پاک بھارت کشیدگی پر دونوں ملکوں کے لکھنے والوں نے اپنے نقطہ نظر کے تحت پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کہیں محتاط اور کہیں کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ لکھنے اور بولنے والوں کے ہجوم میں ارُن دھتی رائے (دی گاڈ آف سمال تھنگز فیم) نے واضح طور پر اپنی حکومت کے خلاف موقف اپنایا۔ اس نے مودی کے جنگی جنون کی نہ صرف منفی کی بلکہ ماضی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ارُن دھتی رائے نے مودی کے خوب لَتے لیے۔ اس کے برعکس پاکستان کے بڑے لکھنے والوں نے ارُن دھتی رائے کے بیان کی ویسی پذیرائی بھی نہ کی کہ ماضی جب ارُن دھتی رائے پاکستان کے دورے پر آئی تھیں تو میڈیا میں ان کی مقبولیت دیکھ کر معروف ناول نگار عبداللہ حسین نے لکھا تھا ”ارُن دھتی رائے کو انگریزی کا ایک ناول لکھ کر جو شہرت اور عزت مل رہی ہے وہ مجھے 71 سال کی عمر میں بھی نہ مل سکی۔“ عبداللہ حسین کا خیال تھا کہ ارُن دھتی رائے کو یہ عزت انگریزی ادیبہ ہونے کی وجہ سے مل رہی ہے۔ حالانکہ ان کو پوری دنیا میں احترام صرف اس وجہ سے ملتا ہے کہ وہ ایک متحرک قلم کار کے طور پر بڑی جرات کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر اظہارِ خیال کرتی ہیں۔ ماضی میں ارُن دھتی رائے کو امریکہ کا مشہور انعام ملا جس کی بھارتی مالیت ایک کروڑ ستاون لاکھ روپے بنی۔ مجموعی رقم سے ٹیکس منہا ہونے کے بعد انہوں نے تمام رقم ہندوستان کی ایسی پچاس تنظیموں کو دو دو لاکھ روپے عطیے کے طور پر دے دیئے جو خوتین اور اُن کے حقوق، مساوات اور ماحولیات کے حق میں سرگرم تھیں۔ ارُن دھتی رائے نے انعام لینے کی شاندار تقریب میں عراق پر امریکی حملے کو بنیاد بنا کر جو تقریری کی تھی اس طرح کی تقریر اُردو کے کسی نامور ادیب و شاعر نے کبھی نہ کی۔
یہ واقعہ تقریباً پندرہ برس پرانا ہے تب سے لے کر اب تک اگر ہم پاک بھارت کے نامور اہلِ قلم کا دونوں ملکوں کی کشیدگی پر ردِ عمل دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے خاص طور پر پاکستان کے لکھنے والوں نے کبھی بھی ایسی جرات کا اظہار نہ کیا جو ارُن دھتی رائے گاہے گاہے کرتی ہے۔ آج سے پندرہ سال پہلے انڈین ایک کروڑ ستاون لاکھ کو واپس کرنے کا اعلان بھی کرتی ہے اور کہتی ہے اگر امریکہ عراق پر چڑھائی سے باز نہ آیا تو مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ امریکہ دہشت گرد ہے۔ کیا اس طرح کی جرات ہمارے ہاں کے کسی بڑے لکھنے والے کے پاس ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پاک و ہند میں ہمیں اُردو لکھنے والے کا کوئی بڑا نام ایسا نہ ہے جو حق و انصاف کے لیے ارُن دھتی رائے کی تقلید کر رہا ہو۔ جب ہمارے ہاں کے لکھنے والے مصلحت کا شکار ہوں گے تو حکومتوں کی راہنمائی کون کرے گا؟ اگر دیکھا جائے تو ارُن دھتی رائے گزشتہ دو عشروں سے نریندر مودی کی شدت پسندی کا تعاقب کر رہی ہیں۔ 2002ءمیں جب مودی گجرات میں وزیرِ اعلیٰ تھے تو اس نے تب بھی مسلمانوں کی نسل کشی کی تھی۔ ایسے میں ارُن دھتی رائے کھل کر مودی کے سامنے کھڑی ہوئی۔ اس نسل کشی کے بارے میں ارُن دھتی رائے نے کہا ”مَیں ارُن دھتی رائے نسل کشی کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کر رہی ہوں کہ مودی حکومت نے 2002ءمیں ایک ریل کے ڈبے کی آتش زنی کے اس ناحل شدہ جرم کی جس میں 58 ہندو یاتری جل کر ہلاک ہو گئے تھے اس کے بعد مسلمانوں کو اجتماعی سزا دینے کے لے دن دیہاڑے فاشسٹ ملیشاؤں کے منظم کردہ مسلح قاتلوں کے ٹولوں نے جن کو گجرات حکومت اور اس وقت کی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل تھی دو ہزار مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔ مسلمان عورتوں کو گینگ ریپ کرنے کے بعد زندہ جلا دیا گیا۔ مسلمانوں کی دکانوں اور تجارتی اداروں اور مساجد کو منظم طور پر تباہ کیا گیا۔ ڈیڑھ لاکہ کے قریب لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا۔ جس کے بعد وہ مسلمان مفلوک الحال بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ جن میں سے بعض کچرے کے ڈھیروں پر رہ رہے ہیں۔ اس دوران ان قاتلوں کو جن میں پولیس والے اور شہری دونوں شامل ہیں مودی حکومت نے انہیں گلے سے لگایا۔ انعامات اور ترقیاں دی گئیں۔ اس صورت حال کو اب ”نارمل“ سمجھا جاتا ہے۔ اس ”نارمل پن“ پر تصدیق کی مہر لگانے کی غرض سے ہندوستان کے نمایاں ترین صنعت کاروں، رتن ٹاٹا اور مکیش امبانی (جو مسلمان دشمن مشہور ہیں) نے برسرِ عام گجرات کو مالی سرمایہ کاری کے لیے نہایت موزوں مقام قرار دیا۔“
مودی کے اصل چہرے کو ارُن دھتی رائے نے ”بابو بجرنگی“ کی زبان میں یوں بے نقاب کیا (یاد رہے یہ بابو بجرنگی گجرات میں ہونے والی نسل کشی کے مرکزی کرداروں میں سے ایک تھا۔)
”ہم نے میاں کی ایک دکان نہیں چھوڑی تھی سب کو جلا دیا تھا اور ان کو سب جلایا تھا، کاٹا تھا۔ ہمارا ماننا ہے کہ ان کو جلانا چاہیے کیونکہ یہ حرامی جلنا نہیں چاہتے۔ ڈرتے ہیں جلنے سے …. میری بس ایک آخری خواہش ہے پھر چاہے پھانسی پر چڑھا دو مجھے صرف دو دن چاہئیں مَیں جوہا پورہ میں جاؤں گا جہاں سات آٹھ لاکھ میاں لوگ رہتے ہیں …. ان سب کو ختم کر دوں گا اور مریں، کم سے کم 25000 سے 50000 تک مرنے چاہئیں۔“
یاد رہے ”بابو بجرنگی“ کو نریندر مودی کا آشیرواد تھا اور وہ تمام نسل کشی کرنے کے باوجود آزاد شہری کے گھوم رہا ہے۔
مودی آج جو پاکستان کے خلاف جنگی جنون کی باتیں کر رہا ہے اس کے پیچھے بھی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی خواہشِ ناتمام ہے کہ 2002ءمیں مودی حکومت نے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد کیا۔ اس نسل کشی کے چند ماہ بعد منعقد ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اسے بھاری اکثریت سے منتخب کیا گیا۔ اس نے نسل کشی کے ارتکاب میں حصہ لینے والوں کو کوئی گزند نہ پہنچنے دی۔ اگر کہیں پر اِکا دُکا معاملوں میں جہاں کہیں کی کو سزا سنائی بھی گئی تو کٹہرے میں کھڑے ہونے والے بلاشبہ نہایت نچلے درجے کے کارکن تھے نہ کہ منصوبہ ساز۔
اسی طرح کانگریس کے حمایتی سیاستدان اور بھارت کے معروف شاعر احسان جعفری کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے مودی کے خلاف راجکوٹ کے انتخابات میں مہم چلائی تھی۔ جس وقت احسان جعفری کا قتل کیا جا رہا تھا تو اس وقت پولیس کا کمشنر پی سی پانڈے پلاننگ کے تحت اس وقت پہنچا جب ہجوم احسان جعفری کو ٹکڑے ٹکڑے کر چکا تھا۔ جب مودی دوبارہ وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوا تو اس نے پولیس کمشنر پانڈے کو گجرات پولیس کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا۔
اس کالم میں جتنے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمام واقعات اس زمانے کے ہیں جب وہ مختلف ادوار میں وزیرِ اعلیٰ رہا ہے۔ اور مودی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جتنا بھی انتہا پسندی سے کام لے گا اس کی جیت کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہی سوچتے ہوئے لوک سبھا کے انتخابات سے قبل مودی نے وہی چال چلی جو وہ ہر الیکشن سے پہلے چلتا ہے لیکن اس مرتبہ پاکستان سے اسے جو کھرا جواب ملا ہے اس نے نوشتہ دیوار لکھ دیا ہے کہ مودی کو اگلے انتخابات میں فتح کی بجائے شکست کو گلے لگانا ہو گا کہ اس کا تشدد اور انتہا پسندی والا چہرہ پوری دنیا کے سامنے آ چکا ہے اور بھارتی عوام بھی اس کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ امن کا دشمن ہے اور ایسے دشمن کو اپنے گھر آرام کرنا چاہیے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ