پاکستان کی نصف سے زائد آبادی درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن کے پاس ذاتی استعمال کیلئے موٹر سائیکل کی سواری موجود ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ بس موٹر بھی لگی ہے اور پٹرول ختم ہونے کی صورت میں پیدل گھسیٹ کر سائیکل کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے موٹر سائیکل استعمال کرنے والے تنخواہ دار طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ اگر حکومت غریب طبقے کی بہتری کیلئے کچھ کام کرنا چاہتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گاڑیوں کی قیمت کے مطابق مقرر کی جائیں پندرہ بیس ہزار کی موٹر سائیکل والا بھی اسی قیمت پر پٹرول خریدتا ہے جس پہ لاکھوں روپے کی گاڑی والا خریدتا ہے اس میں فرق ضروری ہے ۔
یعنی جتنی بڑی گاڑی ہو اتنی زیادہ قیمت ہو اور موٹر سائیکل اور عام آدمی کی سواری رکشہ اور دیگر شہری سہولت کی سواریوں کو کم قیمت پر پٹرول فروخت کیا جائے اس طرح سے حکومت ان لوگوں کو ریلیف دے سکتی ہے جو مہنگائی کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اسی طرح دیگر اشیاء ضروریکی قیمتوں میں بھی فرق مقرر کیا جائے تاکہ معاشرے میں طبقاتی فرق کو کم کیا جا سکے مگر ہر حکومت نے غریب آدمی کو مہنگائی کی چکی میں پیس پیس کر عوام کا بھرکس نکال دیا۔ حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضے وصول کرتے ہیں جو ان کی اپنی عیا شیوں پر خرچ ہوتے ہیں ہر جانے والی حکومت کے اربوں روپے کے کرپشن سکینڈل سامنے آتے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی عوام کی فلاح کیلئے غیر ممالک سے امداد طلب کی جاتی ہے اور پھر عام عوام پر بجلی پٹرول اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے جس سے درمیانہ طبقہ اب خط غربت کی لکیر سے نیچے آتا جا رہا ہے ۔
ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومتوں کو مہنگائی اور دیگر مسائل کو وجہ بنا کر مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کر دیتی ہے ابھی بھی وقت ہے عام آدمی کی مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے اگر ایسے ہی عالمی اداروں سے قرض لیکر حکومت چلائی جاتی رہی تو آنے والے وقت میں مشکلات ہیں بے حد اضافہ ہو سکتا ہے