ادب میں اگرچہ مردانہ و زنانہ کی تخصیص مناسب نہیں ہوتی اور نہ اچھا شعر یا اچھا نثرپارہ اس نظر سے پرکھا جاتا ہے کہ وہ مرد کے قلم سے تحریر ہوایا اسے کسی خاتون نے تخلیق کیا ہے ،لیکن اس کے باوجود شاعری میں ہمیشہ مرد اور عورت کی تخلیقات کو الگ الگ زاویوں سے دیکھا اور پرکھا گیا۔ بعض شعرا اور ناقدین اس پر آج بھی اصرار کرتے ہیں کہ غزل کے معنی عورت کے ساتھ گفتگو کے ہیں ،سو غزل خاص طورپر مرد کی میراث ہے اور اس میدان میں اگر کوئی خاتون اپنا لوہا منوانا بھی چاہے، تو اسے شکوک وشبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ غزل جن مشاہدات اور تجربات کا احاطہ کرتی ہے، ہمارے معاشرے میں ان تجربات اور مشاہدات کا حصہ بننا عورت کے لئے ممکن نہیں، لیکن تمام تر تنگ نظری اور الزامات کے باوجود خواتین شعرا نے اپنی صلاحیتوں کو ہر دورمیں تسلیم کروایا ۔یہ الگ بات کہ ان کو مرد کے مقابلے میں بے شمار مسائل اوررکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں ،وہ مردانہ حاکمیت کے ساتھ ذہنی گھٹن کا بھی شکار ہے۔ کوئی خاتون کسی بھی شعبہ میں نمایاں نظر آتی ہے یا اپنی پہچان کروانا چاہتی ہے، تواسے بہت سے ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں کہ جن کا وہ اظہار بھی نہیں کرسکتی۔وہ مرد کی طرح حسن وعشق کی کہانی نہیں سناسکتی ۔ ہجر و فراق کی اذیتوں کو بیان نہیں کرسکتی اور ایسے بہت سے بنیادی جذبات و احساسات بھی قلم بندنہیں کرسکتی جو ہمارے گردوپیش میں بھی موجود ہیں اور جس کااس کو سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔شبنم شکیل نے اسی گھٹن زدہ ماحول میں آنکھ کھولی اور شعری افق پر قارئین وناقدین کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ انہوں نے ایک علمی وادبی ماحول میں پرورش پائی ۔ ان کے والد سید عابد علی عابد کا نام علم و ادب کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔فارسی کے استاد کی حیثیت سے عابد علی عابد نے لاہور میں طویل خدمات انجام دیں۔ادبی صحافت کے ساتھ بھی منسلک رہے،یوں شبنم شکیل کی پرورش علم دوست اور کتاب دوست ماحول میں ہوئی۔وہ12مارچ1942ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم گجرات اور لاہور سے حاصل کی۔1961ء میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے کیا،جہاں انہیں سید وقار عظیم،ڈاکٹر عبارت بریلوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسی نامور شخصیات سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان اساتذہ نے ان کے ذوق کو نکھارا اور ان کی شخصیت اور کردار پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ شبنم شکیل کے گھرمیں علمی و ادبی محفلیں سجتی تھیں۔ انہوں نے بچپن سے ہی اپنے والد کے دوستوں ڈاکٹر تاثیر، فیض احمد فیض، پطرس بخاری، صوفی تبسم، عبدالمجید سالک کی محفلیں دیکھیں۔7سال کی عمر میں انہوں نے ریڈیو پاکستان ،لاہور کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کردیا۔جہاں ان کی ملاقات انور سجاد،مصطفی ہمدانی،قتیل شفائی جیسی نامور شخصیات سے ہوئی۔اسی دوران ان کے شعری سفر کا بھی آغاز ہوا اور انہوں نے غزل اور نظم کو ذریعہ اظہار بنایا۔ایم اے کے بعد شبنم نے درس و تدریس کے شعبہ کے ساتھ وابستگی اختیار کی۔ وہ1961-67ء میں کوئین میری کالج میں لیکچرار رہیں۔بعدازاں انہولاہور کالج فارویمن ،کنیئرڈکالج لاہور،گورنمنٹ گرلزکالج کوئٹہ،فیڈرل کالج اسلام آباد اور گورنمنٹ گرلز کالج سیٹیلائٹ ٹاؤ ن راولپنڈی میں بھی وقفے وقفے سے تعلیمی خدمات انجام دیں۔2مارچ 2013ء کو ان کا کراچی میں انتقال ہوا اور انہیں اسلام آباد میں سپرد خاک کیا گیا ۔ ان کے شعری مجموعوں میں’’شب زاد‘‘،’’اضطراب‘‘،’’مسافت رائیگاں’’شامل ہیں۔ ان کے افسانے ’’نہ قفس نہ آشیانہ‘‘،خاکے ’’آوازتو دیکھو‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔ شبنم شکیل نے اپنی شاعری میں عورت کے دکھوں کو موضوع بنایا۔ وہ ان چند خواتین شعرا میں سے ایک ہیں ،جو اپنے نسائی لہجے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔شبنم شکیل کی تخلیقی اور فکری کائنات کو معروف ماہر تعلیم حنا جمشید نے اپنے تخلیقی مقالے کاموضوع بنایا،جس کے ذریعے ان کی زندگی کے کئی نئے زاویے سامنے آئے۔حال ہی میں شائع ہونے والا یہ تحقیقی مقالہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ حنا جمشید نے اس کے ذریعے نہ صرف شبنم شکیل کی فکری کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی بلکہ ادب کے قارئین کو بھی ایک ایسی شاعرہ کی زندگی کا احوال بتایا، جسے مرد کے اس معاشرے میں اپنا گھر بچانے کے لئے اپنے شعری سفر کو کچھ عرصے کیلئے موقوف کرناپڑا۔حنا جمشید گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال میں اُردو پڑھاتی ہیں ۔ تعلیم و تحقیق ان کا میدان ہے ۔ شبنم شکیل کا احوال زندگی جاننے کے لئے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن حنا جمشید نے ثابت قدمی کے ساتھ تحقیق کا سفر جاری رکھا ۔ وہ چاہتیں تو صرف دستیاب وسائل پر ہی اکتفا کر سکتی تھیں کہ فی زمانہ تحقیق کے میدان میں ایسا ہی ہوتا ۔ تحقیق کا مقصد چونکہ اب صرف ڈگری اور مالی منفعت کا حصول ہی رہ گیا، سو کسی بھی موضوع پر کام کرنے والے اب نئے جہانوں تک رسائی حاصل نہیں کرتے ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ ہم یہاں حنا جمشید کی اس کاوش کو ہی مد نظر رکھتے ہیں، جس کے ذریعے انہوں نے شبنم شکیل کی زندگی کے ان گوشوں کو بھی بازیاب کیا، جو پہلے ان کے قارئین سے اوجھل تھے ۔اس منزل تک پہنچنے کے لئے انہیں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ان کا مختصر احوال بھی اس کتاب کے پیش لفظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ہر تخلیق کار کی زندگی کے کچھ گوشے ایسے ضرور ہوتے ہیں، جنہیں وہ کھلے عام بیان نہیں کرتا، لیکن وہ اس کی تخلیقات کا کسی نہ کسی طور حصہ بن رہے ہوتے ہیں ۔ مرد تخلیق کار بھی ایسے گوشوں کا اظہار کبھی مناسب نہیں کرتے اور خواتین کے لئے تو ان کا بیان ناممکن ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کئی اور سوالات سامنے آ جاتے ہیں اور کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی جانے لگتی ہیں ۔حنا جمشید نے اس ساری صورتِ حال کو سمجھا اور پھر شبنم شکیل کی صاحبزادی اور دیگر اہل خانہ کی مدد سے تمام معلومات حاصل کیں ۔ ایک اچھی بات یہ نظر آ ئی کہ انہوں نے شبنم کے دکھوں اور مشکلات کو عورت ہونے کے ناطے ہمدردی سے سمجھا اور پھر ان کی تخلیقات کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا ۔ انہوں نے بعض مسائل کا سرسری اور ڈھکے چھپے انداز میں ذکر کیا اور بعض باتوں کو اس مقالے کا حصہ بھی نہیں بنایا ، جو باتیں حنا کو شبنم کی صاحب زادی ملاحت اعوان نے امانت کے طور پر بتائیں۔ حنا نے انہیں امانت ہی رکھا اور تحقیق کی طالب علم کی حیثیت سے یہ حنا کی ایسی خوبی ہے ،جس کی کھلے دل کے ساتھ تعریف کی جانی چاہیے، یہ ایک غیر روایتی کام ہے اور اس کے نتیجے میں شبنم شکیل کے فن کی بھی کئی جہتیں سامنے آئی ہیں ۔ ان کی افسانہ نگاری کا تفصیلی ذکر اس کتاب میں موجود ہے اور ان کے ٹی وی پروگرام کا احوال بھی بیان کیا گیاہے ،جس میں موسیقی پر بات ہوتی تھی اور ٹی وی انتظامیہ کی جانب سے شبنم شکیل کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ موسیقی کے تذکرے کو پاکستان تک محدود رکھیں اور اس میں بھارتی شخصیات کو شامل نہ کریں ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ادب کے طالب علموں کو پاکستان کا ادبی و سیاسی منظر نامہ سمجھنے میں مدد دیں گی ۔ بحیثیت مجموعی حنا جمشید کی یہ تحقیق کاوش شبنم شکیل کو دریافت کرنے کا ہی ایک عمل ہے کہ اس کے ذریعے ان کی تخلیقات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملے گا ۔امید ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے موضوعات پر اسی انداز میں کام جاری رکھیں گی
فیس بک کمینٹ