دو تین ہفتے پہلے کی بات ہے کہ ہمیں ایک دوست نے فون کر کے افسوسناک خبر بتائی کہ نشتر یونیورسٹی کے شعبہ کینسر کے سربراہ اور معروف ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی ایک مرتبہ تو مجھے یہ لگا کہ شاید یہ خبر غلط ہے لیکن جب ٹیلیویژن پر ڈاکٹر اعجاز مسعود کی تصویر کے ساتھ یہ خبر چلنے لگی تو مَیں فوراً نشتر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پہنچ گیا۔ وہاں جا کر علم ہوا کہ پروفیسر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود کسی کام کے سلسلے میں گھنٹہ گھر گئے ہوئے تھے اور وہاں پر سخی قریشی نامی شخص نے اُن کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود تاحال کئی آپریشنوں سے گزر کر آج کل گھر میں زیرِ علاج ہیں۔ سخی قریشی نے گولیاں مارنے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنا ایک ویڈیو پیغام بھی دیا کہ مَیں نے ڈاکٹر صاحب کو اس لیے گولیاں ماری ہیں کہ میری بیوی کو ٹی بی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے اُس کا کینسر کا علاج کیا۔ اس ویڈیو میں سخی قریشی بڑی دیدہ دلیری سے اقرارِ جرم کر رہا ہے اور وہ ویڈیو بنواتے ہوئے سامنے سے ملتے ہوئے لقموں کو بھی اپنی گفتگو کا حصہ بناتا رہا۔ پروفیسر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود کے زخمی ہونے کے بعد جب سوشل میڈیا پر اس بات کی مذمت کی گئی تو بہت سے لوگوں کا یہ رویہ بھی سامنے آیا کہ سخی قریشی کی بات پر توجہ دی جائے۔ فیس بک پر اعجاز مسعود کے حق میں لگانے والی پوسٹوں پر بھی مختلف لوگوں نے ڈاکٹروں کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ ہم مستقبل میں ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود ملتان شہر کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی قابلیت کے حوالے سے معروف ہیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا نادار مریضوں کی مدد کے لیے انہوں نے کینسر سوسائٹی بھی بنا رہی ہے۔ وہ دامے درمے سخنے ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں لیکن اُن زخمی کرنے والے نے جس انداز سے انہیں موردِ الزام ٹھہرایا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اور اس سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوا کہ ملتان شہر کے مٹھی بھر لوگوں نے سخی قریشی کے حق میں مظاہرہ بھی کیا۔ ابھی اس واقعے کی گرد بیٹھی ہی نہ تھی کہ 20 مارچ کو ایس ای کالج بہاولپور میں ایک طالبعلم نے اپنے انگریزی کے پروفیسر خالد حمید کو چھری کے وار کر کے قتل کر دیا۔ ملزم کے بقول وہ اسلام کے خلاف روز بولتا تھا، بہت زیادہ توہین کرتا تھا۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اگر ایسا تھا تو تم نے شکایت کیوں نہیں کی، قانون تو موجود ہے۔ لڑکے نے صاف جواب دیا کونسا قانون؟ قانون تو گستاخوں کو رہا کرتا ہے۔
ایک طرف ہمیں نیوزی لینڈ کا سانحہ دکھائی دیتا ہے جس میں وہاں کی وزیراعظم نے یہ بات کہہ کر کمال کر دیا کہ قاتل نے مسلمانوں کا قتل عام شہرت کے لیے کیا اور میری زبان پر کبھی بھی قاتل کا نام نہیں آئے گا۔ اور دوسری جانب پروفیسر خالد حمید کے قاتل کے اقبالی بیان کی ویڈیو کو نہ صرف بہت پھیلایا بلکہ آہستہ آہستہ اُس کو ممتاز قادری بنانے کے لیے کام شروع کر دیا۔ اور مَیں نے سوشل میڈیا پر یہ بھی پڑھا جس میں اُس قاتل کی تصویر خادم رضوی کی تصویر کے ساتھ لگائی گئی اور اُس پوسٹر پر جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ مَیں یہاں پر نہیں نقل کر سکتا۔ بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ جہاں تک ہو سکے اس قاتل کا نام اور اس کی تصویر کی تشہیر مت کریں۔ عدالتی فیصلے کا ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔ جس میں یقینی طور پر ممتاز قادری کی طرح عدالت ایک اچھا فیصلہ کرے گی۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ پر ہیں انہی دنوں مَیں نے ایک شعر پڑھا:
سروں سے بارِ تمدن اتار کر خوش ہیں
یہ لوگ اپنے معلّم کو مار کر خوش ہیں
تو یاد آ گیا کہ ملتان کے دو نامور معالج بیٹھے ہوئے یہ بات کر رہے تھے کہ اب جب ہم ایم بی بی ایس کے امتحان کی نگرانی کے لیے جاتے ہیں تو اب ہم طالب علموں کو جب روکتے ہیں کہ شور نہ کریں، نقل نہ کریں تو کچھ ہی لمحوں بعد ہمیں قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب بہت سے ڈاکٹر صاحبان امتحانات کی نگرانی کرنے سے گریزاں ہیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے ایک شاندار واقعہ بھی سنایا کہ جب ایک مرتبہ ہم نے کمرہ امتحان میں ایک طالب علم کو بہت تنگ کرتے ہوئے دیکھا تو اس کے سامنے اسی پرچے کی کتاب رکھ دی کہ تم شور نہ کرو تم ایسا کرو کہ اس کتاب میں سے وہ مضمون تلاش کر لو جس کا سوال آیا ہوا ہے۔ وہ طالب علم باوجود بھرپور کوشش کے اس کتاب میں سے جواب تلاش نہ کر پایا کہ مَیں تو شور ہی کروں گا۔
یہ واقعہ نہ تو میٹرک، ایف اے کے امتحان کا ہے بلکہ ایم بی بی ایس فائنل ایئر کے طالب علم کا ہے۔ اب بتائیے ایک طرف ہم سخی قریشی کی نہ مذمت کرتے ہیں تو دوسری طرف ہم ایس ای کالج کے پروفیسر خالد حمید کے قاتل کو پھانسی کی سزا کا نہ مطالبہ کرتے ہیں۔ بلکہ اب مستقبل میں اہلِ بہاولپور کو ایک اور قبر مل جائے جس پر عرس ہوا کریں گے اور نجانے کیا کچھ ہمیں دیکھنے کو ملے گا۔ کاش یہ سب کچھ ایسا نہ ہوتا کہ ہم ایک مثالی معاشرے کا حصہ بنتے۔ لیکن کیا کریں کہ آہستہ آہستہ ہم اُس کھائی کی طرف جا رہے ہیں جہاں سے باہر آنا سب کے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ