چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی پاکستان کے موجودہ حا لات کی ذمہ دار ہے ان کا اشارہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے اُتار چڑھاؤ کی طرف تھا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ حالات اب بہتری کی طرف گامزن دکھائی دے رہے ہیں ۔ پاکستان میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سے ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے جمہوریت پر سے عوام کا اعتماد ختم ہو گیا یا دانستہ ایسے حالات پیدا کر دئے گئے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا سے ہی بیوروکریسی نے سیاست دانوں کو ان کے باہمی تنازعات کی وجہ سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ جن لوگوں نے پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کیا ان میں سیاست دان کم اور دوسرے زیادہ ہیں لیکن بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ سول ملٹری بیوروکریسی کی تمام خطائیں بھی عاقبت نا اندیش سیاست دانوں کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ گو سیاستدان بھی ایسے کوئی دودھ کے دھلے نہ تھے سیاست دانوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو اورنگ زیب کے مرنے کے بعد بادشاہ گر سید برادران نے نااہل مغل شہزادوں کو تخت طاؤس پر بٹھا کر کیا۔ آج سید برادران کو سب بھول گئے لیکن مغل شہنشاہوں کا مزاق آج غیر تو غیر اپنے بھی اُڑا رہے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا کہ اہل شہزادوں کو کس بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تاریخ کا دھارا کسی اور رخ بہتا اور ایسا ہی کچھ پاکستان کے قیام کے بعد جمہوریت کے ساتھ ہوا۔ جس نظام دکن نے شہید میسور فتح علی ٹیپو کو انگریز کے ساتھ مل کر شہید کروایا حکومت تو اس کی بھی نہیں بچی افسوس ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی۔ قائد اعظم کا پاکستان پہلے ہی دولخت ہو چکا ہے ہمیں اب خود کو متحد کرنا ہے سیاست دان ہوں ، بیوروکریسی ہو یا عوام یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں یہ تو طے ہے کہ جمہوریت اس ملک کے لئے ناگزیر ہے اور سب اداروں کو مل کر اسے بچانا ہے پاکستان کو سیاست دانوں نے ہی ووٹ کے ذریعے بنایا اس وقت بھی سیاست دانوں پر الزامات لگتے تھے جس نے اس مملکت خداداد کا خواب دیکھا اور جس نے تعبیر دی کون نہیں جانتا کہ ان کو کافر تک کہا گیا آج بھی ان بے لوث لوگوں پر کیا کیا الزام نہیں لگ رہے سو لوگوں کا کیا کہنا وہ تو ولیوں کو بھی معاف نہیں کرتے ۔ بدقسمتی سے اپنے قیام کے ایک سال بعد
ہی مملکت خداداد اپنے بانی سے محروم ہو گئی اور تقریباً گیارہ برس تک اس کے مخصوص مزاج کے مطابق کوئی آئین نہیں بنایا جا سکا اور مملکت خداداد کی درست سمت متعین نہ ہو سکی جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ اس دوران پاکستان پر بیوروکریسی کا مکمل راج رہا۔ جنرل محمد ایوب خان نے بیوروکریسی کو کھلی چھٹی دے دی اور پاکستانی سیاست میں بیوروکریسی کا نہ ختم ہونے والا کردار متعین ہو گیا۔ بیوروکریسی خواہ سول ہو یا ملٹری دونوں نے پاکستان کو اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کی سیاست دان بُری طرح استعمال ہوتے رہے کچھ اُن کی اپنی کوتاہیاں بھی تھیں اگر موجودہ حالات کو دیکھیں تو سول اور ملٹری تعلقات کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے جس سے پاکستان بہت جلد اپنے مسائل پر قابو پا لے گا ۔ ماضی میں یا تو سول نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی یا پھر فوج کی حکمرانی کا تصور سامنے آیا۔ لگتا ہے کہ ماضی کے تجربات سے فریقین نے سبق سیکھا ہے دیکھتے ہیں اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
فیس بک کمینٹ