جس وقت پوری دنیا میں محبت کے عالمی دن منانے کی تیاریاں پورے عروج پر تھیں عین اُسی وقت ملتان کے ایک ہسپتال میں پاکستان اور اُس کی مٹی سے محبت کرنے والا بلیو پاٹری کا استاد محمد عالم دَم توڑ رہا تھا۔ ہر وقت اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے استاد محمد عالم نے پوری دنیا میں ملتان کی مشہور ترین بلیو پاٹری کو متعارف کرایا۔ وہ ملتان کی ہر محفل کی پہچان تھے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اردگرد ”بڑا بندہ“ ہونے کی مصنوعی چادر نہیں اوڑھی تھی۔ وہ تو سراپا محبت تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے عاصی کرنالی مرحوم نے اپنا یہ شعر استاد محمد عالم جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا:
مَیں محبت ہوں مجھے آتا ہے نفرت کا علاج
تم ہر ایک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو
استاد محمد عالم سے پہلی ملاقات آج سے 25 برس قبل اُس وقت ہوئی جب وہ حکومتِ پنجاب کے قائم کردہ ادارہ میں مٹی کے برتنوں پر بلیو پاٹری کے ڈیزائن بنایا کرتے تھے۔ مقامی مارکیٹ میں اُن کے بنائے ہوئے گلاس، جگ، پلیٹ اور چائے کے کپوں کے علاوہ چھوٹے بڑے گلدان دستیاب تھے۔ ان کے کام کی خوبصورتی نے مجھے ان سے ملاقات کے لیے مجبور کیا۔ ملتان کے علاقہ ممتاز آباد کے قریب واقع جب مَیں بلیو پاٹری کے کارخانے پہنچا تو دیکھا کہ استاد محمد عالم ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے مٹی کے کورے برتنوں پر ڈیزائن بنا رہے تھے۔ مَیں نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے اپنے ساتھ بٹھایا۔ چائے کا کہا۔ میٹھے انداز میں اپنے کام کے بارے میں بتانے لگے تو معلوم ہوا استاد محمد عالم اپنے شعبہ (نقاشی اور کاشی گری) کے ”عالم“ ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں ”عالم“ اس لیے تھے کہ ان کی انکساری نے انہیں بہت بڑا کر دیا تھا۔ کبھی وہ اپنے بنائے ہوئے دیوہیکل گلدان کی طرف اشارہ کرتے اور بتاتے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا گلدان ہے تو کبھی وہ چاول کے دانے پر اپنی نقاشی دکھانے لگ جاتے۔ استاد محمد عالم ایک شعبہ کے وہ فرد تھے جنہوں نے نقاشی اور کاشی گری میں نہ صرف نئے تجربات کیے بلکہ انہوں نے محدود وسائل کے باوجود اپنے کام کو تیزی سے پھیلایا۔
استاد محمد عالم نے چند برس قبل حکومتِ جاپان کے تعاون سے ملتان سے چند کلومیٹر دور بہاولپور روڈ پر اپنا بلیو پاٹری کا سینٹر بنایا جہاں پر انہوں نے اتنی خوبصورت چیزیں تخلیق کیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ عمومی طور پر بلیو پاٹری میں دو رنگ استعمال (گہرا اور ہلکا نیلا) ہوتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس کام میں جدت یوں اپنائی کہ انہوں نے بلیو پاٹری میں سرخ، پیلا اور دیگر رنگوں کا استعمال بھی کیا۔ پاکستان بننے سے ایک سال پہلے پیدا ہونے والے استاد محمد عالم کا تعلق جالندھر سے تھا۔ جالندھر میں ان کا گھرانہ مساجد اور دیگر عمارات پر نقاشی کا کام کرتا تھا۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کا گھرانہ مساجد کی تزئین و آرائش میں مصروف رہتا۔ پاکستان بنتے ہی استاد محمد عالم کے والد ملتان منتقل ہوئے تو ان کی رہائش گاہ محلہ کمان گراں ٹھہری۔ ملتان کا یہ محلہ جنگوں میں استعمال ہونے والی ”کمان“ بنانے میں معروف تھا۔ اس محلہ میں استاد محمد عالم کا منتقل ہونا یوں بھی بہترا ہوا کہ ملتان کے اس علاقہ میں پہلے ہی بے شمار ایسے لوگ رہائش پذیر تھے جو ملتان کے اہم لوگ تھے۔ ملتان کی تحقیق کے حوالے سے ایک معتبر نام علامہ عتیق فکری اسی محلہ کے باسی تھے۔ حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ کے بانی حافظ احمد دین نے اسی گلی کے ایک گھر میں یہ مشہور سوغات بنانی شروع کی تھی۔ استاد محمد عالم کے گھرانہ کا اس گلی میں منتقل ہونا ان کے شوق کے لیے بہتر ثابت ہوا کہ انہوں نے اوائل عمری میں نقاشی کے نامور استاد اﷲ وسایا سے یہ فن سیکھا۔ محمد عالم نے نقاشی کے ساتھ ساتھ کاشی گری میں بھی دلچسپی لینی شروع کی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے کام میں نامور ہو گئے۔
ابھی استاد محمد عالم کی عمر اٹھارہ سال تھی کہ انہوں نے حکومت کے قائم کردہ ”ملتان بلیو پاٹری انسٹی ٹیوٹ“ کو جوائن کر لیا۔ نوجوانی کے عالم میں استاد محمد عالم نے اپنے اساتذہ کرام سے جو فن سیکھا انہوں نے اپنے تمام ہنر اس ادارے میں رہ کر خوب آزمائے۔ جس کے بعد ملتان بلیو پاٹری انسٹی ٹیوٹ میں تیار ہونے والی اشیاءکی شہرت پہلے ملک میں اور بعد میں بیرونِ ملک ہونے لگی۔ استاد محمد عالم کے ہاتھوں سے ڈیزائن کردہ برتن، گلدان اور دیگر چیزوں کی اتنی پذیرائی ہوئی کہ اسلام آباد میں مقیم سفارت کار بلیو پاٹری کے عشق میں ملتان آنے لگے۔ بلیو پاٹری انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ استاد محمد عالم کی خدمات جب مختلف مساجد اور مزارات والوں نے حاصل کیں تو ان کو اپنے چاہنے والوں کی محبت ہر طرف سے ملنے لگی۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے جب سٹوڈیو کے داخلی دروازے ہوں یا صادق پبلک سکول بہاولپور کی عمارت، حضرت بہاءالدین زکریا کا مزار ہو یا حضرت سچل سرمست کا آستانہ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت حافظ جمال، حضرت غلام حسن سواگ، حضرت کروڑ لعل عیسن کے مزارات بھی استاد محمد عالم کے فنِ کاشی گری سے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ملتان کے بلیو پاٹری انسٹیٹیوٹ کے ذریعے سینکڑوں افراد کو نقاشی اور کاشی گری کی تربیت دی۔ ان کے کم کی شہرت اتنی پھیلی کہ یونیسکو کے زیرِ اہتمام نمائش میں انہیں انعام ملا۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے 2010ءمیں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جب ہمیں معلوم ہوا تو ہم مٹھائی کھانے کے لیے ان کے اس کارخانے پہنچ گئے جو حکومتِ جاپان نے انہیں بنوا کے دیا تھا۔ استاد محمد عالم حکومت کی طرف سے پذیرائی پر بہت نہال تھے۔ چائے کے بعد جب ہم گپ شپ کر رہے تے تو انہوں نے بتایا کہ اب پاکستان کے لوگ اپنے گھروں کو خوبصورت بنانے کے لیے نیلی ٹائل کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ باتھ روم سیٹ، نمک دانی، ڈنر سیٹ، گلاس، کپ اور گلدان سب کچھ ہی ان کے کارخانے میں موجود تھے۔ ڈنر سیٹ کو دیکھتے ہوئے مَیں نے ان سے فرمائش کی کہ مَیں اپنی بیٹی کو جہیز میں بلیو پاٹری کا بنا ہوا ڈنر سیٹ دینا چاہتا ہوں۔معمولی سا ایڈوانس انکو پیش کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میری بیٹی سکول میں پڑھتی تھی۔ جب بھی استاد محمد عالم سے ملاقات ہوتی تو مَیں انہیں یاد کراتا کہ آپ نے میری بیٹی کے لیے ڈنر سیٹ بنانا ہے۔ وہ مسکراتے جواب دیتے کہ شاکر بھائی اﷲ مولا بہتر کرے گا آپ فکر نہ کریں۔ پھر ایک دن مَیں نے دیکھا کہ وہ جب میرے ہاں تشریف لائے تو اپنے ساتھ ایک کارٹن بھی لائے۔ مَیں خوش ہو گیا کہ استاد محمد عالم نے بیٹی کے لیے ڈنر سیٹ کا وعدہ وفا کر لیا۔ انہوں نے کارٹن کھولا تو مَیں نے دیکھا کہ اس میں چند گلاس، ایک جگ، کپ اور پلیٹیں تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مَیں نے ان تمام برتنوں پر آپ کا نام بھی لکھا ہے۔ جب مَیں نے غور کیا تومعلوم ہوا کہ ہر برتن پر انہوں نے خوبصورت انداز میں میرا نام لکھا تھا۔ انہوں نے مجھے 1996ءمیں اپنی طرف سے ایک گلاس تحفہ میں دیا تو اس پر انہوں نے اپنا نام اور سن لکھا۔ وہ گلاس مجھے اتنا پسند آیا کہ تب سے لے کر اب تک 22 برس ہو گئے ہیں مَیں اپنے آفس میں اُسی گلاس میں پانی پیتا ہوں۔
آج سے چند سال پہلے مَیں نے جب انہیں اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ بھجوایا تو رخصتی کا وقت رات کا طے ہوا۔ دن میں اچانک وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ میرے گھر تشیف لائے تو ان کے ساتھ دو بڑے کارٹن تھے۔ مَیں سمجھ گیا کہ استاد محمد عالم نے اپنا وعدہ وفا کر دیا۔ تب تک ہم پورا جہیز لڑکے والوں کے گھر بھجوا چکے تھے۔ انہوں نے چائے پینے کے بعد پورا ڈنر سیٹ ڈسپلے کیا۔ آٹھ آدمیوں کے لیے وہ ڈنر سیٹ خوبصورت کا شاہکار تھا۔ دو تین برتنوں پر انہوں نے میری بیٹی کا نام بھی لکھا۔ میری بیٹی جب مکلاوے کے بعد اپنے سسرال جانے لگی تو مَیں نے وہی سیٹ اس کے ہمراہ کیا۔ بلیو پاٹری کارکری عنیزہ بیٹی کو بہت پسند ہے۔ وہ استاد محمد عالم کی طرف سے وہ تحفہ پا کر بہت مسرور ہوئی۔ رات کو رخصتی پر بھی استاد محمد عالم اپنے بیٹوں کے ہمراہ شریک ہوئے تو جاتے ہوئے انہوں نے سلامی کا لفافہ دیا تو مَیں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ آپ نے جو ڈنر سیٹ عطا کیا اس کی تو کوئی قیمت نہیں۔ وہ نہ مانے لیکن جب مَیں نے ضد کی تو انہوں نے کہا اچھا آپ کی خوشی سر آنکھوں پر۔ استاد محمد عالم کے کام کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند برس پہلے میرا بیٹا پڑھنے کے لیے بیرونِ ملک گیا تو مَیں نے اس کے ساتھ ملتانی بلیو پاٹری کے چھ گلاس اور چائے کے مگ کر دیئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے گھر آنے والے مہمانوں کو انہی گلاس و کپ میں چائے جوس پلائے اس طرح میرا بیٹا اپنے ملک کی ثقافت سے بھی جڑا رہے گا اور دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں کو بلیو پاٹری کے متعلق بتا سکے گا۔
کچھ عرصہ قبل استاد محمد عالم کی شریکِ حیات طویل بیماری کے بعد انتقال کر گئیں تو مَیں تعزیت کے لیے ان کے گھر گیا۔ کافی دیر انتظار کیا تو ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں تو وہ مرجھائے دکھائی دیتے۔ دسمبر میں وہ میرے بیٹے کی شادی میں تشریف نہیں لائے تو مجھے فکر لاحق ہوئی کہ ان کی طبیعت ٹھیک ہو۔ مَیں نے ان کے موبائل فون پر رابطہ کیا تو وہ بند ملا۔ 13 فروری 2018ءکی رات کو جب محبت کرنے والے ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کرنے کے لیے تحائف خرید رہے تھے استاد محمد عالم بھی اپنی شریکِ حیات سے محبت کی باتیں کرنے کے لیے اُسی دنیا میں چلے گئے جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی۔ مَیں نے ان کے انتقال کی خبر کی تصدیق کے لیے بیٹے فیض کو فون کیا تو وہ شدتِ غم سے تفصیل تو نہ بتا سکا۔ البتہ روتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ دسمبر میں اگر ان کی طبیعت ٹھیک ہوتی تو وہ آپ کے بیٹے کی شادی پر ضرور آتے۔ یہ کہہ کر ان کا بیٹا فیض پھر رونے لگا کہ ان کے سر سے اپنے شعبہ کا ”عالم“ رخصت ہو چکا تھا۔
فیس بک کمینٹ