ایوانِ صدر میں ہمارا جانا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس ایوان میں ہمیں سب سے پہلے صدر فاروق لغاری نے اُس وقت بلایا تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں اکادمی ادبیات پاکستان نے عالمی اہلِ قلم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ تب بھی پانچویں فلور کے لان پر ڈنر کا اہتمام تھا اور اُس وقت کے صدر اہلِ قلم میں یوں گھل مل گئے جیسے وہ سیاستدان نہ ہوں کوئی ادیب، شاعر ہوں۔ تب معروف شاعر سیّد محسن نقوی صدر فاروق لغاری کا تعارف اپنی برادری سے کروا رہے تھے۔ اُس کے بعد دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرف نے ہمیں اُس دن افطاری پر بلایا جس دن نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کا جسدِ خاکی سعودیہ سے لاہور لایا گیا۔ افطاری کے بعد پرویز مشرف کا عملہ اُنہیں یہ خوشخبری سنا رہا تھا کہ لاہور میں میاں محمد شریف کی تدفین کا عمل بخیر و خوبی مکمل ہو گیا تو تب پرویز مشرف اطمینان کے ساتھ کبھی احمد فراز کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے تو کبھی افتخار عارف کے ساتھ جا کر تصویر بنواتے۔ افطاری اور ڈنر کے درمیان تقریباً پون گھنٹے کا وقفہ تھا اور اس پورے وقت میں پورے ملک سے آئے ہوئے اہلِ قلم پرویز مشرف کو حکومت کے بارے میں یوں تجاویز دے رہے تھے جیسے وہی حکمران ہیں اور پرویز مشرف بھی تمام لکھنے والوں کی باتوں کو اس انداز سے سُن رہے تھے کہ جیسے اُنہوں نے اہلِ قلم کے مشوروں کو سامنے رکھ کے معاملاتِ حکومت بڑھانے ہیں۔
تیسری اور چوتھی مرتبہ ہمارا ایوانِ صدر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے حوالے سے تب جانا ہوا جب ممنون حسین صدر پاکستان تھے اور کتاب میلے کے سلسلے میں وہ ہر سال تمام شرکاءکو ڈنر پر بلایا کرتے تھے۔ اگرچہ افتتاحی تقریب میں بھی ممنون حسین کتاب کے حوالے سے دلچسپ گفتگو کرتے تھے لیکن ایوانِ صدر میں وہ اہلِ قلم سے یوں پیچھا چھڑاتے تھے جیسے وہ اپوزیشن کے اراکین ہوں۔ ایوانِ صدر کا عملہ ممنون حسین کو اُنہی کے مہمانوں کو اُن سے یوں دور رکھتا جیسے وہ تمام مہمان اُن کے دشمن ہوں۔
ممنون حسین کے بعد جب ڈاکٹر عارف علوی صدرِ پاکستان منتخب ہوئے تو اُن کے بارے میں بھی یہی سننے میں آیا کہ وہ اپنے پیشرو صدر ممنون حسین کی طرح بہت ہی باذوق اور کتاب دوست ہیں۔ اس کا اندازہ ہمیں گزشتہ ہفتے اُن کے مہمان بن کر ہوا جب پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے افسر سمیع اﷲ بلوچ نے ہمیں فون پر دعوت دی کہ ایوانِ صدر میں اسداﷲ خاں غالب کی یاد میں مشاعرہ منعقد ہو رہا ہے۔ کیا آپ تشریف لا سکیں گے؟ ہم نے سمیع اﷲ بلوچ سے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ۔ یوں ملتان سے ہم قمر رضا شہزاد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس مشاعرے کے اصل میزبان معروف اداکار جمال شاہ ہیں جو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے آج کل سربراہ ہیں۔ اور یہ ادارہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ماتحت ہے۔ جس کے سربراہ آج کل فواد چوہدری ہیں۔ ایوانِ صدر لے جانے سے قبل تمام شعراءکرام کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس لے جایا گیا جہاں پر تمام شاعروں کی گنتی کر کے اُن کو کشمیری شالیں پہنائی گئیں۔ شال پہنانے کا فریضہ PNCA کی اعلیٰ افسر آمنہ اسماعیل پٹودی نے سرانجام دیا جنہوں نے شال پہناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایوانِ صدر میں جب آپ نے شعر سنانے ہیں تو یہ شال آپ نے اوڑھ لینی ہے۔ یہ سنتے ہی ہمیں گمان گزرا یقینا ایوانِ صدر میں سردی زیادہ ہے اس لیے شاعروں کو ابھی سے ہی موسم کی شدت سے بچانے کے لیے یہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔ شاعروں کا یہ قافلہ جناب افتخار عارف کی قیادت میں جب اسلام آباد کی سڑکوں پر رواں دواں ہوا تو اس قافلے میں انور مسعود، توصیف تبسم، امجد اسلام امجد، سحر انصاری، پروفیسر احسان اکبر، انور شعور، ڈاکٹر ریاض مجید، سیّد نصیر ترابی، حلیم قریشی، نذیر تبسم، اختر عثمان، قمر رضا شہزاد، انجم سلیمی، یاسمین حمید، فاطمہ حسن، حمیدہ شاہین، سیّد نصرت زیدی، جلیل عالی، محسن شکیل اور بہرام غوری شامل تھے۔ خیال تھا کہ موجودہ حکومت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ایوانِ صدر کے دروازے عوام الناس کے لیے کھول دیئے ہیں۔ اگرچہ ہمارا شمار بھی عوام الناس میں ہوتا ہے لیکن اُس دن ہم صدرِ پاکستان کے مہمان ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو عوام سے علیحدہ کر رہے تھے تو خیال تھا کہ ہم کسی جگہ پر رکے بغیر صدارتی محل میں داخل ہو جائیں گے
لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
وہی سختی، شناختی کارڈ کی چیکنگ، دعوتی کارڈ کا سیریل نمبر اور جو ایوانِ صدر میں جانے کا نظام ہے مرکزی دروازے پر موبائل فونز اور دیگر اشیاءکا روک لیا جانا تبدیلی تو کہیں پر نہیں تھی۔ ہمیں پانچویں فلور پر لے جایا گیا تو سب سے پہلے معروف شاعر جنید آذر نے پورے پاکستان سے آئے ہوئے دوستوں کو خوش آمدید کہا اور ہمیں بہت ہی خوبصورت انداز کے بنے ہوئے سٹیج پر بٹھا دیا گیا۔ چند لمحوں بعد صدرِ پاکستان اُس ہال میں داخل ہوئے جہاں پر اُن کے لیے فرشی نشست کا اہتمام تھا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ سیّد جمال شاہ نے انہیں شال اوڑھائی۔ صدرِ مملکت نے بطور صدرِ محفل مشاعرے کی شمع روشن کی اور یوں شمعون ہاشمی اور عاصمہ شیرازی نے اپنی خوبصورت نظامت سے مشاعرے کا آغاز کیا۔(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ