( گزشتہ سے پیوستہ )
گلشن آرا خوش تھی کہ شکور اتنے روز سے گھر میں مقیم ہے اور پنجاب جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ نہ وہ گھر سے نکلتا تھا اور نہ ہی گھر میں کسی کی آمد برداشت کرتا تھا۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ یوں روپوش ہو جانے کے بعد وہ گلشن آرا کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کرے گا مگر اب وہ اپنے آپ کو ایک مفرور قیدی تصور کرنے لگا تھا۔ گلشن آرا جس دفتر میں کام کرتی تھی وہ سب لوگ اسے جانتے تھے۔ جلد یا بدیر اس کی جہاز میں ہلاکت کی خبر پھیل جانا تھی۔ سیٹھ ﷲ والا کے دفتر والوں کو اس کی ہلاکت کا علم ہو گیا تھا وہ یقیناً اس کے بارے میں جان لیتے کہ وہ چاکیواڑہ میں گلشن آرا کے گھر میں مقیم ہے۔ گلشن آرا کے ساتھ اس کی شادی اگرچہ خفیہ طور پر ہوئی تھی مگر ایسی باتیں تادیر خفیہ نہیں رہتی ہیں۔ اس کی پراسرار خاموشی اور نیم پاگلوں والی حرکتیں گلشن آرا کو بھی شک میں ڈال رہی تھیں۔
وہ راتوں کو اٹھ کر الماری میں چھپائے ہوئے بیگ کی موجودگی کی تسلی کرتا۔ بار بار اٹھ کر دروازے اور کھڑکیاں بند ہونے کی تصدیق کرتا تھا۔ ایک روز جب شکور غسل کے لیے گیا تو گلشن آرا نے بیگ کھول کر دیکھا اور ایک خطیر رقم دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اس کا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ شکور نے اتنی بڑی رقم کسی واردات میں حاصل کی ہے۔ وہ شکور پر اندھا اعتماد کرتی تھی۔ لہٰذا اسے بے حد دکھ ہوا کہ وہ کوئی بھیانک واردات بھی کر سکتا ہے۔ اس نے ایک روز شکور سے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا تو شکور کو اصل قصہ اسے بتانا پڑا۔ شکور کے دل میں پہلے کوئی بدنیتی نہ تھی بلکہ اس نے اس شخص کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی مگر ایک کمزور لمحے میں وہ ایک غلط فیصلہ کر بیٹھا تھا۔ اب تمام معاملات اس کے قابو سے باہر ہو گئے تھے اور اب چار و ناچار انہیں ان حالات سے نبرد آزما ہونا تھا۔ گلشن آرا سمجھدار تھی اس نے شکور کو معاف کر دیا تھا اور صدقِ دل سے اس کا ساتھ دینے کا تہیہ کر لیا۔
گلشن آرا نے جب اپنے بوڑھے والدین کو یہ بتایا کہ وہ شکور کے ساتھ پنجاب جا کر آباد ہو رہی ہے تو وہ پریشان ہو گئے مگر گلشن آرا کی خوشی کی خاطر انہوں نے دعاؤں کے ساتھ شکور اور گلشن آرا کو رخصت کیا۔ شکور پنجاب جانے کی بجائے کوئٹہ چلا گیا۔ گلشن آرا کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ تو دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ پنجاب میں شکور کے گھر والوں نے اسے دیکھ لیا تو اس کا بسا بسایا گھر اُجڑ جائے گا۔ وہ کوئٹہ جانے کا سُن کر پُرسکون ہو گئی تھی۔
مَیں اور گلشن آرا جب کراچی صدر ریلوے اسٹیشن سے بولان میل میں بیٹھے تھے تو میرا نام شکور تھا۔ بائیس گھنٹے کے بعد جب بولان میل کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچی تو گلشن آرا کے ساتھ مَیں بطور موسیٰ خان ریل سے اترا تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے سامنگلی ہم لوگ ایک کار نما ٹیکسی میں گئے۔ میرا ایک دوست گل خان سامنگلی کا رہنے والا تھا اور پچھلے سال اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ مجھے علم تھا کہ اس کے بیٹے کا نام شاہ زیب ہے۔ مجھے شاہ زیب کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ مَیں نے اسے بتایا کہ مَیں اس کے مرحوم والد کا دوست ہوں اور کراچی سے آیا ہوں۔ گل خان کے گھر والوں نے ہماری خوب آؤ بھگت کی۔ کئی روز مَیں اور گلشن آرا ان کے ہاں مہمان رہے۔ اس دوران مَیں نے شاہ زیب کو باور کرا دیا تھا کہ میرے آباؤ اجداد زیارت کے رہنے والے ہیں اور کئی پشتیں کراچی میں رہنے کے بعد مَیں واپس اپنی دنیا میں آنا چاہتا ہوں۔ اپنی بولی بولنا چاہتا ہوں، اپنے بلوچی رنگ کو اُجاگر کرنا چاہتا ہوں۔ شاہ زیب میرے جذبات سے بے حد متاثر ہوا۔ چند ہی دنوں میں میرا لباس، بول چال اور رہن سہن وہاں کے مقامی لوگوں جیسا ہو گیا۔
گلشن آرا میرے ساتھ مکمل تعاون کر رہی تھی۔ ہمیں کوہِ مردار کے دامن میں سفید پتھر کے عین نیچے ہزارہ نسل کی آبادی میں ایک نیم پختہ مکان مل گیا۔ مَیں نے اپنے پاس موجود رقم سے ایک سوزوکی کیری اور ایک ڈالہ خرید لیا تھا۔ دن بھر سامان کی ترسیل میں مصروف رہتا اور گلشن آرا محلے بھر کے غریب بچوں کو قرآن پڑھاتی تھی۔ ہمارا طرزِ زندگی بالکل مقامی لوگوں جیسا ہو گیا۔ مَیں سر پر بلوچی ٹوپی پہنتا تھا، بلوچوں جیسی داڑھی رکھ لی تھی۔ چمڑے کی سخت چپل میرے پاؤں کی زینت تھی۔ گلشن آرا نے بھی شیشوں والے کڑھائی شدہ لباس زیب تن کرنا شروع کر دیئے تھے۔ مَیں نے رفتہ رفتہ ایک ڈرائیور بھی رکھ لیا تھا اور اب ایک متوسط ٹرانسپورٹر بن گیا تھا۔ محلے بھر میں کوئی پہچان نہ پاتا تھا کہ ہم باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ ہمیں سب لوگ بلوچ سمجھتے تھے۔
مجھے اس ماحول میں رہتے ہوئے ایک عرصہ ہونے کو آیا تھا۔ مَیں نے دل کڑا کر کے اپنا ماضی فراموش کر دیا تھا۔ مجھے کبھی کبھار اپنے بیٹوں کی شدت سے یاد آتی۔ جمشید کا خیال بھی آتا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اُڑ کر اپنے گھر چلا جاؤں اس کے در و دیوار دیکھوں اور دیکھوں کہ میری بیوی اور بچے کس طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی شدت سے احساس ہونے لگا تھا کہ کہیں کچھ غلط ہو گیا ہے۔ جو کچھ ہوا وہ آخر کیونکر ہوا۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ مَیں اپنا ماضی فراموش کر دوں اور 20 لاکھ روپے کی خاطر یوں لاپتہ ہو جاؤں۔ اپنی پہچان کھو بیٹھوں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کر دوں۔ مجھے یہ سب ایک بھیانک خواب سا لگتا تھا۔ مَیں اپنے گھر سے خوش نہیں رہتا تھا۔ نجانے وہ کونسا جذبہ تھا جس نے مجھے گھر سے دور اور گلشن آرا کے قریب کر دیا تھا۔ شاید وہ میرا ناشکرا پن تھا۔ قدرت نے مجھے اتنی بڑی سزاد ی تھی کہ مَیں دنیا والوں کی نظر میں کبھی کا ہلاک ہو چکا تھا اور آج دنیا میں میری کوئی شناخت نہ تھی۔ مَیں محض ایک ڈالہ یا کیری کا ڈرائیور تھا۔ دوسرے ڈرائیوروں کی طرح درشت، سخت کوش اور تند خو۔ گلشن آرا مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی مگر غربت کے باعث اس کے سر پر بھی چاندی پھیل گئی تھی۔ وہ اس قدر صابر و شاکر تھی کہ کبھی اس نے گلہ نہ کیا تھا کہ مَیں اسے اس کے ماحول، گھر بار اور والدین سے دور اس سنگلاخ وادی میں کیوں لے آیا ہوں۔ وہ اس حال میں بھی ہر دم میری آسائشوں کا خیال رکھتی تھی۔ ہمیں کوئٹہ میں رہتے ہوئے بیس برس بیت گئے۔
کبھی جب فضا میں اُڑتے مسافر جہاز پر نظر پڑتی تو نہایت تلخ یادیں میرے احساس میں پھیل جاتی تھیں۔ کبھی مجھے خیال آتا کہ کاش مَیں پہلی پرواز میں ہی چلا گیا ہوتا اور فضائی حادثے میں ہلاک ہو گیا ہوتا اور یوں ایک غیر فطری زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔ میری زندگی مکمل طور پر خفیہ اور مصلحتوں کے باعث مصنوعی پن کا شکار تھی۔ مجھے شدت سے احساس ہونے لگا تھا کہ مَیں نے اپنی بیوی جمشید اور دونوں بیٹوں کے ساتھ بےحد زیادتی کی ہے۔ اگر مَیں ان کے ساتھ رہتا تو کئی طریقوں سے ان کے کام آ سکتا تھا۔ ان کی زندگی میں بہتری لا سکتا تھا۔ مجھے گلشن آرا سے کوئی گلہ نہ تھا اس نے تو مجھے ایک مشکل وقت میں سہارا دیا تھا۔ شاید میری ہی طرف سے اس کے ساتھ کچھ زیادتی ہوئی تھی۔ وہ اپنے گھر بار سے دور میرے ساتھ ایک روپوشی کی زندگی گزار رہی تھی۔
ایک روز مَیں اپنے ہی گھر کے دروازے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ اس گھر میں لگ بھگ بیس برس کے بعد آنا ہوا تھا۔ گھر کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی تھی۔ مَیں آنکھوں میں آنسو لیے اپنے در و دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ جو پودا مَیں نے اپنے ہاتھوں سے چھوٹے سے باغیچہ میں لگایا تھا وہ اب تناور درخت بن گیا تھا۔ گھر میں خاموشی تھی۔ دور گھر کے اندر بچوں اور خواتین کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہ میرا اپنا گھر تھا اور اس کے اندر رہنے والے مکین میرا ہی خون تھے مگر مَیں اس گھر کے اندر داخل ہونے کا مجاز نہ رہا تھا۔ دوبارہ گھنٹی بجائی تو ایک نوعمر لڑکا دروازے پر نمودار ہوا۔ وہ ہوبہو راشد کا ہمشکل تھا اور یقینا اس کا بیٹا تھا، وہ میرا پوتا تھا دل چاہتا تھا کہ مَیں اسے گلے سے لگا لوں مگر وہ میرا حلیہ دیکھ کر دروازے سے باہر ہی نہ آیا بلکہ درشتی سے پوچھنے لگا کہ مَیں کون ہوں؟ مَیں سفید بالوں اور داڑھی میں ایک اُجڈ قبائلی لگ رہا تھا۔ میلے کپڑے، پہاڑی چپل اور سر پر بلوچی ٹوپی پہنے ہوئے ایک نیم خواندہ سردار جیسا۔ مَیں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مَیں اس سے اس کی دادی کی بابت پوچھنا چاہتا تھا۔ اس کے باپ اور چچا کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا مگر وہ مجھے نہایت مشکوک انداز میں پرکھ رہا تھا۔ مَیں نے اسے بتایا کہ مَیں اس کے مرحوم دادا کا پرانا دوست ہوں۔ آج دل چاہا کہ اپنے پرانے دوست کے خاندان والوں سے مل آؤں لہٰذا چلا آیا۔ اپنے دادا کے ذکر پر اس نے میرے ساتھ مصافحہ کیا اور مجھے ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھا دیا۔ ڈرائنگ روم کے سامنے کی دیوار پر میری جوانی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ایک کارنر ٹیبل پر جمشید اور میری شادی کی تصویر تھی۔ مَیں اپنے آنسو روک نہ سکا۔ میرا پوتا حیران ہو کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے اس کی دادی کی خیریت معلوم کی تو اس نے بتایا کہ دادا کے جہاز کے حادثے میں ہلاکت کے چند برس کے بعد دادی بھی داغِ مفارقت دے گئی تھیں۔ میرا پوتا بڑے اشتیاق سے اپنے مرحوم دادا کی باتیں کر رہا تھا۔ اس کی پیدائش سے پہلے ہی وہ حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ اس نے کہا کہ آپ کچھ وقت رک جائیں ابا اور چچا آتے ہی ہوں گے اور وہ آپ سے مل کر بےحد خوش ہوں گے۔ مجھ میں اپنے بیٹوں سے ملاقات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مجھے پہچان لے۔ انہیں وضاحت دینے کے لیے اب میرے پاس کوئی کہانی نہیں تھی اور مَیں ان کے ساتھ رشتے کا حق کھو بیٹھا تھا۔ مَیں نے جاتے ہوئے اپنے پوتے کو بھینچ کر اپنے ساتھ لگایا۔ اسے میری آنسوؤں سے تربتر داڑھی حیران کر رہی تھی۔ مَیں اس گھر سے ایک بار پھر رخصت ہو گیا شاید اب آخری بار۔
فیس بک کمینٹ