آٹھ مارچ کو پاکستان میں عورتوں کا مارچ ہوا۔ مارچ تو اُسی دن شام کو ختم ہو گیا تھا لیکن گرد ابھی تک تھم نہیں رہی۔ بہت سارے ماہر کالم نگار دانش ور ہیں کہ اپنے قلم کو کوڑا بنا کر میدان کار زار میں ڈٹ کھڑے ہوئے۔ اُن کے قلم و دہن سے ابھی تک مسلسل چنگاریاں اُٹھ رہی ہیں ، لگتا ہے ضرب کہیں گہری پڑی ہے۔ آٹھ مارچ کو پوری دنیا میں عورتیں اپنے حقوق کے لئے مارچ کرتی ہیں۔ ہمارے دانش ور سمجھ رہے ہیں کہ یہ کوئی نئی ” شرارت“ ہے۔ اس مارچ کی تاریخ ڈیڑھ پونے دو سو سال پرانی ہے۔ سب سے پہلے آٹھ مارچ 1857کو نیو یارک امریکہ میں ہزاروں فیکٹری مزدور عورتوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی تھی۔ ہر سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر آٹھ مارچ 1910کو ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں بڑے پیمانے پر مارچ ہوا، اور اسے ہر سال آٹھ مارچ کو عالمی سطح پر منانے کی قرار داد پیش کی گئی۔ یہ قرار داد جرمنی کی سوشلسٹ پارٹی کی معروف رہنما کلارا نے پیش کی تھی۔ اگلے سال آٹھ مارچ 1911کو یورپ کے مختلف ممالک میں دس لاکھ سے زائد عورتوں نے اس مارچ میں حصہ لیا۔پھر آٹھ مارچ 1917کو روس کی بہادر عورتوں نے بڑے پیمانے پر ظالم زار شاہی کے خلاف احتجاج کیا اور تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔عورت مارچ بنیادی طور پر مرد کے خلاف نہیں ہے بلکہ دنیا کو مرد کی نظر کے ساتھ ساتھ عورت کی نظر سے دیکھنے کی بھی ایک خواہش ایک کوشش ہے۔ آٹھ مارچ 1979 کو تہران یونیورسٹی میں بیس ہزار عورتیں اکٹھی ہوئیں اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا۔ بعد کے دنوں میں راہ چلتی عورتوں کی پیٹھ پر چھرے گھونپے جانے لگے اور رہبر انقلاب نے ان عورتوں کو فحش عورتیں قرار دیا تھا۔ آج بھی وہاں کی ظالم تھیوکریسی کسی شے سے خوف زدہ ہے تو وہ ایران کی بہادر عورت ہے۔ جس کی زندہ مثال وہاں کی انسانی حقوق کی معروف وکیل نسرین ستودہ کو پچھلے ہفتے 38سال قید اور148 کوڑوں کی سزا ہے۔ مگر ہواﺅں کے سر زندان کی دیواروں سے ہمیشہ اونچے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی جنرل ضیا کے تاریک ترین دور حکومت میں اس عوام دشمن نظام کے خلاف ہماری بہادر عورتوں نے احتجاج کیا اور تشدد برداشت کیا۔ ایک ایسی ہی عورت کو جسے پھانسی دی گئی ، اس پر معروف ترقی پسند دانشور کالم نگار اور ادیبہ محترمہ زاہدہ حنا نے اپنی لازوال کہانی تخلیق کی ، تتلیاں ڈھونڈنے والی،، اس کہانی کو پڑھ کر آج بھی آنسو تھم نہیں پاتے، جب وہ پھانسی والی رات اپنے کم سن بچے کو جلدی سلانے کی کوشش کرتی ہے ، کہ فجر کے وقت موت کے فرشتے جب آئیں تو وہ جاگ نہ رہا ہو، وہ اپنے بچے کو لوری سناتے ہوئے اُس کی پیشانی چومتے ہوئے کہتی ہے میرے لال جب صبح مجھے اپنے پاس نہ پاﺅ تو پریشان نہ ہونا میں تمہارے لیے تتلیاں ڈھونڈنے چلی جاﺅں گی ، جب تمہارے ماموں تمہیں لینے آئیں تو تم اُن کے ساتھ چلے جانا۔پاکستان میں جو مارچ پچھلے ہفتے منعقد ہوا اس میں ہر طبقے کی عورت شریک ہوئی ، طبقہ اشرافیہ کی عورتیں بھی تھیں جن کے اپنے مسائل تھے اور انہوں نے انہیں اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے بینروں پر لکھا ہوا تھا۔ ہم ان سے اختلاف کر سکتے ہیں اور یہ چند ایک ہی تھے، مگر ان کی آڑ میں اس مارچ کے خلاف وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا جس کا سلسلہ ابھی تک تھم نہیں رہا۔ ہمارے بہت سارے خود ساختہ یا معلوم قوتوں کے ساختہ دانش ور ہر صاف ستھرے کپڑے پہنے اور عینک لگائی ہوئی عورت کو طبقہ اشرافیہ کی عورت سمجھ لیتے ہیں اور پھر اپنے زبان و قلم کا دامن چاک کر کے باہر نکل پڑتے ہیں ۔ اللہ اُن کی اس حالت زار پر رحم فرمائے۔ اب بات کرتے ہیں عورتوں کے حقوق بارے ۔ کیا پاکستانی عورت کو اس کے تمام جائز حقوق مل چکے؟۔ ہمیں ایسے مواقع پر اکثر کوئی اور دلیل نہیں سوجھتی تو اچانک مذہب یاد آ جاتا ہے۔ کیا وہ حقوق جو عورت کو مذہب نے دیے ہیں وہ ہمارے مذہبی معاشروں نے دے دیے ؟ ہمارے ہاں کتنے گھر ہیں جہاں عورت کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں؟۔ جہاں بیٹیوں کو بوجھ اور پرایا دھن نہیں بلکہ بیٹوں کے برابر گھر کا اہم تریں فرد سمجھا جاتا ہے؟ ۔ کتنے گھر ہیں جہاں عورتوں کو گھریلو معاملات میں رائے دینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ؟۔ کیا ہمارے ہاں غیرت کے نام پر عورت کی جان نہیں لی جاتی؟ خود میرے گاﺅں میں پچھلے بیس پچیس سالوں میں چھ سات عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اور یہ گاﺅں کسی پہاڑ یا صحرا کا قباہلی گاﺅں نہیں شمالی پنجاب کے ضلعے چکوال کا گاﺅں ہے جہاں کی شرح تعلیم ہم ستر فی صد بتا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں بچیوں کی کالج اور یونیورسٹی سطح کی تعلیم پر تحفظات نہیں پائے جاتے؟۔ کیا شادی کے موقع پر اُن کی رائے پوچھی جاتی ہے اور اسے حتمی سمجھا جاتا ہے؟ عورت پاﺅں کی جوتی، اُس کی عقل گُت اور گٹے میں، بے پردہ عورت ننگے گوشت جیسی، عورت فتنہ، عورت کی حکمرانی اللہ کا عذاب، جیسے محاورے زبان زدِ عام نہیں ہیں؟ گزشتہ صدی کے اوائل میں جب عورت اپنے حقوق کے لیے میدان میں اُتری جس کے حوالے میں اوپر دے چکا ہوں، تو وہ جان چکی تھی کہ عورت کو حقیر بناے جانے کی جڑ اُس کا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ مردوں کے سامنے مالی طور پر محتاج ہونا ہے۔ اُس کا ہاتھ اوپر والا ہاتھ ہونے کی بجائے نیچے والا ہاتھ ہے۔ ز رعی دور میں عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر کے مالی طور پر مرد کا محتاج بنا لیا گیا تھا ۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دور نے باہر نکل کر تعلیم حاصل کرنے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کے مواقع مہیا کیے اور عورت نے ان سے بھر پور فائدہ اُٹھایا اور خود کو مرد کے برابر انسان کی حیثیت سے منوایا، ہمارے ہاں کی عورت جب تک تعلیم حاصل کر کے جدید دور کے تقاضوں پر پورا اتر کر اپنے پاﺅں پر کھڑی نہیں ہوتی اسے بنیادی انسانی حقوق کبھی نہیں ملیں گے۔ بڑا زور دیا جاتا ہے اس بات پر کہ عورت ماں ہے بیوی ہے بیٹی ہے ۔ کتنے بیٹے ہیں جنہوں نے بال وپر آنے پر اپنی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر پوچھا ہو ماں جی تم نے اس دنیا کو کیسے پایا اور تم کتنی خوش ہو؟۔ کتنے بھائی ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں کو تنہائی میں بٹھا کر اُن کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ہو کہ تم چاہتی کیا ہو ، دیکھو ڈرو مت تمہارا بھائی تمہارے ساتھ ہے۔ خدا کے بندو جس عورت پر تم غضب ناک ہو رہے ہو ، اخلاق کا دامن تار تار کر رہے ہو وہ کوئی دوسری اور غیر عورت نہیں تمہاری ماں بھی تو ہے ۔ خود کو تھوڑی دیر کے لیے اُس کا بیٹابن کر سوچو تو ممکن ہے بات تمہاری سمجھ میں آ جائے۔
فیس بک کمینٹ