تین بار کے سابق وزیر اعظم اور دو بار کے موجودہ نا اہل میاں نواز شریف ستر سالہ پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے آج کل اپنا حق چھیننے کے لیئے دھڑا دھڑ ۔ شہر شہر ، قریہ قریہ ۔جلسے پہ جلسہ کر رہے ہیں۔ عدالت نے انہیں یہ سہولت دے دی ہے کہ وہ عدالت میں حاضری کے بعد بیماری کے بہانے عدالت سے چلے جائیں اور پھر چاہے پنجاب ہاؤس میں پارٹی میٹنگ کی صدارت کریں یادور نزدیک کسی جلسے سے خطاب۔ ایسے میں میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹادینے کا فیصلہ بھی ایک مذاق ہی لگتا ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود میاں نواز شریف وہ سب کچھ کر رہے ہیں جن پر عدالت نے پابندی لگائی ہے۔یہ حکم عدولی کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ ان کی صاحبزادی مریم نواز اس ساری مہم جوئی میں ان کے شانہ بشانہ بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے کھڑی ہیں۔میاں نواز شریف کی ساری جدوجہد سے لگتا ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنے کا حق صرف، ن، کے لاحقے والی مسلم لیگ جو اپنے اطوار سے قائد اعظم ؒکی مسلم لیگ کے اصولوں اورنظریات کی ضد ہے،کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ان کے بعد کسی کو اگر بیٹھنے کا حق ہے تو وہ صرف ان کی صاحبزادی مریم نواز کوحاصل ہے۔میاں نواز شریف ستر سالہ پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا اعلان کر کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ اپنے آپ کو؟ دنیا کو؟ یا عوام کو؟ساری دنیا جانتی ہے کہ ان ستر سالوں میں کم وبیش نصف مدت تک اس ملک کے سیاسی افق پر ،ما سوائے چند سالوں کے،میاں نواز شریف کا طوطی بولتا رہا ہے۔اور یہ جو چند سال ہیں یہ بھی میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے ضائع نہیں کیئے۔جلا وطنی کے دورمیں بھی ان کا کاروبار پھلتا پھولتا ہی رہا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں ہیں نہ نئے انکشافات۔ایک زمانہ یہ حقائق جانتا ہے۔مریم نواز کے الفاظ اور انداز دونوں ہی عوام کو اکسانے اور بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں ۔اور اگر یہ کام ہو گیا تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ مریم نواز عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں سوال پوچھتی ہیں۔ کچھ سوال وہ اپنے والد محترم سے اور کچھ سوال اپنے آپ سے بھی پوچھیں کیونکہ ان کے سامنے جلسے میں بیٹھے ہوئے عوام میں عوام کی تعداد کم اور عوام کی صورت میں سرکاری ملازمین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے یا پھر علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے کی طرف سے زبردستی لائے جانے والے مزارعین ۔جن کے ذہن میں نہ کوئی سوال ہوتا اور نہ سوال کرنے کی اجازت۔ جنہیں بس یہ پتہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے جلسے میں جانا ہے۔ انہیں جلسے میں لانے والے جو نعرہ لگاتے ہیں اس کے جواب میں حاضرین کو صرف زندہ باہ۔ مردہ باد ۔کہنا ہوتا ہے۔ پنڈال میں موجود کسی شخص میں یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ میاں صاحب آپ بھی تو ان ستر سالوں کی پالیسیوں میں شامل رہے ہیں۔ اس بگاڑ میں آپ کا کتنا حصہ ہے؟ البتہ میاں نواز شریف اور مریم نواز جلسے میں جو کچھ فرماتے ہیں ۔ رات کو اس پر بحث کے لیئے ٹی وی چینلز سکرنیوں پر مچی دھما چوکڑی میں جب مسلم لیگ، ن، کی دفاعی ٹیم کے کسی رکن کو حق وفا ادا کرتے ہوئے میاں نواز شریف اور خاص طور پر مریم نواز کے بیانات کا دفاع کرنا پڑتا ہے تو بڑی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ مگر شاباش ہے ان وفا شعاروں پر کہ اپنے چہروں پرخفت اور شرمندگی کے تاثرات چھپانے میں ناکامی کے باوجود وہ بڑی ڈھٹائی سے حق وفا اور حق دفاع دونوں اداکرتے ہیں۔خاص طور پر جب وہ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت عدلیہ سمیت تمام اداروں کا احترام کرتی ہے توبے اختیار ،، اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے اسد،،کہنے کو جی چاہتا ہے ۔یہ لوگ صرف جماعتی وابستگی کی وجہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کا فریضہ بڑی دیانتداری سے ادا کررہے ہیں۔میاں نواز شریف اور مریم نواز بغاوت کے بیانئے سے باہر نکلیں کہ اس میں ،،، دوچار بڑے سخت مقام آتے ہیں،،،مسلم لیگ ن کے حامیوں کی نظر میں یہ بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔،، آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے،،عین ممکن ہے کہ آئیندہ الیکشن میں اس بیانئیے کی بناءپر آپ کو مظلومیت کا ووٹ بھی مل جائے۔آنے والی حکومت بھی آپ کی ہو۔مگر عوام کو کب تک بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی شہادت کے بعد پی پی پی کو مظلومیت کا ووٹ بھی ملا اور پانچ سالہ حکومت بھی۔ آج پی پی پی سکڑ کر صرف ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ ن لیگ کے بیانئے کی مقبولیت بھی صرف پنجاب تک ہی محدود ہے۔ اس بیانیئے کی وجہ سے کیا مسلم لیگ ن کی سیاست بھی صرف صوبہ پنجاب تک محدود ہو جائے گی؟علم بغاوت بلند کرنے والے بھی ذرا غور فرمائیں۔
فیس بک کمینٹ