گزشتہ دنوں عسکری مقتدرہ کی طرف سے آپریشن ردالفساد کا پرچہ لگا۔ خدا قدم قدم پر کامیابی نصیب فرمائے۔اس لیے کہ خدا کو زمین پر فساد برپا کرنے والوں سے بڑھ کر کسی شے سے نفرت نہیں۔ فرش زمین پر معبوث ہونے والے ہر پیغمبر ؑ نے فتنہ و فساد کے خلاف جدوجہد کی۔اس طبقے کے خلاف خبردار کیا جس کا براہ راست مفاد اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ ہر زمانے کے فاضل وعاقل نے مخلوق خدا کو اس طبقے کی پہچان کروائی۔ ہمارے حکیم الاُمت نے بھی ہمیں بتایا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کا کام فی سبیل اللہ فساد برپا کرنا ہوتا ہے۔ تو پہلی بات تو طے ہے جناب، جب تک فی سبیل اللہ فساد والوں کا احتساب نہیں ہوتا اس وقت تک ایسی کوئی کوشش حتمی کامیابی کی منزل سے دُور ہی رہے گی۔ ایک بات تو اب مکمل نہیں تو خاصی حد تک صاف ہو گئی ہے، کہ ہماری ریاستی عسکری قوتوں نے اس بات کا ادراک و اقرارکر لیا ہے کہ فتنہ و فساد کا معدن کہاں ہے۔ اس بات کا کریڈٹ پوٹھوہار کے کیانیوں کے بیٹے کو دیا جانا چاہیے، جس نے پہلی مرتبہ کھلے دل سے اقرار کیا، نہ صرف اقرار بلکہ اعلان بھی،کہ اصل خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہے۔جب راحیل شریف نے ضرب عزب کا اعلان کیا تو پوری قوم نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اطمینان بخش ہے یہ امر کہ ضرب عزب کا وار کاری ثابت ہوا۔ فتنہ مکمل طور پر فرو تو نہ ہوا لیکن پہلے جیسی طاقت اب اس میں نہیں۔ ضرب عزب نے اس فتنے کو سرحدوں سے باہر دھکیل دیا جو اسلام آباد سے ساٹھ میل پر بتایا جا رہا تھا۔ راحیل شریف اپنی ڈیوٹی پوری کر کے ایک پیشہ ور سپاہی کے طور پر عزت سے رخصت ہوئے۔چھڑی جنرل قمر جاوید باجوہ نے سنبھالی، اور خوب سنبھالی۔ قلندر کے مزار پر بزدلانہ حملے سے اگلی رات نے تو یہی ثابت کیا۔ اب اُنہوں نے ردالفساد کے نام پر ایک دوسری مُہم کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں پوری امید ہے یہ وار بھی خالی نہیں جائے گا۔ لیکن صاحب بہت سارے سوالات ہیں جو بار بار سر اُٹھاتے ہیں۔کیا ضرب عزب والی تلوار نیام میں ڈالی جا چکی ؟۔ اگر نہیں تو ضرب عزب اور ردالفساد کے درمیان خط فاصل کیا ہے؟ ۔اگر یہ دو مختلف اقسام کی مُہمیں ہیں تو ان کا دائرہ کار کیا ہوگا؟ ضرب عزب کا ہدف تو واضح تھا مگر ردالفساد کا ہدف کہاں ہے؟ مذہب اور شریعت کا نام لے کر فساد پھیلانے والے یا وہ بھی جن کے مطالبات مذہبی نہیں صرف سیاسی ہیں؟ مرکز گُریز اور شریعت جو قوتوں کے درمیان کوئی فرق روا رکھا جائے گا یا نہیں؟ کیا ریاست کی مقتدر قوتوں نے اب طے کر لیا ہے کہ بس بہت ہوچکا، مذہب اور سیاست کے درمیان اب ایک واضح لکیر کھینچنے کا وقت آ گیا ہے؟ جب مذہب کے نام پر امن و امان کو تباہ کرنے والی قوتوں کے خلاف طبل جنگ بج چکا، تو پھر ایسے اعلانات مذہب ہی کے نام پر کیوں؟ ضرب عزب اور ردالفساد مذہبی اصطلاحیں ہی تو ہیں۔ پھر یہ ابہام کیسا؟ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو واضح جوابات کے متمنی ہیں۔ کیا آئی ایس پی آر، کیا وزارت دفاع، کیا وزارت داخلہ ان سوالات کے جوابات دینا پسند فرمائیں گے؟ ویسے یہ کام تو وزارت داخلہ کا ہے، اس لیے کہ یہ مسئلہ داخلی ہی تو ہے، کیا وزیر داخلہ ایک طویل پریس کانفرنس اس موضوع پر بھی منعقد فرمائیں گے؟ خدا بھلا کرے ہمارے وزیر دفاع کا کبھی کبھی کام کی بات اُن سے سرزد ہو ہی جاتی ہے۔پچھلے دنوں فرما رہے تھے جو جو بھی ریاست کے خلاف بندوق اُٹھائے گا وہ ریاست کے نزدیک دہشت گرد گردانا جائے گا۔ اب ردالفساد کا پرچہ لگا ہے اور طبل بھی بج چکا تو کیا وہ ہمیں بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہاں بھی معاملہ صرف بندوق والوں سے ہی رہے گا ؟ یا اُن کے خلاف بھی کچھ ہو گا جو گلی گلی اپنے اپنے منھ سے شعلے اُگلتے ہیں۔ زبانیں جن کی امن کی پیٹھ پر کوڑوں کی طرح برستی ہیں۔ ایک صاحب شریعت ہیں لاہور سے کراچی تک جن کی جولان گاہ ہے۔ بات کرتے ہیں تو لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ فرما رہے تھے ،کون کہتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے؟ ہم نے تو کہیں نہیں پڑھا، اسلام امن کا نہیں غیرت کا دین ہے۔ یہ تو آیا ہی کفر کو مٹانے کے لیے تھا۔اب ایسوں سے کون نمٹے؟مفتیانِ کرام ومفسرین عظام کہاں ہیں؟ کیا یہ بات مولانا طارق جمیل تک نہیں پہنچی؟یا وہ اس بات سے متفق ہیں؟کیا یہ امن و آشتی کا درس ہے؟ اگر نہیں تو کیا ایسے لوگ ردالفساد کا موضوع ہیں بھی یا نہیں؟ بی بی سی جیسے ادارے جن کی قوت و قدرت پر رپورٹیں شائع کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ یوکے میں ایک مذہبی جنونی قاتل کو جسے عدالت سزا سنا چکی ہے، موصوف نے اپنا ہیرو قرار دیا ہے۔ بی بی سی جیسا ادارہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے فساد پھیلتا ہے۔ لیکن ہماری حکمران قوتوں کے نزدیک ایسی کوئی بات نہیں۔ ردالفساد والوں کے نزدیک شاید ایسی باتوں سے امن کے آبگینے کو ٹھیس پہنچنے کا کوئی امکان نہیں؟جب تک ایسے عناصر کھلے عام آزاد گھوم رہے ہوں ردالفساد پر سوالات تو کھڑے ہوں گے ہی۔ یا ہمیں بتایا جائے کہ فساد صرف وہ ہی سمجھا جائے گا جو بندوق سے پھیلتا ہے۔ صاحبان امرکس دن اس حقیقت کو تسلیم کریں گے؟ کہ فساد کا موجب صرف بندوقیں نہیں زبانیں بھی ہوا کرتی ہیں، بندوقیں تو نفرت کو خون خرابے میں بدلتی ہیں۔زبانوں کو لگام قانون دیتا ہے ۔جب قانون منھ لپیٹ کر پڑ رہتا ہے تو بہت جلد اس کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پھر اسے اپنے تحفظ کے لیے بھی بندوق اٹھانا پڑتی ہے۔ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ عوام کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ قانون اب بیدار ہی رہے۔ بندوقوں کے ساتھ ساتھ زبانوں کا بھی کچھ بندوبست کر لے۔
فیس بک کمینٹ