیر معمولی اقدام نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ عمران خان کی طالبان نواز پالیسیاں اور بیانات بھی واشنگٹن میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ ان زمینی حقائق کے برعکس تحریک انصاف کو یقین ہے کہ 20 جنوری کو عمران دوست صدر وہائٹ ہاؤس میں موجود ہوگا ۔ اس لیے وہ مذاکرات میں ایک ایسی حکومت کے ساتھ کوئی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں ہوگی جو اس کے خیال میں جلد ہی ختم ہونے والی ہے کیوں کہ امریکہ کے دباؤ کے بعد فوج شہباز شریف کی سرپرستی سے باز آجائے گی۔
حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر موجودہ حالات میں شہباز شریف کے لیے اپنے عہدے کی مدت پوری کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ جو حکومت اپنے سیاسی مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے فوجی عدالتوںکا سہارا لینے اور شہریوں کو سزائیں دلانے پر مجبور ہو جائے، اس کے خوف اور کمزوری کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ ملک میں نام نہاد جمہوری حکومت قائم ہے لیکن میڈیا پر شدید پابندیاں ہیں اور الکیٹرانک میڈیا کو سرکاری بھونپو بنانے کے لیے پیمرا کے ذریعے مالکان کو دباؤ میں لانے کا ہر ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے مختلف قوانین کے تحت مقدمات قائم کیے جاتے ہیں اور ملک میں آزادی رائے کی حرمت کو پامال کردیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر کنٹرول کے طریقوں سے آن لائن کام کرنے والی کمپنیوں اور نوجوانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن حکومت اس صورت حال سے قطعی لاپروا ہے۔ آئی ٹی اور ٹیلی کمیونی کیشن کی وزیر شازا فاطمہ خواجہ ’ایکس‘ کو ملکی مفاد کے برعکس قرار دیتے ہوئے پابندی برقرار رکھنے پر اصرار کرتی ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں کہ ملک میں بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وزیر اعظم سمیت تمام حکومتی عہدیدار کوئی بھی پیغام عام کرنے کے لیے ایکس ہی کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ اس سے حکومت کی بدحواسی اور عاقبت نااندیشی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) مسلسل عوامی حمایت سے محروم ہیں اور پارٹی کسی قسم کی عوامی رابطہ مہم چلانے یا متبادل سیاسی بیانیہ اور نعرہ متعارف کرانے میں بھی کامیاب نہیں ہے۔ قیمتوں اور شرح سود میں کمی کا ضرور شد و مد سے اعلان کیا جاتا ہے لیکن یہ دونوں معاشی اشاریے عام لوگوں کی مالی صورت حال بہتر بنانے میں ناکام ہیں۔ اس کا اعتراف وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب بھی کرچکے ہیں اور اس کا ذمہ دار مڈل مین کو قرار دیتے ہیں۔ جو حکومت معاشی بہتری کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے لیے کمیشن ایجنٹوں یا مڈل مین کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، اس کی اتھارٹی کے بارے میں سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ان سب کے باوجود ایسے دو مزید پہلو شہباز شریف کی حکومت کےلیے مسلسل خطرہ ہیں۔ ان میں سب سے اہم اپنی حکومت کی حلیف پارٹیوں کی بے چینی اور شکایات ہیں۔ ایک طرف شہباز شریف مولانا فضل الرحمان کی دھمکیوں پر مدرسہ ایکٹ کے بارے میں یوٹرن لینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی حلیف پارٹیوں کی شکایات دور کرنے کے لیے کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ تاہم شہباز شریف کی سب سے بڑی ناکامی ملک میں سرمایہ کاری کا نہ آنا ہے۔ آئی ایم ایف سے ضرور معاہدہ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود دوست ممالک سے سرمایہ کاری کی توقع پوری نہیں ہوسکی۔ ملک میں چینی باشندوں کو لاحق خطرات کے سبب چین کے ساتھ معاملات بھی درست سمت میں گامزن نہیں ہیں۔ سرمایہ کاری آنے سے معاشی سرگرمی میں اضافے اور روزگار کے مواقع پیدا ہونے کا امکان تھا۔
شہباز شریف اس مقصد میں مکمل طور سے ناکام ہیں۔ ملک کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی ممالک اور کپنیاں پاکستان میں سرمایہ لانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت سیاسی بے یقینی ختم کرنے اور عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے۔ ایسے میں کوئی بھی دلیل دے لی جائے لیکن ایک ناکام حکومت کا تسلسل مشکوک رہے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ