کرکٹ اور میرا تعلق تقریباً تیس سال پرانا ہے اور یہ تعلق ناموافق و نامناسب حالات، گھریلو اور دیگر مسائل کے باوجود نہ ٹوٹ سکا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اپنی زندگی کی 4 دہائیاں مکمل کر چکا ہوں مگر کرکٹ سے تعلق میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی، جوش آج بھی کسی نوخیز بچے کی مانند ہے۔ یوں تو فٹبال، ہاکی، والی بال اور بیڈمنٹن میں بھی ہم نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے مگر کرکٹ سے تعلق اپنی جگہ قائم و دائم رہا اور الحمدوللہ قائم ہے۔ کرکٹ سے اپنے تعلق کے حوالے سے ایک واقعہ رقم کر رہا ہوں، یہ بات ہے 1987ء کے ورلڈ کپ کی جس کا انعقاد پاکستان اور بھارت میں مشترکہ طور پر ہوا۔ اپنی نئی نسل کی آگاہی کیلئے یہ بتاتا چلوں کہ اس ورلڈکپ کے میچز صرف لاہور کے "قذافی سٹیڈیم” یا کراچی کے "نیشنل سٹیڈیم” میں نہیں کھیلے گئے تھے بلکہ ان بین الاقوامی میچوں کی میزبانی کے فرائض فیصل آباد کے "اقبال سٹیڈیم”، پشاور کے "ارباب نیاز سٹیڈیم”، راولپنڈی کے "پنڈی کلب سٹیڈیم” گوجرانوالہ کے "میونسپل سٹیڈیم” اور حیدرآباد کے "نیاز سٹیڈیم” نے دئے تھے۔ مختصراً یہ کہ پاکستان نے اپنے پول میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کیلئے چھ میں سے پانچ میچوں میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اپنے راؤنڈ کا آخری مقابلہ ویسٹ انڈیز سے نہ جیت سکا۔ 4 نومبر 1987 کو سیمی فائنل لاہور میں منعقد ہوا اور مدِمقابل آسٹریلیا تھا۔ پاکستانی ٹیم کی بہترین کارگردگی نے پاکستانی قوم کی توقعات بھی آسمان پر پہنچا دی تھیں، مگر ساری توقعات پر اس وقت پانی پھرگیا جب ہمارے تمام بلے باز اٹھارہ رن پہلے ہی ہمت ہار گئے اور یہ وہ تاریخی اٹھارہ رن تھے جو سلیم جعفر نے آخری اوور میں دئیےتھے اور پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں لگ بھگ ستاون ہزار تماشائیوں نے اس میچ کو دیکھا۔ اس دن کرکٹ کیلئے ہماری آنکھوں سے خوب پانی بہا یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب ہم نے اپنے قیمتی آنسو اس کھیل کے تعلق میں بہائ، پھر ہم نے کرکٹ کیا دنیا سے ہی توقعات چھوڑ دیں اور اس لفظ کو اپنی ڈکشنری سے ہمیشہ کیلئے نکال دیا۔
مذکورہ بالا واقعے سے میرا مقصد کرکٹ سے اپنی والہانہ تعلق کا اظہار قطعی نہیں تھا کیونکہ نامعلوم مجھ جیسے بلکہ مجھ سے کئی گنا زیادہ والہانہ پن رکھنے والے آج بھی موجود ہیں۔ اس تحریر سے ایک تو یہ پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان کا کوئی ایک شہر کرکٹ کے دیوانوں کا مرکز نہیں ہے بلکہ پاکستان کے کونے کونے میں کرکٹ کے متوالے اور "محبت” کرنے والے بستے ہیں۔ پاکستان میں حالات کیسے بھی ہوں مگر کرکٹ کے متوالے اپنا شوق اور اپنی محبت کا رنگ دکھاتے میدانوں، سڑکوں اور گلی محلوں میں نظر آتے ہیں۔ ہم پاکستانی مختلف امور میں علاقائی، لسانی، سیاسی اور مذہبی اختلافات رکھتے ہوں گے مگر جب بات کرکٹ کی ہوتی ہے تو پاکستان ایک ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کو یا تو کوئی حادثہ یا سانحہ متحد کرسکتا ہے یا پھر تن تنہا کرکٹ کا کھیل۔ بصورتِ دیگر ہم ایک دوسرے کی مخالفت میں "صرف” ہونے والے کو ہی قیمتی سمجھتے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ نے پہلے ایڈیشن کے اختتام پر ہی یہ پیغام چھوڑ دیا تھا کہ اگلے یعنی دوسرے ایڈیشن کا کم از کم فائنل پاکستان میں ضرور کروائینگے۔ دوسرے ایڈیشن کی افتتاحی تقریب میں اس بات کی توثیق کر دی گئی کہ فائنل قذافی سٹیڈیم، لاہور پاکستان میں کھیلا جائے گا۔ فروری کی 9 تاریخ کو پاکستان سپرلیگ کی رنگا رنگ اور پر وقار افتتاحی تقریب دبئی کے اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی اور اس کے بعد سے مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
دوسری طرف انتظامیہ نے اپنی کوششوں کا رخ موڑا اور فائنل کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم لے جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ہمارے دشمنوں کے کان کھڑے ہوئے، ہماری سلامتی کے دشمن چوکنے ہونا شروع ہوئے اور جب انہیں یہ یقین ہوگیا کہ یہ کرکٹ کے متوالے کرکٹ کیلئے پاگل لوگ اب فائنل پاکستان کے دل لاہور میں کروا کر ہی دم لیں گے تو انہوں نے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا شروع کردیا۔ اس گھناؤنے کھیل کا آغاز لاہور شہر سے کیا گیا کہ حکومت اس فائنل کولاہور میں نہ کرائے یا انتظامیہ اپنا ارادہ بدل لے مگر ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہ دیا تو ہمارے بزدل دشمن نےان دھماکوں کا سلسلہ دراز کردیا، لاہور کے بعد چارسدہ اور پھر سندھ کے جنوبی شہر سہیون حضرت لعل شہباز قلندر کی مزار میں زائرین کے جمِ غفیر میں خود کش بمبار کی مدد سے خون کی ہولی کھیلی۔ اس کے بعد کئی معتبر شخصیات اور حلقوں کی جانب سے حفاظتی امور کو لے کر فائنل لاہور میں نہ کرانے کا مشورہ دیا اور خدشہ ظاہر کیا یہ کسی بہت بڑے سانحے کا سبب نہ بن جائے۔ تھا مگر پھر حکومت وقت نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور حتمی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ فائنل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہی کھیلا جائے گا، پاکستان کی افواج ایک بار پھر میدان میں کود پڑیں اور امیر سپاہ نے ساری حفاظتی ذمہ داری اپنے اور اپنے جوانوں کے کندھوں پر ڈال دی۔ یہ فائنل آج کھیلا جانا ہے۔ پاکستان سپر لیگ ایڈیشن 2 کا فاتح کوئی بھی ہو جیت پاکستان کی ہی ہوگی۔ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے حالات میں فائنل کا پاکستان میں کروانے کا فیصلہ ٹھیک ہے؟ کیا عقل اس بات کی اجازت دے رہی ہے۔ کیا پر امن ملک کا پیغام اپ پورے ملک میں کرفیو لگا کر دینا چاہتے ہیں۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کوآپ دوگنے تگنے پیسے دے کر حفاظتی حصار میں گھوما پھرا کر کھیل کھلوا کر واپس بھیج دینگے، جب تک عام آدمی تک مشہور لوگوں کی رسائی ممکن نہی ہوجاتی کوئی ملک اپنے آپ کو پر امن نہیں کہلواسکتا۔ ہم پاکستانی نڈر اور بہادر قوم ہیں، ہم بڑے سے بڑے معاملے کو بہت بردباری، ہمت اور حوصلے سے سہہ جاتے ہیں۔
ہم نے کرپٹ حکمرانوں کو بھی جھیلا ہے اور ہمارے جوانوں نے جسم سے بم باندھ کر بھی وطن عزیز کی حفاظت کی ہے ہم نے کبھی کسی مشکل وقت میں اپنے ہم وطنوں کو تنہا نہیں چھوڑا لیکن وہ لوگ جو جہاں دیدہ ہیں جن کی نظر ہر لمحہ بدلتی صورتحال پر ہے جو کہیں سے بھی بیٹھ کر کہیں کا بھی معائنہ کرنے کی قابلیت اور اہلیت رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ قوم کو جوش کی وجہ سے کسی مشکل میں نا دھکیلیں۔ ہمارا دشمن ہماری صفوں میں ہم جیسا ہی بن کرگھسا بیٹھا ہے ہمارے لئے شناخت کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے اداروں کو بھٹکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم پاکستانیوں کے لئے یوں تو ہر لمحہ ہی خوفزدہ کئے رکھتا ہے مگر ہم نہ تو ڈرتے ہیں اور نہ کسی ڈر کی وجہ سے رکتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں ہمیں اپنے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا ہے تاکہ اس کٹھن وقت سے ہم سہل طریقے سے گزر جائیں۔
فیس بک کمینٹ