ایک عرصے سے مَیں ملتان کے قبرستانوں پہ کام کر رہا ہوں۔ اسی وجہ سے جب بھی کبھی کسی قبرستان میں جانا ہوا تو اہم لوگوں کے کتبوں کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیتا ہوں تاکہ اُن کتبوں کو آنے والی کتاب میں شامل کر سکوں۔ 1982-83ء کی بات ہے ایک دن رضی الدین رضی مجھے کہنے لگا کہ مَیں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ملتان کے صدر ایم۔اے گوہیر کو حکومت نے بیماری کی وجہ سے نشتر ہسپتال کے میڈیسن وارڈ میں داخل کروا دیا ہے۔ ان کی عیادت کرنے جانا ہے۔ مَیں نے رضی سے پوچھا کیا ایم۔اے گوہیر تمہارا رشتہ دار ہے؟ کہنے لگا نہیں، وہ ضیاء آمریت کے خلاف جس انداز سے لڑ رہا ہے اس کی عیادت کرنا ہمارا فرض بنتا ہے۔ ایک دن ہم دونوں کالج سے جلد چھٹی کر کے نشتر ہسپتال چلے گئے۔ جہاں پر ایم۔اے گوہیر کو ہتھکڑیوں سمیت داخل کیا گیا تھا۔ لوگوں سے دریافت کر کے میڈیسن وارڈ میں پہنچے تو ایم۔اے گوہیر کو تلاش کرنے میں مشکل اس لیے پیش نہ آئی کہ ان کے بیڈ کے ساتھ ایک پولیس کانسٹیبل بھی موجود تھا۔ کمزور، نحیف، پورے وجود پر ہڈیاں نمایاں، ہاتھ اور پاؤں میں حفاظتی نکتہ نظر سے ہتھکڑیاں دیکھ کر ہم پریشان ہو گئے۔ ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل نے زیادہ دیر ہمیں وہاں رہنے نہ دیا اور یہ کہہ کر ہمیں وہاں سے روانہ کر دیا کہ ان سے ملاقات اور گفتگو منع ہے۔ گوہیر صاحب نے ہم سے پوچھا آپ لوگ کون ہیں اور میری عیادت کو کیوں آئے ہیں؟ جواب میں ہم نے انہیں کہا آپ چونکہ آمریت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اس لیے آپ کی خیریت دریافت کرنے کو جی چاہا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے ہمارا شکریہ بولا اور کہنے لگے احتیاط کیا کرو حالات اچھے نہیں۔
1988ء میں جنرل ضیاء طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا اور ایم۔اے گوہیر کا انتقال 22 جنوری 1986ء بروز منگل کو ہوا یعنی وہ موسمِ بہار آنے سے پہلے ہی خزاں کا حصہ بن گئے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ ناصرہ گوہیر نے اپنے خاوند کے نامکمل مشن کو پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر مکمل کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست عبادت کے لیے کی جاتی تھی۔ عوام کی خدمت کے لیے سیاست کا میدان چنا جاتا تھا۔ تب سیاست میں آنے والے یہ نہیں سوچتے تھے کہ انہوں نے کرپشن کرنی ہے، اپنے عزیز و اقارب کو نوازنا ہے۔ حکومت میں آ کر لوٹ مار کرنی ہے۔ تب سیاست کو خدمت کا دوسرا نام سمجھا جاتا تھا۔ 1988ء کے زمانے میں پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی، پھر 1993ء میں آئی۔ 1993ء کے بعد بینظیر کی شہادت کا ثمر آصف علی زرداری اور اس کی ٹیم نے پایا۔ اور آج کل پیپلز پارٹی اپنے بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔ سوائے سندھ کے باقی تمام صوبوں میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی کا اندازہ ان صوبوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے لگا لیں جہاں پر کہیں بھی پیپلز پارٹی کو قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی۔ جب پارٹی کی قیادت خود ہی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو تو پھر عوام انتخابات میں اپنی نفرت یا محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ عوام تو عوام پنجاب میں تو ہر بڑا خانوادہ پارٹی کو خیرباد کہہ کے تحریکِ انصاف میں شامل ہو گیا ہے۔ اور جو بچے کھچے لوگ ہیں وہ بھی ن لیگ یا پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں۔
بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی۔ مَیں نے کالم کے آغاز میں لکھا کہ ملتان کے قبرستانوں پر کام کرتے کرتے جب میں اہم شخصیات کے کتبے پڑھتا ہوں تو اُن کو محفوظ بھی کر لیتا ہوں۔ اُن کتبوں میں ایک کتبہ پی پی ملتان کے سابقہ صدر ایم۔اے گوہیر کا ہے اور یہ کتبہ حسن پروانہ قبرستان کے سامنے سے گزرنے والی سڑک سے بھی پڑھا جا سکتا تھا۔ وہ کتبہ نہیں بلکہ ایم۔اے گوہیر کی زندگی کا نوحہ ہے کہ جس کو اُن کے لواحقین نے بڑے خوبصورت انداز سے کتبے میں محفوظ کیا۔ کسی زمانے میں یہ کتبہ گزرتے ہوئے مکمل پڑھا جا سکتا تھا۔ لیکن اب وہ کتبہ غور کرنے پر بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی کی طرح یہ کتبہ بھی اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ مَیں نے کوشش کر کے اس کتبے کی مختلف تصاویر بنائیں اور آخرکار کتبہ پڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ کتبہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
آج بھی اشکبار آنکھیں تیری چاپ کی منتظر ہیں
میاں ایم۔اے گوہیر ولد عطا محمد گوہیر
پُرسکون آرائش محلات کی زندگی گزارنے والا تاجرایم۔اے گوہیر مرحوم سماجی شخصیت ظالم حکمرانوں، غریبوں اور مزدوروں، طالب علموں اور عوامی حقوق کی خاطر سب کچھ قربان کر کے اور آخری لمحات تک جنگ جاری رکھی مگر موت سے جنگ ہار گیا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو شکست نہ دے سکی اور اپنے عظیم قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو کے وفادار ساتھی تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے اپنا سب کچھ دینے کے بعد اپنی جان کا نذرانہ بھی پروان چڑھا دیا۔
وہ اسلام سے محبت رکھنے والا کہاں ہے؟۔ وہ گوہیر کہاں ملے گا؟ غریبوں کا ہمدرد کہاں ہے؟ طلباء کا سہارا کہاں ہے؟ عوام کا ترجمان کہاں ہے؟ ملتان کے عوام کی دھڑکن کہاں ہے؟ رات کو جاگ کر لوگوں کے مسائل حل کرنے والا کہاں ہے؟ ایم۔سی۔سی گراؤنڈ اور اسپورٹس کی خدمت کرنے والا کہاں ہے؟ماؤں بہنوں کی چاہت کہاں ہے؟کاش اس کو موت نے کچھ وقت دیا ہوتا کہ وہ اپنے خیالات اور مقصد کی تکمیل دیکھ لیتا۔ گوہیر مرحوم کی مرقد پر لاکھوں سلام اور کروڑوں رحمتیں خداوند کریم کی نازل ہوتی رہیں۔
دنیا ترے وجود کو کرتی رہی تلاش
ہم نے ترے خیال کو یزداں بنا لیا
نوٹ
یہ کیا ہو گیا، کیوں ہو گیا، ایسا کیوں ہوا، کون تسلی دے گا، کون یاد کرے گا کون اظہار کرے گا ان آنکھوں سے آنسوؤں کو کون خشک کرے گا۔ سسکیاں کیسے بند ہوں گی۔
تیری مرقد سے سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارشل لاء کے سیاہ ترین دور میں 9 سال مسلسل قید و نظربند، شاہی قلعے کی صعوبتیں برداشت کیں۔
تاریخ پیدائش 1922ء
عظیم قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پاکستان پیپلز پارٹی میں 1968ء میں شمولیت کی اور 13 سال تک پاکستان پیپلز پارٹی ملتان کے صدر رہے اور آخری لمحات تک اسی عہدے پر فائز تھے۔
تاریخ وفات: 22 جنوری 1986ء بروز منگل
اس کتبے کو کالم میں دینے کا مقصد یہ ہے کہ ملتان کے ایک نامور سیاستدان کا وہ کتبہ محفوظ ہو جائے جو زمانے کے حوادث کا شکار ہے اور آہستہ آہستہ اس کی عبارت بھی ختم ہو رہی ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے 1986ء میں لکھا گیا یہ کتبہ محفوظ ہو گیا۔ سوال یہ ہے کیا 1967ء میں بننے والی پیپلز پارٹی کو بلاول بھٹو زرداری اپنی گلابی اُردو سے محفوظ کر سکے گا؟
فیس بک کمینٹ