جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ہفتے کے روز بہاولپور کے علاقے گلشن حبیب کراچی موڑ کے قریب مدرسہ جامعہ صدیقیہ میں علماء کنونشن سے خطاب کیا۔ اس کنونشن میں جنوبی پنجاب سے جمعیت کے علماء شریک ہوئے ۔ علماء کنونشن سے پہلے ضلعی انتظامیہ نے اس کی اجازت نہ دی تھی تاہم گزشتہ ہفتے جمعیت علماء اسلام ف کے رہنماؤں نے سینیٹ میں اجازت نہ دینے کے معاملے پر آواز اٹھائی تو جمعہ کے روز بہاولپور کی ضلعی انتظامیہ نے اعلی حکام کے کہنے پر اجازت دے دی۔مولانا فضل الرحمان کی بہاولپور آمد سے قبل یہ خبر بھی سامنے آئی کے مولانا فضل الرحمان کو بہاولپور میں گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان کے خلاف 12 اگست 2018 کو پنجاب پبلک آ رڈیننس 6 کے تحت بہاولپور میں مقدمہ درج کیا گیا تھا مقدمہ تھانہ کینٹ میں انصاف لائرز فورم بہاولپور کے سٹی صدر کلیم اللہ نے درج کروایا تھا جس میں کلیم اللہ نے مؤقف اختیار کیا کہ 10 اگست 2018 کو مولانا فضل الرحمان نے اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان مخالف بیان دیا کہ ہم 14 اگست نہیں منائیں گے بلکہ اس دن کو یوم احتجاج منائیں گے میری بطور پاکستانی شہری کے دل آزاری ہوئی ہے انہوں نے پاکستان مخالف بیان دیا ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارر وائی کی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ تاہم پولیس نے سائل کی درخواست پر The Punjab Maintenance of Public Order 16 Ordinance 1960 کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ اس سلسلے میں ہفتے کے روز مولانا فضل الرحمان کے علماء کنونشن سے خطاب سے قبل ضلعی انتظامیہ نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی ضمانت کرواکر شہر میں داخل ہونے کا کہا جس پر مولانا فضل الرحمان نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ آپ مجھے اگر بہاولپور میں گرفتار کر بھی لیں گے تو میں تب بھی ضمانت نہیں کراؤ ں گا ( اس بات کا اعتراف مولانا فضل الرحمان نے علماء کنونشن میں تقریر کے دوران بھی کیا ) ۔ مولانا فضل الرحمان کے جواب پر ضلعی انتظامیہ بھی فیصلہ کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتی رہی ۔اس حوالے سے بہاولپور کے ایک پولیس افسر سے آف دی ریکارڈ بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ایک روز قبل انتظامیہ یہ فیصلہ کرتی رہی کہ مولانا فضل الرحمان کو گرفتار کر نا ہے یا ان کو سیکیورٹی فراہم کرنی ہے تاہم ہفتے کے دن علماء کنونشن میں جمعیت علمائے اسلام ف کے کارکنوں کا بڑے ہجوم دیکھ کر انتظامیہ نے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو سیکورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ۔علماء کنونشن کے دوران تقریباً چالیس سے پچاس افسران و اہلکاروں نے سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دیے تاہم علماء کنونشن کے اندر اور مولانا فضل الرحمان کہ سیکیورٹی پر جمعیت کہ اپنی فورس موجود رہی ۔