جب سے کرشنا کوہلی پی پی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئی ہیں تب سے مَیں سوچ رہا تھا کہ تھر سے تعلق رکھنے والی اس سیاستدان پر کچھ لکھوں۔ ابھی ان کی شخصیت کے متعلق لکھنے کے لیے ذہن میں خاکہ سوچ رہا تھا کہ اخبارات میں ان کے بارے میں بے شمار خبریں، مضامین اور انٹرویوز آ رہے ہیں۔ سیاست میں عہدہ ملنا کتنا بڑا اعزاز ہے کہ ایک دم سے انسان زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے زمانے میں تھر کے علاقے میں خوراک نہ ہونے سے سینکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ میڈیا چیختا رہا لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے سیّد قائم علی شاہ کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ سیّد قائم علی شاہ کی سندھ پر رٹ کمزور ہو گئی تو آصف علی زرداری سیّد مراد علی شاہ کو وزیرِ اعلیٰ لے آئے۔ یقینی طور پر موجودہ وزیرِ اعلیٰ سندھ بڑے صاحب کی مرادیں بَر لا رہے ہیں۔ اسی لیے تو سندھ سے ”سب اچھا ہے“ کی خبریں آ رہی ہیں۔ انہی اچھی خبروں کے ہجوم میں اچانک سینیٹ کی خبریں بھی شروع ہو گئیں اور پھر سب سے اچھی خبریں بھی سندھ سے آئیں جن میں دو سینیٹرز ایسے تھے کہ ان کے نام دیکھ کر نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ سیاست کے میدانِ کارزار میں اگر نظریاتی طور پر کوئی پارٹی زندہ ہے تو وہ آج پاکستان پیپلز پارٹی ہے کہ اس پارٹی نے سندھ سے سینیٹ کے انتخابات کے لیے جن دو اُمیدواران کو کامیاب کرایا ہے ان میں ایک کرشنا کماری کوہلی ہے جبکہ دوسرے سینیٹر کا نام انور لال ڈین ہے۔
آج جی میں ہے کہ اپنے پڑھنے والوں سے کرشنا کوہلی کے متعلق باتیں کی جائیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جس عورت نے بچپن میں اپنے والدین کے ہمراہ عمرکوٹ کے ایک زمیندار کی قید کاٹی۔ اس زمیندار نے یہ بھی کہا تھا کہ اس قید کے دوران کوئی ملاقات بھی نہیں کر سکے گا۔ اس وقت کرشنا کی عمر دو سال تھی۔ گھر کے حالات ایسے تھے کہ اس کے والدین کو روزگار کی تلاش کے لیے قریہ قریہ جانا پڑتا تھا۔ 48 سالہ کرشنا کماری کوہلی کا کہنا ہے کہ مَیں جب سے ایوانِ بالا کی رکن منتخب ہوئی ہوں تب سے مختلف اخبارات میں آ رہا ہے کہ میرا تعلق دلت ذات سے ہے جس کو بھارت میں سب سے کم تر جانا جاتا ہے۔ کرشنا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا اگر بھارت میں دلت ذات کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو کیا ہوا؟ مجھے اب بھارت کے ساتھ کیوں جوڑا جا رہا ہے؟ اگر مَیں غریب ہوں تو کیا ہوا پی پی پی نے مجھے میری دولت کی بجائے تھر کے غریبوں کے لیے کام کی وجہ سے چنا ہے۔ اس لیے اب یہ بحث فضول ہے کہ مَیں کون ہوں؟ کتنی غریب ہوں اور میری ذات کیا ہے؟
کرشنا بڑے فخر سے اپنے والدین کا ذکر کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ جب بطور سینیٹر کے حلف اٹھانے کے لیے اسلام آباد گئی تو اس کے ساتھ شریکِ حیات کے علاوہ اس کے والدین بھی تھے۔ دونوں ماں بیٹی نے تھر کا روایتی لباس اور پلاسٹک کا زیور پہن رکھا تھا۔ وہ سینیٹ جہاں کے اراکین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا رکن ہونے کی بنیادی اور اہم شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ اُمیدوار کم از کم ارب پتی تو ہو۔ فیشن ایبل اراکینِ اسمبلی کے ہجوم میں جب کرشنا جب اسی لباس میں ایوانِ بالا گئی تو اس کے چہرے پر کوئی ندامت نہیں تھی کہ اس کا انتخاب بھی تو اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے پسماندہ اور محکوم عوام کے لیے آواز بلند کر سکے۔ سوشل میڈیا پر اس کی وہ تصاویر وازرل ہوئیں جس میں وہ والدہ و والد کے ساتھ ایوانِ بالا کے باہر کھڑی تھیں۔ اگر میرے پڑھنے والوں نے وہ تصاویر دیکھی ہوں تو ان کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرشنا کے والدین نے کتنی مشکلات کے باوجود 4 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کی پرورش کی۔
بلند و بالا سینیٹ کی عمارت میں کرشنا کوہلی نے قدم رکھا ہو گا تو کبھی اس عمارت کے بنانے والوں نے یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ کبھی اس عمارت میں ایسی لڑکی بھی آئے گی جسے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اتنی مشکلات دیکھی ہوں گی کہ بار بار سکول تبدیل کرنے پڑے کہ کبھی اس کے والدین کسی زمیندار کے ہاں نوکری کرتے تو کبھی کسی دوسرے زمیندار کے پاس۔ ابھی کرشنا کی عمر 15 برس تھی کہ اس کے والدین نے اس کی شادی کر دی۔ یاد رہے ہمارے ہاں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کی سب سے بڑی خوش خبری یہ ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ کم عمری میں آ جائے اور اچھا گھر بھی مل جائے۔ کرشنا اس لحاظ سے خوش نصیب ٹھہری کہ شادی کے بعد اُس کے سسر نے اُسے مزید پڑھنے کی اجازت دی یوں اس نے عمرانیات میں ایم۔اے کر کے علاقہ کی تعمیر و ترقی کا سوچا۔ 2007ءسے وہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف سرگرم ہوئی۔ اسی دوران وہ نظریاتی طور پر پی پی سے متاثر ہوئی اور بطور صدر آصف علی زرداری کے اقدامات کو سپورٹ کرنے لگی۔ 2015ءمیں باقاعدہ پی پی میں شامل ہو گئی۔
سینیٹر کرشنا کماری کے والدین کو جب یہ بتایا گیا کہ ان کی بیٹی سینیٹ کی رکن منتخب ہو گئی ہے تو انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی اور کہنے لگے ہماری بیٹی کو اسلام آباد میں نوکری مل گئی ہے۔ علاقے کے جن لوگوں کو یہ معلوم ہوا ہے سمجھ نہیں کہ سینیٹر ہونا کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ وہ کرشنا کماری کوہلی کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری کرشنا کماری اور انور لال ڈین کی جگہ پر کسی بھی سرمایہ دار ہندو یا عیسائی کو سینیٹرز بنوانے کا عندیہ دیتے تو وہ آصف علی زرداری کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے کہ ہمارے ملک کی سیاست کا چلن بھی یہی ہے کہ یہاں پر سرمایہ داروں اور زمینداروں کے لیے سیاست کرنا ہے کرشنا کوہلی اور انور لال ڈین جیسے غریب لوگ کبھی ایوانِ بالا کا رکن بننے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ننگرپارکر کے ہاری خاندان کے جگنو کے گھر پیدا ہونے والی کرشنا اپنے والد جگنو کے لیے روشنی کا پیغام بنی کہ اس نے شادی کے بعد اپنے شریکِ حیات لال چند سے چند گزارشات کی کہ وہ ابھی اور پڑھنا چاہتی ہے اس کے لیے کرشنا کے سسر نے بھی اپنے بیٹے کا ساتھ دیا۔ فروری 1979ءمیں پیدا ہونے والی کرشنا کے لیے فروری 2018ءبھی خوشی کی بڑی خبر لایا کہ بلاول بھٹو زرداری اور اس کی پھوپھی فریال تالپور نے اسے یقین دہانی کرائی کہ وہ مارچ 2018ءمیں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں پی پی پی کی طرف سے اُمیدوار ہوں گی۔ آخرکار وہ بھاری اکثریت سے سینیٹر منتخب ہوئی۔ اسے کیا معلوم ہے کہ وہ جس ایوانِ بالا کی رکن منتخب ہوئی ہےں ا سے پہلے جو خواتین منتخب ہوتی رہی ہیں ان کے ایک سوٹ کا بجٹ کرشنا کماری جیسی عورت کے پورے گھرانے کا بجٹ ہوتا ہے۔ جن گاڑیوں پر سفر کر کے وہ آتی ہیں ان گاڑیوں کی قیمت اور ماڈل کا بھی کرشنا کو علم نہیں ہو گا۔ جوتے کس بڑی کمپنی کے پہنتی ہوں گی اس بارے میں کرشنا تو بے خبر ہو گی۔ جیولری کو دیکھ کر کرشنا سوچا کریں گی کہ معلوم نہیں اس کے برابر جو خاتون تشریف فرما ہو گی اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں کتنے لاکھ کی انگوٹھیاں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ اس سب کے باوجود کرشنا کماری کے لیے یہ اعزاز کی بات ہو گی کہ وہ تھر کے مسائل، عورتوں اور بچوں کی بہتری کے لیے اس ایوان میں بات کریں گی جس ایوان میں کبھی محترمہ بینظیر بھٹو کی آواز گونجا کرتی تھی۔ کرشنا کماری کوہلی آپ کے لیے بے شمار دُعائیں کہ آپ روشنی کی سفیر بن کر ایوانِ بالا میں موجود رہیں کہ آپ کی موجودگی مجبور، محکوم لوگوں کو نیا حوصلہ دے گی۔
فیس بک کمینٹ