مَیں جب بھی سکول کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات سے مخاطب ہوتا ہوں تو ہمیشہ ایک ہی بات کہتا ہوں کہ کلاس میں جتنے بھی بچے اور بچیاں موجود ہیں اُن کے ذہنوں میں اُتنی ہی کہانیاں ہوتی ہیں۔ بس میری اسی بات کو اس کالم کا سرنامہ سمجھ لیں کہ 6 جنوری 2017ء کی صبح شدید سردی کے موسم میں لودھراں کے چند گھروں میں صبح اٹھتے ہی سکول کے بہت سے بچوں نے معمول کے مطابق سکول نہ جانے کا بہانہ بنایا ہو گا۔ کسی بچے نے جھوٹ موٹ کا سر میں درد کا بولا ہوگا کسی نے کہا ہو گا آج سردی بہت زیادہ ہے، کوئی یہ بہانہ لے کر اپنی ماں کے پاس گیا ہو گا میرے پیٹ میں درد ہے مَیں نے آج سکول نہیں جانا۔ کسی بچے کے باپ نے کہا ہو گا کہ آج چھٹی کا دن ہے مَیں اسے اپنے موٹرسائیکل پر سکول چھوڑنے کی بجائے چنگ چی پر بھیج دیتا ہوں۔ بس ہر صبح ہر سکول کے بچے کے گھر کے میں اسی قسم کی کہانیاں ہی تو ہوتی ہیں۔ اور بچے کہانیوں کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ کہانی وہ اپنی نانی سے سنیں یا دادی سے بچوں کو کہانی اُن کی ماں سنائے یا بڑی بہن سنائے بچوں کو تو بس پریوں، ٹارزن، بادشاہ، ملکہ، عمروعیار، جادوگر اور ان جیسے بے شمار کرداروں کے بارے میں کہانیاں سننا ہوتی ہیں۔ بچے تو سراپا کہانی ہوتے ہیں۔ یہ کسی گھر میں پیدا ہوں تو اُن کی پیدائش کی خبر کہانی، بچے کو بھوک لگے اور وہ بلبلا اُٹھے تو ماں کے لئے اُس کا بلبلانا کہانی، معصوم بچہ کسی کو دیکھ کر بلاوجہ مسکرا دے اُس کا مسکرانا بھی کہانی۔ ہماری زندگی بھی کہانی اور زندگی کے کردار بھی کہانی۔ کہانی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا اختتام نہیں ہوتا کہ کہانی کا اگر اختتام ہو جائے تو زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں بچوں کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ کہانی اُس کی پیدائش سے شروع ہوتی ہے پہلا لفظ بولنے پر کہانی کا پہلا باب لکھا جاتا ہے۔ پہلا قدم اٹھانے پر کہانی کا اگلا باب مکمل ہوتا ہے۔ یہ کہانی کبھی دھند میں دھندلا جاتی اور کبھی تیز دھوپ میں چمک اٹھتی ہے۔ بچوں کی کہانی کو آپ اُن کے روشنائی سے بھرے یونیفارم پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اُن کے بستے میں پڑی ٹافیوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کی کہانی اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ اس کہانی کو آپ لنچ بکس میں بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ کسی بچے کی زندگی کی کہانی کے رنگ ان کی کلر پینسل کی ڈبیا میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ بچے قہقہہ لگائیں تو وہ بھی کہانی، یہ بچے خاموش ہو جائیں تو ان کی خاموشی بھی کہانی۔ ان کی آنکھوں کے آنسو بھی کہانی اور اگر بچے مستقل خاموش ہو جائیں تو پھر کہانیاں ہی کہانیاں۔
6 جنوری کو لودھراں میں سات بچوں نے اپنی آنکھوں میں کہانیوں کو سجایا، اپنے ماں باپ کے ساتھ آخری ناشتہ کیا، آخری مرتبہ انہوں اپنے گھر کو دیکھا، اپنے کھلونوں کو خداحافظ کہا اور پھر شاہی سواری ”چنگ چی“ میں سوار ہو گئے۔ اس چنگ چی کے بھی بڑے فوائد ہیں۔ سردی ہو یا گرمی اس پہ بیٹھنے والوں کو چاروں طرف سے ہوا آتی ہے۔ جس شخص نے چنگ چی ایجاد کی وہ یقیناً اتنا سفاک ہے کہ اس نے اس پر بیٹھنے والوں کے لیے کوئی حفاظتی اقدام نہیں کیے۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ چنگ چی کو چلانے والے پر پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ یہ ایک موٹرسائیکل کے ساتھ دس بارہ لوگوں کی موت کا وارنٹ لے کر چلتے ہیں۔ نہ اس کو ٹریفک پولیس والے روکتے ہیں نہ چنگ چی چلانے والوں پر ہیلمٹ اور سائیڈ مرر کی پابندی ہے۔ معلوم نہیں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن والے چنگ چی سے کس حساب سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ ایک چنگ چی پر صبح سویرے دس سے پندرہ بچے سوار ہو کر سکول جاتے ہیں۔ بچے چنگ چی پر اس طرح لٹکے ہوتے ہیں جس طرح عیدِ قرباں کے موقع پر چنگ چی پر جانور کھڑے کیے جاتے ہیں۔ چنگ چی پورے دھڑلے سے شہر میں بچوں اور سواریوں کو لے کر گھومتے ہیں لیکن کسی کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اُن کو سڑکوں پر کھلم کھلا موت تقسیم کرنے کا لائسنس کس نے دیا۔
یہ ساری تمہید مَیں نے اس لیے باندھی کہ 7 جنوری کو لودھراں میں جو سات بچے سکول جاتے ہوئے شہید ہوئے اس میں مَیں سارا قصور چنگ چی کے ڈرائیور کا سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کسی پھاٹک پر گاڑی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو اس سے پہلے دھمک بتا دیتی ہے کہ ٹرین آ رہی ہے۔ اور چنگ چی کے ڈرائیور کو دیکھنا اور سوچنا چاہیے تھا کہ اس کے ہمراہ سات طالبعلم نہیں بلکہ پاکستان کے سات روشن مستقبل تھے۔ لیکن پیسے کی لالچ میں جہاں ہر شعبے میں زوال آیا وہاں ایک غریب اَن پڑھ اور جاہل چنگ چی ڈرائیور کا کیا قصور۔ اُس نے وہی کچھ کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ اندھادھند اپنی موٹرسائیکل چلا کر مستقبل کے روشن ستاروں کو بروقت سکول پہنچانا چاہتا تھا۔ یہ تو ریلوے والوں کا قصور ہے کہ انہوں نے عین اس وقت پھاٹک سے ریل کو گزارا جب سکول جانے والے بچوں کا وقت ہو رہا تھا۔ اخبارات اور ٹی وی چینل مسلسل پاکستان ریلوے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ ایک سڑک پر صبح سویرے دو چنگ چی والے سکول کے بچوں کو بٹھا کر ریس کر رہے تھے۔ کیا اُن سے کوئی پوچھنے والا نہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ ریلوے پھاٹک بنوانا کس کا کام ہے؟ کیا یہ کام ریلوے کا ہے؟ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت یا مقامی انتظامیہ کا؟ ہم ہر حادثے کے بعد ریلوے پھاٹکوں کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں اُس حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا آزادی کے ستر سال بعد بھی ایٹمی قوت کو ریلوے پھاٹک پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ ساری فضول باتیں ہیں مجھے کسی بھی افسوسناک واقعے کے بعد تجزیہ نگاروں کا حکومتوں اور سیاستدانوں کو موردِ الزام ٹھہرانا بڑا عجیب لگتا ہے۔ ہم حادثے سے پہلے اپنے حالات کو بہتر کیوں نہیں بناتے۔ کیا ریلوے کے پھاٹک جنگلوں میں بنائے جاتے ہیں۔ یقیناً بغیر پھاٹک کے ریلوے لائن سے دن میں سینکڑوں افراد گزرتے ہیں کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے منتخب نمائندوں سے مطالبہ کیا کہ ہمیں اپنے بچوں کو محفوظ کرنے کے لیے ریلوے پھاٹک درکار ہے؟ ہم مجموعی طور پر بے حس قوم بن چکے ہیں۔ حادثے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر اخبارات میں بیان، احتجاجی مظاہروں کی تصویریں۔ حکومت بھی ہمیشہ ایسے مواقع پر بہت سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ وہ مالی امداد کا اعلان کر دیتی ہے اور پھر ہم ایک نئے حادثے کے منتظر ہوتے ہیں کہ نیا حادثہ، نئی کہانی یعنی کردار وہی معصوم بچے لیکن اُن کی چیخیں، اُن کی آہیں نئی۔ ہم بھی کیسی قوم ہیں نئی کہانی کے انتظار میں نئے نئے حادثات دیکھتے رہتے ہیں۔ ماضی میں بڑے سے بڑا حادثہ بس اور ٹرک کی ٹکر ہوا کرتی تھی یا ٹرین سے پٹڑی کا اُتر جانا، تانگے کا اُلٹ جانا یا دریا میں کشتی کا ڈوب جانا۔ نیا زمانہ نئے حادثات۔ کیا کسی نے کبھی غور کیا کہ اس چنگ چی کی وجہ سے سال میں کتنے لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور ہم اس کے باوجود بڑے شوق سے چنگ چی پر بیٹھتے ہیں۔ کہ اس پر بیٹھتے ہی چاروں طرف سے ہوا لگتی ہے، پیسے بھی کم لگتے ہیں اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ چنگ چی کا جب حادثہ ہوتا ہے تو تمام کے تمام مسافر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کہ چنگ چی پر بیٹھنے والا براہ راست ہٹ ہوتا ہے اسی لیے جب بھی کبھی ہم نے اس سواری کا حادثہ دیکھا، سنا یا پڑھا اس میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ زخمی نہ ہونے کے برابر۔ لیجئے صاحب نئے سال کی پہلی کہانی چنگ چی اور سکول کے بچے آپ نے پڑھ لی۔ ان بچوں کے بارے میں باقی کہانیاں اُن کی قبروں کے کتبے بتائیں گے جن پر اُن کی عمریں اتنی کم لکھی جائیں گی کہ قبرستان سے گزرنے والوں کے دل بھی دہل جائیں گے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ