یہ رحمِ مادر میں ہونے والا ایک مکالمہ ہے۔ دو جڑواں بچوں کا مکالمہ جو ابھی ماں کی کوکھ سے باہر اس دنیا میں نہیں آئے۔
پہلا:کیا تم زچگی کے بعد زندگی پر یقین رکھتے ہو؟
دوسرا:ہاں یقیناً۔ زچگی کے بعد کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔ ہو سکتا ہے زچگی کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کے لئے ہی ہم یہاں ہوں۔
پہلا:بکواس۔ زچگی کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، اور اگر تمہاری بات مان بھی لی جائے تو وہ کس قسم کی زندگی ہوگی….؟
دوسرا:مجھے کچھ زیادہ علم نہیں مگر یہاں کی نسبت وہاں زیادہ روشنی ہوگی۔ ہو سکتا ہے ہم اپنی ٹانگوں پر چلیں اور منہ سے کھائیں پئیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں کچھ ایسی مزید حسیات (Senses) مل جائیں جن کا آج ہم ادراک نہیں رکھتے۔
پہلا:نامعقول بات ہے۔ اپنے پیروں پر چلنا اور منہ سے کھانا!!…. کیا مضحکہ خیز باتیں کرتے ہو۔ یہ ناڑ جو ہمارے نافوں میں لگا ہے، ہمیں غذا فراہم کرتا ہے اور فضلات خارج کرتا ہے۔ لیکن یہ ناڑ بہت چھوٹا ہے ہم زیادہ دور نہیں جا سکتے سو منطقی طور پر بھی یہاں سے باہر زندگی ناممکن ہے۔
دوسرا:میرا خیال ہے کہ وہاں کے حالات یہاں کی نسبت مختلف ہوں گے۔ ہو سکتا ہے خوراک کے لئے اور فضلہ خارج کرنے کے لئے ہمیں اسی مادی ناڑ کی ضرورت ہی نہ ہو۔
پہلا: فضول بات کرتے ہو یار! اگر واقعی یہاں سے باہر کوئی زندگی ہے تو کبھی کوئی پلٹ کے اس کی گواہی دینے، اس کے بارے میں بتانے کیوں نہیں آیا؟ یہ جو زچگی ہے، دراصل زندگی کا خاتمہ ہے۔ وہاں کچھ نہیں ہے سوائے اندھیرے کے، خاموشی کے اور خود فراموشی کے۔ یہ زچگی ہمیں کسی اور دنیا میں لے کر نہیں جاتی، یہ اختتامِ زندگی ہے اور بس۔
دوسرا:مجھے نہیں پتہ تم ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو۔ یہ بات یقینی ہے کہ زچگی کے بعد ہم وہاں اپنی ماں سے ملیں گے جو ہمارا بہت بہت خیال رکھے گی۔
پہلا: ماں….؟؟ کیا تم ماں پر یقین رکھتے ہو…؟ ہاہاہاہا….کیا مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر واقعی ماں وجود رکھتی ہے تو اس وقت وہ کہاں ہے….؟
دوسرا: ماں ہمارے چاروں طرف ہے۔ ہم ماں کے وجود میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم اسی کا حصہ ہیں اور اس کے اندر رہتے ہیں۔ ماں کے بغیر اس دنیا کا کوئی وجود نہیں۔
پہلا: (کاندھے اچکاتے ہوئے) میں اسے نہیں دیکھ سکتا چناں چہ فطری اور منطقی بات یہی ہے کہ ماں وجود نہیں رکھتی۔
دوسرا: دیکھو! کبھی کبھی جب گہری خاموشی ہوتی ہے، تم اپنی توجہ کو مرکوز کر کے دیکھنا، تم ماں کی موجودگی کو محسوس کرو گے اور تمہیں اس کی آواز بھی کہیں اوپر سے یہاں نیچے آتی ہوئی سنائی دے گی۔
پتہ نہیں منطق کے اور ظاہر کے رسیا پہلے نے کیا جواب دیا مگر مکالمہ ختم ہوگیا اور اس چھوٹے سے تمثیلی مکالمے نے پچھلے کچھ دنوں سے میرے دل و دماغ پر چھائی شک و شبہات کی دھند صاف کر دی۔ جیسے فضا میں ٹھہرا غبار بارش کے ابتدائی قطروں سے زمین بوس ہوگیا ہو۔ یہ مکالمہ امریکہ کے ڈاکٹر وائن ڈائر کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ڈائر، سن دو ہزار پندرہ کو پچھتر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کے بارے میں تفصیلات اگلے کالم میں بتاﺅں گا۔ ابھی تو میں اپنی سوچوں سے صاف ہونے والے کہرے کی روداد آپ سے بانٹنا چاہتا ہوں۔
صوفی نے کہا تھا ”علموں بس کریں او یار…. اکو الف تیرے درکار“۔ درست کہا تھا مگر اپنی تلاش میں کام یابی کا کوئی سِرا ہاتھ آنے کے بعد ہی صوفی نے یہ فیصلہ صادر کیا۔ تلاش ہر ایک کی اپنی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ دوسرے کی تلاش کی ہوئی منزل آپ کو بہم ہو یا جس راستے پر چل کر کسی دیگر نے منزل کی جھلک پائی ہے، وہ راہ آپ کو بھی منزل تک لے جائے۔ بارہ برس ویرانوں میں گیان دھیان کرنے اور رشیوں، منیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کے باوجود بدھ کو نروان نہ ملا۔ ملا تو بڑ کے ایک درخت تلے ٹین ایجر چھوکری کے ہاتھوں۔ مولانا روم پیہم چھتیس گھنٹے ایک ہی جگہ گول گول گھومتے رہے اور منزل پاکر مولائے روم ہو گئے۔ آج کتنے درویش ان کی پے روی میں لمبے چوغے پہن کر یہ گول گھومنے والا رقص کرتے ہیں مگر سوائے تھکاوٹ کے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا۔
بہرحال، چھوٹی موٹی تلاش یہ کالم نگار بھی جاری رکھا کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک کتاب ہاتھ لگی ”اناالحق“ کوئی مظہر بخاری صاحب ہیں، خود پسندی اور منطق کے مریض۔ ہیں خیر بہت پڑھے لکھے، فلسفہ و منطق کو بھاری بھرکم اصطلاحات میں نہیں لپیٹتے، بڑے سہل اور سادہ انداز میں بات کرتے چلے جاتے ہیں جو مجھ ایسے اوسط ذہن کے مالک کو بھی پہلی ہی خواندگی میں سمجھ آجاتی ہے۔ خیر! انہوں نے طویل تلاش کے بعد جو سچ پایا ہے وہ ہمارے تمام مروجہ دینی و مذہبی عقائد، عبادات اور روحانی اعمال کو رد کرتا ہے۔ ماسوائے نبی آخر ﷺ کی ذاتِ والہ صفات کے دیگر تمام انبیائ‘ حتیٰ کہ رحمان اور شیطان کے وجود پر انکار یا پختہ شک کا درس دیتا ہے۔ میں آپ کے سامنے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھوں گا، سچی بات یہی ہے کہ دس بارہ روز کے لئے اس کتاب نے مجھے بڑا کنفیوز رکھا۔ عبادات، تقدیر، آخرت سبھی کچھ مشکوک ہو گیا۔ گناہ ثواب ہے بھی کہ نہیں اور ان کا اجروسزا ؟ نماز پڑھتا تو رہا مگر انتہائی بے دلی سے، کوئی کیفیت ہی نہ بنتی۔ بے یقینی کے جھکڑ چلتے جو الحاد کی ایسی گرد اڑاتے کہ جس میں گم ہو کے رہ جاتا۔
پھر ایک دن سویرے منہ اندھیرے جب کنفیوژن کا شکار میرا خیال اس ادھیڑ بن میں تھا کہ نماز پڑھوں یا نہ، تو یہ مکالمہ میری نظر پڑا۔ پتہ نہیں آپ پر اس حکایت نے کیا اثرات چھوڑے ہیں مگر میں نے یہ پایا کہ ظاہری حسیات کے بل پر سطحی علوم حاصل کر کے دانش ور اور سائنس دان کہلوانے والے یہ سبھی بالشتئے دراصل کنوئیں کے مینڈک ہیں اور گھڑے کی مچھلی۔ یہ عشق سے محروم لوگ ہیں۔ علامہ نے کہا تھا
عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
جن کے دامن عشق سے تہی ہیں وہ اسی ”کوکھ“ کو بے کراں سمجھے ہوئے ہیں۔ پہلے بچے کی طرح اُن کی سوچ اس سے باہر کا ادراک ہی نہیں کرسکتی۔ اس کون و مکاں سے باہر بھی کوئی دنیا ہے جہاں ہمیں جانا ہے۔ اُن کا ظاہری حسیات کے ذریعے کشید کردہ علم یہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ ہوا، پانی اور مٹی کی اس ”ناڑ“ کے بغیر بھی کوئی زندگی ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ مخبر ہائے صادق خبر دے چکے کہ آگے ایک جہان آنے والا ہے جس کی نہ ا بتدا ہے نہ انتہا۔ نہ آغاز نہ انجام۔ وہاں زماں ہے نہ مکاں۔ مادے سے مبرا کوئی دنیا ہے جہاں ستر ماﺅں سے بڑھ کر محبت لئے ایک مہربان ہستی ہماری منتظر ہے۔ وہ ہستی اب بھی، اس عالمِ رنگ و بو میں بھی موجود ہے۔ ہمارے چاروں طرف موجود ہے، ہمیں اس نے گھیرا ہوا ہے، اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خاموشی کی اور سکوت کی ساعتوں میں کان لگا کر سننے والوں کو اس کی آواز بھی آتی ہے۔ وہ مہرباں ہستی جسے نہ کسی نے جنا ہے اور کسی کو اس نے جنا ہے، جو یکتا و تنہا ہے مگر بڑی ہی مہرباں اور نہایت رحم کرنے والی۔ جس کے غصے پر اُس کی شفقت حاوی و غالب ہے اور جس نے رحمت کو خود پر فرض کرلیا ہے۔
اس روز کتنے ہی دنوں بعد میرے دل و نظر کی خشونت و سختی نمازِ فجر میں بھیگتی آنکھوں کے پانی نے دھو ڈالی۔ لبیک اللھم لبیک۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)