اربابِ حَل و عقد کی خدمت میں گزارشات دو ہی کرنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بچوں کو آزادی اور کسی قدر خودمختاری ضرور دینی چاہئے مگر اُن کے گرد حدود کا ایک کڑا مار کر‘ کہ اس عملِ کشاد کا ناروا استعمال نہ کرنے لگیں۔دوسرا یہ کہ دنیا میں ہر کام فقط اور فقط پیسے کے لئے نہیں ہوتا۔ کچھ کام اخلاقی تقاضوں اور اچھی روایات کو بہتر تنفس فراہم کرنے کو بھی ہونے چاہئیں۔
پچھلے ڈیڑھ پونے دو ماہ سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے یہ طے کر کے نافذ کیا ہے کہ پاکستانی چینلز پر بھارتی مواد نہیں دکھایا جائے گا اور نہ ہی ایف ایم ریڈیو بھارت کی موسیقی نشر کرسکیں گے۔یہ فیصلہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور اس کے نتیجہ میں بھارتی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں پاکستانی فن کاروں پر پابندی نے کروایا ہے یا پھر سالانہ اربوں کا ریونیو بھارت کو جانے سے روکنے پر کیا گیا، بہرصورت خوش آئند ہے۔ پندرہ اکتوبر سے پہلے یہ عالم تھا کہ پاکستانی نجی چینلز دیکھ کر اور ایف ایم ریڈیو سن کر یہ لگتا ہی نہ تھا کہ پاکستان، بھارت سے الگ کوئی ملک ہے۔ ہمارے پروگراموں میں، اشتہاروں میں اور سڑکوں پر لگے بڑے بڑے بورڈوں پر فقط بھارتی اداکاراؤں کی تصاویر ہی نظر آتیں، گویا ہماری مصنوعات وہاں مارکیٹ ہورہی ہوں اور وہاں کے لوگ ، بشمول اداکار و اداکارائیں، ان کو استعما ل کرتے ہوں ۔ یا پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ انتیس سو کلومیٹر کی بین الاقوامی سرحد اور سات سو چالیس کلومیٹر کی لائن آف کنٹرول وجود ہی نہیں رکھتی اور ہم خدا نہ کردہ اُن کا ایک صوبہ ہیں اور وہ ہمارے ہی سٹارز اور رائے عامہ کے لیڈر۔
خیر!اب دو ماہ سے اگر کوئی فرق پڑا ہے تو محض یہ کہ بھارتی سپرسٹارز کے چہرے ٹیلی وژن کی سکرین پر نظر نہیں آتے مگر مواد کے واہیات پن میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ جیسے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ فرنگی جاتے جاتے یہاں کالے انگریز چھوڑ گیا۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی بھارتی انٹر ٹینمنٹ نے چھوٹے چھوٹے بچے دے دئیے ہیں کہ جن کے چکنے چکنے پات پالنے سے ہی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہمارا نوزائیدہ ، آزاد اور کسی وبا کی طرح پھیلا میڈیا اس وقت لونڈا پارٹی کے ہاتھوں میں ہے۔ حالاتِ حاضرہ اور خبروں والے چینلز کی میں بات نہیں کروں گا کہ ان کے بارے میں لکھا جاتا رہتا ہے مگر یہ جو تفریحی چینل ہیں، ان پر مواد پروڈیوس کرنے والے لونڈے لپاٹوں کا خیال ہے کہ بھارتیوں کی طرح ہم بھی اپنی عورت ، مکالموں اور شاعری کو جس قدر عریاں کرلیں گے، اتنی ہی کام یاب اور بڑی انڈسٹری کہلائیں گے۔
اگلے روز گاڑی میں ریڈیو پر ایف ایم لگایا تو ایک’’ آئٹم سانگ‘‘ قسم کا گاناچل رہا تھا جس کی شاعری اس قدر واہیات تھی کہ میں کوشش کے باوجود اسے ملفوف کر کے بھی یہاں نہیں لکھ سکتا۔میں نے حیرت سے ساتھ بیٹھے دوستوں سے پوچھا’’ریڈیو پر انڈین گانا…!!‘‘ بتایا گیا کہ یہ انڈین نہیں پاکستانی گانا ہے ، سنگر کا بھی کوئی نام تھا ، اَب یاد نہیں رہا۔ بالکل وہی انداز، بمبئی کی بازاری زبان والا لہجہ، و ہی محاورہ اور لفظ ، موسیقی کا انداز بھی ویسا ہی۔ اسی طرح ایک پاکستانی فلم پچھلے دِنوں دیکھی، صرف چہرے تبدیل تھے ، باقی ہدایت کاری، پروڈکشن اور اداکاری تک سب کچھ وہی پڑوس والا۔ پاکستان کے میوزک چینل دیکھ لیں وہاں بھی نسائیت کے کپڑے اتارنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نہ یہ اُن بدبختوں کی تہذیب تھی جن کی ہم نقل کررہے ہیں اور ہماری تو خیر بالکل ہی نہیں۔
کل رات ٹیلی وژن پر ایک ایوارڈ شو کی تیاریاں دکھائی جارہی تھیں، عریاں ہونے کو بے قرارنیم عریاں لڑکیاں اور ویسے ہی ہیجان خیز رقص کی ریہرسلیں ہورہی تھیں۔ انڈیا کے ایوارڈ شوز کی طرز پر۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ برسرِ پردۂ سکرین کپڑے اتارنے والا طبقہ ہمارے ہاں کہاں سے آگیا۔ پھر خیال آیا کہ یہ موجود تو شائد پہلے سے تھا، اسے موقع نہیں مل رہا تھا۔ پھر ایک نمبر کی موجودگی میں دو نمبر کو کون دیکھتا ہے۔ پیمرا نے ایک نمبر بے حیائی بند کی ہے تو اب دو نمبر مال کی چاندی ہوگئی۔ ہنس تو خیر وہ بھی نہیں لیکن بدنسل کوّے کی چال چلنے پر ہمارے کوّے مصر ہیں۔ حالاں کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ماسوائے اپنی کالک بڑھانے کے۔آہستہ آہستہ ڈراموں سے’’بیوی‘‘ کا لفظ غائب کیا جارہا ہے، غیر محسوس طریقے سے اور اس کی جگہ’’گرل فرینڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی ہے۔ یہ سب خدا جانے پیمرا کو نظر کیوں نہیں آتا۔
پیمرا کا فرض صرف یہی دیکھنا تو نہیں کہ بھارتی موادچھے فی صد سے زیادہ تو نہیں چلایا جارہا یا غیر ملکی مواد کی شرح گیارہ فی صد سے بڑھ تو نہیں گئی۔ پیمرا کا فرض مواد کا جائزہ لینا بھی ہے اور دیکھنا کہ کس قسم کا مواد پیش کر کے کس قسم کا ماحول پیدا کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ اس ملک کی ، اس زمین کی، یہاں کے باسیوں کی کچھ اخلاقیات ہیں، یہاں کی دانش نے صدیوں کی ریاضت کے بعد کچھ اچھی روایات بنائی ہیں۔ یہاں کوئی شہری ایسا نہیں جو کاغذ کے کسی ٹکڑے پر خود کو’’لادین‘‘ لکھتا ہو۔ (نجی طور پر کچھ لوگ خود کو کہتے ضرورہیں مگر آن ریکارڈ مانتے نہیں ، ان کی تعداد بھی بیس کروڑ میں چند ہزار سے زیادہ نہیں )۔ جس تمدن کی تاریخ ہو، اخلاقیات ہوں، روایات ہوں، جہاں مذہب کی پیروی بھی کی جاتی ہو، وہا ں بے لگام آزادی نہیں دی جاسکتی۔ وہاں کے پیمرا کو دیکھنا چاہئے کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا انڈسٹری شہریوں کو کیا دکھارہی ہے۔
بس اربابِ حَل و عقد کی خدمت میں گزارشات دو ہی کرنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بچوں کو آزادی اور کسی قدر خودمختاری ضرور دینی چاہئے مگر اُن کے گرد حدود کا ایک کڑا مار کر ، کہ اس عملِ کشاد کا ناروا استعمال نہ کرنے لگیں۔دوسرا یہ کہ دنیا میں ہر کام فقط اور فقط پیسے کے لئے نہیں ہوتا۔ کچھ کام اخلاقی تقاضوں اور اچھی روایات کو بہتر تنفس فراہم کرنے کو بھی ہونے چاہئیں۔
فیس بک کمینٹ