یہ بات 1980ء کی دہائی کی ہے جب ہماری رہائش خونی برج ملتان ہوا کرتی تھی ۔خونی برج کا ذکر آ گیا ہے تو اُس نام کا تاریخی پس منظر بھی سن لیں کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر سکندرِ اعظم جنگ میں شدید زخمی ہوا پھر وہی زخم اُس کی موت کا سبب بن گئے۔ خونی برج میں سکندرِ اعظم کی جنگ اتنی شدید تھی کہ وہاں پر لاشوں کے برج بنتے گئے اُسی وجہ سے اس جگہ کو خونی برج کہا جاتا ہے۔ بات کر رہاتھا اپنی رہائش کی‘ کہ چوک خونی برج میں کوئی بک سٹال نہیں ہوتا تھا۔ مجھے اخبارات و رسائل خریدنے کے لئے پاک گیٹ اور حرم گیٹ جانا پڑتا تھا۔ چوک پاک گیٹ پر صدیق قادری کا بکسٹال ہوا کرتا تھا جبکہ چوک حرم گیٹ پر عزیز بکسٹال پر ہر وقت رونق رہتی تھی۔ مجھے اپنے اخبارات‘ رسائل و کتب خریدنے سے ان کے بکسٹال پر مطالعہ کرنے کی عادت تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں خونی برج سے چوک کچہری سول لائنز کالج کبھی پیدل یا کبھی سائیکل پر جایا کرتا تھا۔ اُن دونوں بک سٹال کے رومانس میں تو میں زمانہ طالب علمی ہی میں مبتلا ہو گیا تھا کہ میری پہلی مادر علمی اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے سکول میں زیادہ تر طالب علم پیدل سکول آیا کرتے تھے۔ مجھے جن اساتذہ نے اخبارات پڑھنے کی جانب راغب کیا ان میں نصیر ناز‘رفیق ظفر‘ مرید حسین‘ غلام رسول عباسی ‘حافظ محمد فاروق خان سعیدی اور دیگر شامل ہیں۔
ذکر کر رہا ہوں ملتان کے گم شدہ بکسٹالوں کاجن کاایک طرف نام و نشان مٹ گیا تو دوسری طرف اُن کے مالکان بھی رفتگاں کا حصہ بن گئے ۔عزیز بکسٹال پر صرف کاروبار نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ علم و ادب کا مرکز تھا۔ ملتان کے نامور لکھنے والے پورا دن آتے جاتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا اخبار‘ پہلا رسالہ اور پہلی کتاب بھی اُسی بک سٹال سے خریدی پھر ایک دن میں نے گزرتے ہوئے دیکھا کہ عزیز بکسٹال پر چارٹ پیپر پر لکھا ہوا تھا ”سب رنگ ڈائجسٹ اگلے ہفتے دستیاب ہو گا“۔ میں نے اُس اطلاع نامہ پر کوئی توجہ نہ کی کہ میں نے کبھی یہ رسالہ نہ دیکھا تھا نہ پڑھا تھا ۔اب معاملہ یہ ٹھہرا کہ شہر کے جس بک سٹال کے سامنے سے گزرتا تو ہر بکسٹال پر یہی لکھا ہوا آویزاں دکھائی دیتا کہ
”سب رنگ ڈائجسٹ اگلے ہفتے دستیاب ہو گا“
ایک ہفتے بعد میں نے ملتان کے ہر بک سٹال پر” سب رنگ ڈائجسٹ“ کی ڈھیریاں لگی دیکھیں تو اشتیاق ہوا کہ اُس رسالے میں آخر کیا ہے جو ہر بکسٹال کی رونق میں اضافہ کر رہا ہے؟ ہر بکسٹال پر گیٹ توڑ رش دیکھ کر میں نے ایک شمارہ عزیز بکسٹال سے لائن میں لگ کر خرید لیا۔ گھر آ کر سرسری ورق گردانی کی تو اس کے پہلے صفحہ کے متن نے ہی اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔اُس کے بعد سب رنگ کے باقی رنگوں کو دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ لوگ اس رسالے کے دیوانے کیوں ہیں؟ یہ میرا فسٹ ائیر کا دور تھا۔ میں سب رنگ کے سحر میں ایسا گم ہوا کہ نصابی کتب کی ہوش نہ رہی۔ وہ سب رنگ ڈائجسٹ جس نے اپنے اشاعتی سفر کا آغاز 1970ء میں کیا لیکن میں اس کا اسیر 1981ء کو ہوا جب میں نے عزیز بکسٹال سے شمارہ نمبر 99۔100 خرید، اور گھر کی راہ لی۔ اُس سے پہلے میں مظہر کلیم ایم اے کے لکھے ہوئے بچوں کے لیے ناول پڑھتے ہوئے عمران سیریز کا دیوانہ ہو چکا تھا۔ خونی برج سے حرم گیٹ جانے کے لیے میں النگ کا راستہ اختیار کرتا تھا۔ پاک گیٹ اور حرم گیٹ النگ کے درمیان مظہر کلیم ایم اے کے پبلشر یوسف برادرز کا دفتر تھا۔سہ پہر کے بعد یوسف برادرز کے دفتر میں ایک شخص کو مسلسل دائیں ہاتھ سے لکھتا ہوا جبکہ بائیں ہاتھ سے سگریٹ کے کش لگائے ہوئے دیکھا کرتا۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں کبھی یہ بات نہ آئی کہ یوسف برادرز کے دفتر میں لمبے قد والا اور کھردرے نقوش والا شخص مظہر کلیم ہو سکتا ہے۔ ایک دن میں یوسف برادرز کے مالک اشرف صاحب سے عمران سیریز لینے گیا تو انھوں نے میرا اُن سے تعارف کرایا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ جس ادیب کو مسلسل پڑھ کر میں سب رنگ ڈائجسٹ اور سنجیدہ کتب کے مطالعے کی طرف آیا وہ تو میرے شہر کا باسی ہے۔
قارئین کرام ‘بات سب رنگ ڈائجسٹ سے شروع ہوئی اور ذکر جناب مظہر کلیم ایم اے کاچھڑ گیا۔ مظہر کلیم ایم اے سے تفصیل سے آنے والے دنوں بات کریں گے ابھی تو ہم آپ سے اپنے محبوب رسالے ’سب رنگ ‘کی باتیں کریں گے کہ جب ہم اس کا پہلا شمارہ خرید کر گھر لائے تو علم ہوا گھر میں وہی شمارہ میرے چچا پروفیسر حسین سحر بھی خرید لائے ہیں۔ کتنی عجیب بات تھی کہ ایک ہی گھر میں” سب رنگ“ ڈائجسٹ کے دو پڑھنے والے موجود تھے۔ دونوں ایک شمارے کو علیحدہ علیحدہ پڑھ رہے تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ وہ شمارہ خریدا جبکہ چچا جان کب سے سب رنگ کے اسیر تھے؟ یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی البتہ میرے ہاتھ میں سب رنگ ڈائجسٹ دیکھ کر انھوں خوشی کا اظہار کیا اور کہا اُسے پڑھتے رہو گے تو اردو بہتر ہو جائے گی۔ ایک طرف چچا پروفیسر حسین سحر کی بات کہ اردو زبان بہترکرنے کے لئے سب رنگ ڈائجسٹ پڑھو! دوسری طرف میں نے جب ”سب رنگ“ پڑھنا شروع کیا تو مطالعہ کرنے کی لو مزید بھڑکتی گئی۔ باریک کتابت سے سجا سب رنگ ڈائجسٹ پڑھنے میں کم و بیش دوہفتے لگ گئے تو مشتاق احمد یوسفی کی کتب کی طرح دوبارہ سے سب رنگ ڈائجسٹ کو پہلے صفحہ سے پھر پڑھنا شروع کر دیا ۔ یہی سب رنگ ڈائجسٹ کی کامیابی کا راز تھا۔ ذاتی صفحہ سے پہلے ایک مختصر معلومات افزا مضمون نما کہانی سے لے کر آخر تک سب پڑھنے کے لائق ہوتا تھا۔ سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیرشکیل عادل زادہ نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ سرروق سے لے کر آخری صفحہ پر اُن کی قلم کی جولانیاں دیکھنے کو ملیں۔ شمارہ نمبر 99۔100 پڑھتے ہی اگلے شمارے کا انتظار شروع کر دیا۔ روز عزیز بکسٹال حرم گیٹ ملتان کے سامنے سے گزرتے ہوئے سب رنگ ڈائجسٹ کے اگلے شمارے کے آنے کے اطلاع نامہ کو تلاش کرتا لیکن ہر بار چوک سے گزرتے ہوئے مایوسی ہوتی،پھر تقریباً سوا سال بعد اگلا شمارہ آتا ہے۔ یہ سلسلہ مطالعہ 2007ء جنوری تک برقرار رہتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے 1981ء سے لےکر 2007ء تک کل سترہ شمارے خریدے ‘وہ سب رنگ ڈائجسٹ جس کے مجموعی طور پر 104 شمارے شائع ہوئے‘ اُس میں سے میں نے صرف سترہ پڑھے۔ اب میں نے باقی شماروں کی کھوج شروع کی۔ لاہور میں میو ہسپتال کے سامنے پرانی کتب کی دوکانوں اور پرانی انار کلی کی سڑکوں پر پرانی کتب ورسائل کے سٹال پر باقاعدگی سے چکر لگاتا تو کبھی کبھی سب رنگ ڈائجسٹ کے پرانے شمارے مل جاتے ۔ یہ وہ دور تھا جب میں خود بھی کتب کے کاروبار کا حصہ بن چکا تھا۔ ہر اہم اور نئی کتاب سب سے پہلے میرے شوروم پر آتی ۔میں اس کا پہلا قاری بھی ہوتا لیکن سب رنگ ڈائجسٹ نے جس طرح کی کہانیاں پڑھنے کی عادت ڈالی اس کا متبادل مجھے نہ ملا۔ انہی دنوں ایک نیوز ایجنسی کے مالک و بانی حافظ عبدالخالق سے سب رنگ ڈائجسٹ کے مارکیٹ سے غائب ہونے کی بات ہوئی تو کہنے لگے میں نے اس کا متبادل سسپنس ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے طویل ناول ”دیوتا“ میں تلاش کر لیا ہے کہ ڈائجسٹ پڑھنے کی عادت کو برقرار رہنا چاہئے۔ حافظ عبدالخالق تو سب رنگ ڈائجسٹ کے نئے شمارے کی خواہش لئے دنیا سے چلے گئے کہ تادم تحریر سب رنگ ڈائجسٹ منظر عام سے غائب ہے کہ گزشتہ ماہ بک کارنر جہلم کے مدار المہام امر شاہد نے خوش خبری سنائی کہ شکیل عادل زادہ کے نگارخانہ سے سمندر پار شاہ کار افسانوں کے تراجم کا انتخاب سب رنگ ڈائجسٹ کے عاشق زار حسن رضا گوندل نے کیا ہے۔ چند دن پہلے امر شاہد نے سب رنگ کہانیاں کے نام مرصع مسجع کتاب بھجوائی تو میرا سب رنگ ڈائجسٹ سے پرانا عشق جاگ اٹھا ۔کتاب کھولتے ہی گلزار کی رائے یہ بتاتی ہے کہ شکیل عادل زادہ ہمارے ملاح ہیں‘ ہمارے نا خدا ہیں! ہمارا سفینہ ادب اُن کے حوالے سے ادب سمندر ہے اور ڈوب کے جانا ہے ۔
سو پیارے قارئین کرام! ”ساون بھادوں“ کے اِس موسم میں جب ہر طرف سے شدید بارشوں کی خبریں آرہی ہیں لیکن اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ابھی تک کہیں سے سیلاب کی خبریں نہیں آئیں البتہ میرے گھر میں حسن رضا گوندل اور امر شاہد نے شکیل عادل زادہ کے ادب سمندر میں کہانیوں کا وہ سیلاب لطف جہاں بھجوا دیا ہے جس کے مطالعے کے دوران کبھی حیرت کے جہان میں ڈوبتا ہوں توکبھی مسکراتے ہوئے کہانیوں میں غوطہ زن ہوتا ہوں کہ یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے اپنی جان کا خیال کہاں رہتا ہے۔
فیس بک کمینٹ