پاکستان تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کے بعد اب پاک فوج نے بھی فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔ ان تینوں اپیلوں میں فیصلہ میں دیے گئے ریمارکس اور پیش کیے گئے نکات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان سے اداروں کی شہرت اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ وزارت دفاع کے توسط سے پاک فوج نے جو اپیل دائر کی ہے اس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’‘ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پاکستانی فوج کے حوصلے پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ اگر اس عدالتی فیصلے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو انڈیا سمیت ملک دشمن عناصر کو فوج کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے گا ’۔
پاک فوج کی طرف سے وزارت دفاع نے اٹارنی جنرل کے توسط سے دائر کی جانے والی نظرثانی کی اپیل میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ’افواج پاکستان اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں افواج پاکستان کے سربراہان کو جو ہدایات دی ہیں وہ مبہم اور غیر واضح ہیں‘ ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے ایک سیاسی بیان کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ جنرل غفور نے 2018 کے انتخابات پر اٹھنے والے اعتراضات کے جواب میں کہا تھا کہ ’تاریخ ہی طے کرے گی کہ یہ انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے‘ ۔
حکمران جماعت نے ابتدائی طور پر دائر کی گئی نظر ثانی کی اپیل میں اس سال 6 فروری کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس فائز عیسیٰ پر متعصب ہونے اور جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم رجسٹرار کی طرف سے اس درخواست پر اعتراض کے بعد اب پارٹی نے درخواست کی ہے کہ فیصلہ میں تحریک انصاف کے بارے میں شاملکیے گئے ریمارکس کو واپس لیا جائے۔ کیوں کہ تحریک انصاف کو مقدمہ کی سماعت کے دوران اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا مطالبہ الیکشن کمیشن اور پاک فوج کی درخواستوں میں سامنے لایا گیا ہے۔ یہ درخواستیں اپیل کی مقررہ مدت گزرنے کے ڈیڑھ ماہ بعد دائر کی گئی ہیں۔ اصولی طور پر فیصلہ کے تیس دن کے اندر نظر ثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے لیکن اس معاملہ میں رجسٹرار سپریم کورٹ سے مدت میں توسیع حاصل کر لی گئی تھی۔
چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت کئی کئی برس سے زیر التوا مقدمات پر فیصلے دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ سپریم کورٹ ملک کی حکمران جماعت کے علاوہ پاک فوج اور الیکشن کمیشن جیسے اہم اداروں کی طرف سے دائر کی جانے والی نظر ثانی کی درخواستوں پر جلد غور کرتے ہوئے اپنا حتمی حکم جاری کرے گی۔ تاکہ اس ملک میں اداروں کے کردار اور سیاسی نظام کے بارے میں اٹھائے گئے سوالوں پر اعلیٰ ترین عدالت سے حتمی رائے سامنے آ سکے اور سب ادارے اور حکومت ان اصولوں کو نافذ کرنے کے لئے یک سوئی سے کام کرسکیں۔ عام طور سے نظر ثانی کی اپیل وہی جج صاحبان سنتے ہیں جنہوں نے ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کیا ہوتا ہے۔ اس قسم کی کوئی اپیل اسی وقت قبول کی جا سکتی ہے اگر متاثرہ لوگوں یا اداروں کی جانب سے نئے شواہد پیشکیے جائیں جس سے زیر نظر معاملہ کے نئے پہلو سامنے آتے ہوں۔
زیر نظر معاملہ میں تحریک انصاف نے جسٹس فائز عیسیٰ کو ذاتی طور پر متعصب اور جانبدار قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اس تناظر میں یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ نظر ثانی کی درخواستیں، حکمران جماعت کے منفی طرز عمل کے باوجود کیا اسی بنچ کے سامنے پیش ہوں گی یا چیف جسٹس اعتراضات کی روشنی میں نیا بنچ تشکیل دینے کو ترجیح دیں گے۔ اس قسم کا فیصلہ بھی ان اہم اصولوں پر سپریم کورٹ کی رائے واضح کرے گا جو جمہوری نظام میں اداروں کی مداخلت اور آزادی اظہار کی حفاظت کے بارے میں زیر نظر فیصلہ میں اٹھائے گئے تھے۔ جج تبدیل کرنے سے اداروں اور حکومت کو رعایت دینے کا تاثر بھی سامنے آئے گا۔
اس حوالے سے بھی چیف جسٹس کھوسہ کو ایک مشکل اور سخت امتحان کا سامنا ہے۔ نظر ثانی کی سب درخواستوں میں سپریم کورٹ کی طرف سے اپنے بارے میں دی گئی رائے کو تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی نئے شواہد پیش نہیں کیے گئے اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے درست نہیں تھی تو درست معاملہ کیا ہے۔ خاص طور سے فوج کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں اگر یہ وضاحت کی جاتی کہ سول معاملات میں وردی پوش لوگوں کی مدخلات کے بارے میں سامنے آنے والی خبریں اور رپورٹیں اگر غلط ہیں تو حقیقت احوال کیا ہے۔
فوج کو یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ نومبر 2017 میں لبیک تحریک کے دھرنے کو ختم کرنے کے لئے سول حکام نے سول اداروں کی ناکامی کے بعد آئین کی شق 245 کے تحت جب فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو فوج کے متحرک ہونے سے پہلے ہی حکومت اور لبیک تحریک کے درمیان معاہدہ کیسے طے پا گیا۔ اور اس معاہدہ پر ایک فوجی جنرل کے دستخط کس بات کی غمازی کررہے تھے؟ اس کے علاوہ اگر فوج حکومت کی خواہش اور حکم کے باوجود دھرنا ختم کرنے کے لئے ملوث ہونے پر آمادہ نہیں تھی تو وہ درپردہ مذاکرات اور مفاہمت میں کس قانون یا اصول کے تحت شریک ہوئی تھی۔ اسی طرح دھرنا ختم ہونے والے دن فوجی سپاہوں کے علاوہ اعلیٰ افسروں کی موجودگی اور خوشی خوشی مظاہرین میں کیش تقسیم کرنے کا رویہ کس اصول، مینڈیٹ یا آئینی اختیار کی عکاسی کرتا ہے؟
اس کی وضاحت صرف یہ دعویٰ کرنے سے نہیں ہو سکتی کہ بعض مظاہرین کے پاس گھروں کو واپس جانے کا کرایہ نہیں تھا اس لئے وزارت داخلہ کی ہدایت پر رقم کے لفافے تقسیم کرنے کے لئے اعلیٰ فوجی افسروں کو وہاں آنا پڑا۔ حکومت یہ امدادی رقم تقسیم کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی تلاش کر سکتی تھی۔ اپنی شہرت، وقار اور عوام میں نیک نامی کے بارے میں شدید حساس فوج کے افسروں کو اس کام میں ملوث ہونے سے اسی طرح گریز کرنا چاہیے تھا جس طرح سول حکومت کی درخواست کے باوجود فوج دھرنا کے شرکا کے خلاف کارروائی میں ملوث ہونے سے پرہیز کر رہی تھی۔ کیوں کہ وہ شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو غلط سمجھتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بیس روز تک جاری رہنے والے اس دھرنا کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو 16 کروڑ 63 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ اس دھرنا کی وجہ سے ہونے والے شٹ ڈاؤن سے قومی پیداوار میں روزانہ 88 ارب روپے کا نقصان پہنچا تھا۔ ملک و قوم کو یہ عظیم نقصان پہنچانے والے مٹھی بھر لوگوں کو فوج کی طرف سے دی جانے والی عزت افزائی کا جواب آج بھی فوج اور اس کے ترجمان پر واجب ہے۔
طاقت ور ادارے جب اپنے اعمال کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کی بجائے صرف ان کی تردید کر دینا ہی کافی سمجھتے ہیں تب ہی جھوٹی سچی خبریں پھیلتی ہیں۔ اور ہر اس معاملہ میں بھی فوج کے ملوث ہونے کا تاثر قوی ہوتا ہے جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ سیاست میں فوج کی دلچسپی اگر منتخب حکومت سے پیشہ وارانہ مواصلت تک ہی محدود رہتا ہے تو بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ناقص بنیاد پر استوار قرار دینے کا دعویٰ کرنے کی بجائے وہ ان امور کی وضاحت کردیتی جن کی وجہ سے یہ ساری ’غلط فہمیاں‘ جنم لیتی ہیں۔
وزارت دفاع کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی افواج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حلف کی خلاف ورزی ایک سنگین الزام ہے جسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے‘ ۔ بدقسمتی سے یہ دعویٰ بھی اسی طرح محض ایک واہمہ کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح اپیل کنندہ کے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر تصدیق شدہ خبروں کی بنیاد پر صادر ہؤا تھا۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ پاک فوج نے آئین پاکستان کی وفاداری کے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے جرنیلوں کے بارے میں ’عدم برداشت‘ کی پالیسی اختیار کی ہےبلکہ ملک کے آئین کو توڑنے اور غیر آئینی طور پر ملک پر طویل عرصہ تک حکومت کرنے والے جرنیلوں کو بھی فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔ اس ملک کے آخری فوجی حکمران آئین کی خلاف ورزی کے الزام کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے ہی بیرون ملک فرار ہیں۔ تاہم فوج نے اس پر بھی کسی پشیمانی یا حیرانی کا اظہار نہیں کیا۔
بہتر ہوتا کہ فوج کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل دائر نہ کی جاتی۔ ادارے کی عزت و وقار کے لئے اب بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ مختصر سماعت کے بعد ان درخوستوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرے۔ ان امور پر ہونے والی بحث اور سامنے لائے جانے والے شواہد سے پاک فوج کی شہرت میں اضافہ کا امکان نہیں ہے۔ یہ صورت حال فوجیوں کے مورال پر زیادہ منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ