یہ 26 اگست 2018ءکی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر چیف کمرشل منیجر پاکستان ریلوےز ہیڈکوارٹرز آفس لاہور محمد حنیف گل کی ایک درخواست وائرل ہوتی ہے اور وہ درخواست دو سال کی چھٹی مع تنخواہ کے ہوتی ہے۔ جیسے ہی محمد حنیف گل کی یہ درخواست لوگوں تک پہنچتی ہے تو الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا اُن کی حمایت میں آ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے حامی بغیر سوچے سمجھے محمد حنیف گل کی مخالفت میں میدان میں اتر آتے ہیں۔ کوئی محمد حنیف گل کی درخواست کی آڑ میں بیوروکریسی کے لتے لیتا ہے تو کوئی اسے مسلم لیگ ن کا پٹواری قرار دیتا ہے۔ کسی نے اسے کرپٹ افسر قرار دیا تو کوئی اس کی ریحام خان کے ساتھ ایک تصویر لگا کر خوش ہوا۔ سوشل میڈیا کے اس ہجوم میں جب غیر ذمہ داری اپنے عروج پر ہے تو کوئی شخص بھی سوچے سمجھے بغیر کسی کی بھی پگڑی اچھال کر اپنے آپ کو عمران خان کی حمایت کا ثبوت دیتا ہے۔ لیکن آج اگر ہم جھوٹ کا ساتھ دیں گے تو موجودہ حکومت کے اگلے پانچ برس روزانہ اسی قسم کے حادثات میں گزرتی رہے گی۔ وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد اور محمد حنیف گل کے درمیان جو گفتگو (جو بعد میں تلخ کلامی پر تمام ہوئی) سامنے آئی اس کے بعد ہمیں شیخ رشید کی بجائے محمد حنیف گل کے بارے میں کھوج لگانی چاہیے کہ یہ شخص نظریاتی طور پر کہاں کھڑا ہے اور اس نے اپنے وفاقی وزیر کے سامنے کلمہ حق کیوں بلند کیا؟
مانسہرہ کے نواح میں ”اُگی“ میں پیدا ہونے والا محمد حنیف گل کرکٹ کا شروع سے شوقین اور عمران خان کا مداح ہے۔ تین بہن بھائیوں میں محمد حنیف گل نے پہلی مرتبہ کسی بھی تعلیمی ادارے کا منہ لاہور میں اس وقت دیکھا جب وہ ایل ایل بی کرنے پاکستان کالج آف لاءمیں پہنچا۔ اس کے سینئرزاسے دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ ایک سرخ و سفید نوجوان سب سے پہلے کالج پہنچتا ہے اور شام کو لائبریری بند ہونے پر سب سے آخر میں کالج سے باہر آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد حنیف گل نے بی۔اے تک ساری تعلیم گھر میں حاصل کی۔ اب جو اسے کالج کا ماحول ملا تو اسے اپنی تمام محرومیاں یاد آئیں جو سکول اور کالج میں نہ پڑھنے والے طالب علموں کی ہوا کرتی ہےں۔ باوجود اس کے کہ وہ پہلی مرتبہ کسی تعلیمی ادارے کا رُکن ہوا وہ اپنے سیشن کا مقبول ترین طالب علم قرار پایا۔ کتاب سے عشق اس کو گھر سے ملا۔ تین بہن بھائیوں میں دو نے سی ایس ایس کا امتحان نمایاں پوزیشن میں کامیاب ہوئے۔ محمد حنیف گل نے مقابلے کے امتحان میں انگلش Essay میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے جس میں زیادہ تر لوگ ناکام ہوتے ہیں۔ ریلوے گروپ محمد حنیف گل کا مقدر ٹھہرا۔ ریلوے میں آنے کے بعد میری محمد حنیف گل سے پہلی ملاقات ملتان میں اس وقت ہوئی جب وہ ملتان ریلوے ڈویژن میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ یہ بات جنرل پرویز مشرف کے زمانے کی ہے جب ملتان کے ڈی ایس ریلوے نے محمد حنیف گل اور اکاؤنٹ افسر ڈاکٹر عمر فاروق کو ریلوے کے ایک ملازم کے خلاف انکوائری کے لیے نامزد کیا اور ساتھ میں یہ بھی ہدایت کی کہ مجھے اس ملازم کے خلاف فیصلہ چاہیے۔ حنیف گل اور عمر فاروق بیچ میٹ ہونے کے ساتھ ساتھ میرٹ پر فیصلہ کرنے کی ساکھ رکھے ہوئے تھے۔ دونوں افسران نے اپنے اعلیٰ افسر کی خواہش کے برعکس جب ریلوے کے اس ملازم کو بےگناہ قرار دیا تو ڈی ایس ریلوے کا غصہ دیدنی تھا۔ عمر فاروق اپنا تبادلہ ملٹری اکاؤنٹس میں کروا گئے اور محمد حنیف گل اپنی اسی ساکھ کے تحت ریلوے میں کلمہ حق بلند کرتے رہے۔ ملتان میں اپنے قیام کے دوران ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش نشتر ہسپتال میں ہوئی۔ جہاں پر آج متوسط آمدنی رکھنے والا شخص بھی جانے کا تصور نہیں کر سکتا لیکن محمد حنیف گل نے اعلیٰ سول سرونٹ ہونے کے باوجود سرکاری ہسپتال کا انتخاب کیا۔
ملتان سے تبادلے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے امریکہ پڑھنے کے لیے گئے۔ وہاں ان کو بے شمار جگہوں پر پاکستان سے کئی گنا زیادہ اچھے مشاہرے پر نوکری کی پیشکش ہوئی لیکن وہ پاکستان ریلوے میں رہ کر اس کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔ محمد حنیف گل سے جب بھی کبھی رابطہ ہوتا تو وہ ہمیشہ اُردو کے نئے ناول اور افسانوں کے بارے میں دریافت کرتا۔ ٹیلیفونک ملاقات پر شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسمان‘ پر ان کی رائے سنی تو خوشی ہوئی کہ محمد حنیف گل نے ریلوے میں مصروفیت کے باوجود کتاب سے رشتہ نہیں توڑا۔ وہ ڈی ایس ریلوے کوئٹہ سے جب پشاور ڈی ایس ریلوے تعینات ہوئے تو مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کوئٹہ ڈویژن میں ریلوے کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کیے کہ سی پیک میں صوبہ بلوچستان میں ریلوے کا بہت بڑا شیئر ہے اور اس شیئر کو حاصل کرنے کے لیے مَیں نے بے شمار منصوبے حکومت کو بنا کر دیئے جس کو چین نے اسی طرح ہی اپنے منصوبے کا حصہ بنا لیا جس طرح محمد حنیف گل نے اس کو ڈیزائن کیا۔
گزشتہ برس اپریل میں اکادمی ادبیات پاکستان کی ایک کانفرنس کے سلسلے میں پشاور جانا ہوا۔ کانفرنس سے فارغ ہوتے ہی مَیں نے حنیف گل سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا گھر آ جائیں رات کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔ کئی برس بعد اس ملاقات میں مَیں نے اُن سے پوچھا کہ عمران خان KPK میں کیسا کام کر رہے ہیں؟ تو محمد حنیف گل نے تفصیلاً اُن کی حکومت کی صحت، تعلیم اور پولیس کے نظام کی بہتری کے اقدامات کی نہ صرف حمایت کی بلکہ انہوں نے تب بھی یہ پیشگوئی کر دی تھی کہ KPK میں اگلی حکومت بھی عمران خان بنائے گا۔ مَیں نے اُن کی ساری گفتگو کو عمران خان کے ایک حامی کے طور پر جانا کہ میرے علم میں تھا کہ محمد حنیف گل کرکٹ کا شوقین اور عمران خان کا شروع سے مداح ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ محمد حنیف گل نے ریلوے میں خواجہ سعد رفیق کے کاموں کو بھی سراہا کہ وہ اُن کی ٹیم کا حصہ تھا۔ محمد حنیف گل نے یہ بھی بتایا کہ جب ہم ریل کی بہتری کے خواجہ صاحب کو کوئی تجویز دیتے ہیں تو وہ اس تجویز کے حق کے لیے اپنی ٹیم سے ضرور مینڈیٹ لیتے ہیں۔ پشاور سے ملتان آنے کے لیے جب مَیں نے اُن سے اجازت مانگی تو انہوں نے کہا رات کو خیبر میل یہاں سے روانہ ہوتی ہے۔ مَیں نے اس میں آپ کے لیے ایک سیٹ رکھوا دی ہے۔ میرا سٹاف آپ کے ساتھ اسٹیشن تک جائے گا اور مَیں پھر اُن سے اجازت لے کر پشاور ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ جیسے ہی اسٹیشن پر پہنچا تو انہی کے عملے نے مجھے کہا سر ٹکٹ خرید لیں مجھے عملے کا یہ رویہ بہت اچھا لگا اور معلوم ہو گیا کہ محمد حنیف گل اپنے مہمانوں کو بھی ٹکٹ کے ذریعے سفر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ن لیگ کی حکومت تمام ہوئی۔ مجھے ایک سو ایک فیصد یقین ہے محمد حنیف گل نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے۔ ثبوت کے لیے اُن کا فیس بک دیکھا جا سکتا ہے خاص طور پر PTI کے قاسم سوری کی جیت پر وہ ایسے خوش ہوئے جیسے وہ خود اسمبلی میں پہنچ گئے ہوں۔ اُن کے ذاتی دوست جانتے ہیں کہ نجی محافل میں عمران خان کے لیے کتنے سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن شیخ رشید کو کیا معلوم کہ ادارے سیاستدان نہیں بلکہ اس کے وہ مخلص کارکن چلاتے ہیں جو کبھی افسر ہوتے ہیں اور کبھی او ایس ڈی۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ