رضی الدین رضیسرائیکی وسیبکالملکھاری
اقبال ارشد : د کھوں کا موسم تمام ہوا ۔۔ رضی الدین رضی

اقبال ارشد نے بھی رخصتی کے لئے اسی مہینے کا انتخاب کیا جس میں حسین سحر ہم سے جدا ہوئے تھے ۔ سحر صاحب اقبال ارشد کو اپنا ہم زاد کہتے تھے ۔ان کی اقبال ارشد کے ساتھ مثالی دوستی تھی اور ان کے بغیر اقبال ارشد جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ اور وہ ان کے بغیر جیئے بھی کب ؟ ان دنوں میں جب ہم حسین سحر کی برسی کی تیاری کر رہے ہیں اور پندرہ ستمبر کو ان کی دوسری برسی آ رہی ہے ۔ انہی دنوں میں اسی ستمبر کے ستم گر مہینے میں اقبال ارشدرخصت ہو گئے ۔ ہم نے یہ تحریر یکم ستمبر کو تحریر کی تھی اور اسی روز ہم شاکر ، نوازش ، تحسین غنی اور اسرار چوہدری کے ساتھ ان کی عیادت کے لئے بھی گئے لیکن اقبال ارشد غنودگی میں تھے انہوں نے ہم سے کوئی بات نہ کی ۔ اقبال ارشد ایک بے پناہ شاعر ایک قہقہے لگانا والا انسان جس حال میں رخصت ہوا وہ بہت اذیت ناک ہے ۔ جمعرات کے روز ادبی بیٹھک کے بعد برادرم مستحسن خیال نے بتایا تھا کہ آج تحسین غنی نے بھی بیٹھک میں آنا تھا مگر وہ اس لئے نہیں آ سکے کہ وہ ہسپتال میں اقبال ارشد صاحب کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ہم نے تحسین غنی سے رابطے کی کوشش کی تاکہ معلوم ہوسکے کہ اقبال بھائی کس ہسپتال میں ہیں اورہم ان کی عیادت کے لئے جاسکیں مگرتحسین غنی سے بات نہ ہو سکی ۔پھر تحسین نے بتایا کہ اقبال ارشد اب گھرمنتقل ہوچکے ہیں لیکن ان کی حالت اچھی نہیں ہے ۔اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیاتحریرکررہاہوں یا کیا تحریر کرنے والا ہوں ۔ کچھ لمحے ہیں جو میری نظروں کے سامنے ہیں اور ان لمحوں میں اقبال ارشد لہک لہک کر غزل سنا رہے ہیں
تجھ سے کرب ذات کا اظہار کیسے ہو گیا ؟
تُو محبت کے لئے مسمار کیسے ہو گیا ؟
موم جیسے لوگ کہساروں میں کیسے ڈھل گئے ؟
جن کا لہجہ پھول تھا تلوار کیسے ہو گیا ؟
میں نے تو ہلکی سی دستک سے پکارا تھا اسے
شہر سارا نیند سے بیدار کیسے ہو گیا ؟
اور ان کا وہ مشہور زمانہ شعر
تُو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہر جائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
اور میری نگاہوں میں با باہوٹل ہے اور مظفر گڑھ اور وہاڑی کے مشاعرے ہیں جہاں اقبال ارشد ہمارے ساتھ ہوتے تھے ،قہقے لگاتے تھے ہمیں مصرعے دیتے تھے اوران مصرعوں پرگرہ لگانے کو کہتے تھے ۔باباہوٹل سے دس بجے شب اطہر ناسک اختر شمار اورطفیل ابن گل کے ہمراہ ہم اقبال ارشدکو گھنٹہ گھر یادولت گیٹ تک چھوڑنے کے لئے جاتے تھے یہ پیدل کاسفر صرف اس لئے ہوتاتھاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ان کی رفاقت حاصل کرسکیں ۔وہ بے تکان بولتے تھےاور کہانیاںسناتے تھے ۔پھر نوے کے عشرے میں ان کے اکلوتے جواں سال بیٹے عدنان کا انتقال ہوا اور اقبال ارشد کے قہقہے ہچکیوں میں تبدیل ہو گئے ۔ اقبال ارشدکے لئے یہ صدمہ جان لیواتھا۔وہ بیٹے کی موت کے بعد اتناروئے کہ اپنی آنکھوں کانوربھی کھو بیٹھے ۔پھراذیت کاطویل سفرہے۔ بینائی بالکل ختم ہوگئی توان کی مشاعروں اورتقریبات میں شرکت بھی کم ہوتی چلی گئی ۔اب انہیں تقریبات میں شرکت کے لئے کسی کی رفاقت کوئی سہارا درکار ہوتا تھا ۔ کوئی نوجوان اپنے موٹرسائیکل یاگاڑی پرانہیں تقریبات میں لے جاتاتھا۔اقبال ارشد ایک جذباتی انسان تھے وہ منہ پر بات کرنے اور لوگوں کو ناراض کرنے کے فن سے آشنا تھے ۔ان کی یادداشت بے پناہ تھی لیکن حسین سحر کی موت کے بعد یہ یادداشت بھی مجروح ہو گئی ۔ حسین سحرکی موت کواقبال ارشدنے ذہنی طورپرتسلیم ہی نہیں کیاتھا ۔ان کے تعزیتی جلسے میں اقبال ارشدکی گفتگو ہم سب کورلارہی تھی اوروہ کہہ رہے تھے کہ سحرتم مجھ کو اکیلا چھوڑگئے ہو۔صحت ان کی پہلے ہی خراب تھی جومزیدبگڑتی چلی گئی ۔کوئی ایک برس پہلےہم شاکر ،نوازش اورتحسین غنی کے ہمراہ اقبال ارشدکوملنے گئے تھے اس روز ان کی حالت دیکھ کر اوران کی گفتگوسن کرمجھ میں ہمت نہ ہوئی کہ میں ان کو اس حالت میں دوبارہ دیکھ سکوں ۔اقبال ارشدکویادہی نہیں تھاکہ حسین سحر کوبچھڑے ایک سال بیت چکاہے ۔انہیں یادہی نہیں تھاکہ اب اطہرناسک ہمارے درمیا ن نہیں ہے ۔ وہ مسلسل مجھ سے ان کاحال پوچھ رہے تھے میں اورشاکر اپنے آنسوضبط کئے انہیں کہہ رہے تھے کہ وہ دونوں خیریت سے ہیں اوراقبال ارشد شکوہ کررہے تھے کہ حسین سحر اب بڑاآدمی ہوگیاہے اسے کہناکہ اب کسی روزمجھے مل ہی جائے اورپھر وہ پوچھ رہے تھے کہ اطہرناسک نے اورکتنی شادیاں کرلی ہیں ۔۔
حسین سحر نے کہا تھا کہ
میرے لئے تو سانس بھی لینا محال ہے
یہ کون زندگی کی دعا دے گیا مجھے
اقبال ارشد اس وقت اپنے ہم زاد کے اسی شعر کی عملی تصویر بن چکے تھے ۔اور دکھ کا یہ سفر چار ستمبر کو گیارہ بجے صبح ختم ہو گیا ۔
۔اقبال ارشد 22 اکتوبر1940ء
کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے ملتان آگئے۔ابتدائی تعلیم ملتان ہی سے حاصل کی۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا ۔اقبال ارشد واپڈا کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی کے محکمہ میں بھی ملازم رہے۔انہوں نے ملتان اور لاہور میں واپڈا کے پی آر او کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اقبال ارشد نے پسند کی شادی کی تھی ۔ان کی اہلیہ ثریا سلطانہ کا دو فروری 2011ءکو انتقال ہوا۔اس کے بعد وہ مکمل تنہائی کاشکارہوگئے۔اقبال ارشد نے غزل کے علاوہ شاعر ی کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ۔وہ شاعری کی صنف خماسی کے بانی بھی ہیں ۔۔ان کے شعری مجموعوں میں ” نظرانداز“، ”فصیل و پرچم “، ”منزل کی تلاش“، ”نوبہار“، ”سرمایہ حیات“، ”خماسی“، ”آبشار“، ”چاندنی کی جھیل“، ”بادلوں کے تلے“، ”کہکشاں کے درمیاں“ اور ” دکھوں کا آخری موسم“شامل ہیں۔اقبال ارشد ریڈیو پاکستان ملتان کے ساتھ بھی فیچررائٹر ،ڈرامہ نگار اور براڈکاسٹر کی حیثیت سے منسلک رہے۔وہ طویل عرصہ تک ریڈیو پاکستان میں بچوں کے پروگرام میں ”بھائی جان “ کی حیثیت سے میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔انہوں نے ملتان کی ادبی و ثقافتی تاریخ پر ان مٹ نقوش مرتب کئے ۔ اقبال بھائی ہم آپ کی کمی ہمیشہ محسوس کریں گے ۔