شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں محاذ آرائی پھر عروج پر ہے ۔ شاہ محمود قریشی 22 جون 1956ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایچی سن اور فورمین کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی۔شاہ محمود قریشی کا تعلق ملتان کے پیر گھرانے سے ہے، وہ دربار حضرت بہاؤالدین زکریا اور دربار شاہ رکن الدین عالم کے سجادہ نشین ہیں جبکہ ان کی جماعت غوثیہ کے لوگ پنجاب، سندھ اور ہندوستان کی ریاست راجستھان میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی جنرل ضیاء الحق دور میں پنجاب کے گورنر تھے جس کے باعث شاہ محمودقریشی کو سیاست میں آسانی ہوئی۔شاہ محمود قریشی پہلی بار 1985ء میں ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور 1986ء میں پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔1988ء کے عام انتخابات میں دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعلی پنجاب نواز شریف کی کابینہ میں منصوبہ بندی اور ترقیات کے صوبائی وزیر رہے۔1990ء میں تیسری مرتبہ شاہ محمود قریشی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعلی پنجاب منظور وٹو کی کابینہ میں وزیر خزانہ کے منصب پر رہے۔1993ء میں شاہ محمود قریشی نے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی کشتی میں سوار ہو گئے۔اسی برس وہ پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ملتان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور رہے۔ 1996ء میں محترمہ نے شاہ محمود قریشی کو پیپلز پارٹی کا ترجمان مقرر کر دیا۔1997ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر شاہ محمود قریشی مسلم لیگ ن کے امیدوار جاوید ہاشمی سے شکست کھا گئے۔2000ء میں مشرف دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شاہ محمود قریشی ملتان کے ضلع ناظم منتخب ہوئے۔2002ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور مسلم لیگ ن کے جاوید ہاشمی کو شکست دیکر پرانا حساب برابر کر دیا۔2008ء میں شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں انہیں وزیر خارجہ کا منصب دیا گیا۔ریمنڈ ڈیوس واقعہ کے بعد شاہ محمود قریشی نے وزارت اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا۔ 2011 میں تحریکِ انصاف کا حصہ بن گئے ۔دوسری طرف جہانگیر ترین 4 جولائی 1953 کو بنگلہ دیش کے شہر کومیلا میں پیدا ہوا اور پھر مغربی پاکستان آگئے ۔ کریسچن کالج لاہور سے 1971 میں گریجویشن کی جبکہ 1974 امریکی یونیورسٹی ساؤتھ کیرولینا سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔جہانگیر ترین لیکچرار اور بینکر بھی رہے اور زرعی شعبہ سے وابستہ رہے ۔ جہانگیر ترین نے 2002 میں سیاست میں قدم رکھا اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خصوصی مشیر برائے زراعت رہے ۔ پھر 2004 سے 2007 سے وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رہے ۔پھر 2011 میں تحریکِ انصاف کا حصہ رہے ۔ 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے ہاتھوں شکست کھائی ۔ عمران خان نے 2013 کے بعد جن چار حلقوں کو کھولنے کے لیے دھرنا دیا اس میں جہانگیر ترین کا حلقہ بھی شامل تھا تاہم 2017 میں جہانگیر ترین نے انتخابی عذرداری کا کیس جیتا اور ضمنی انتخاب بھی جیتا تاہم پھر عدالت نے انہیں اثاثوں کی تفصیلات بارے مطمئن نہ کرنے پر آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا نہ اترنے پر صادق اور امین نہ رہنے کا فیصلہ دیا جس کے بعد جہانگیر ترین انتخابی سیاست سے باہر ہوگئے ۔یہ دونوں رہنماؤں کا پس منظر ہے ۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کے وفاقی کابینہ کے اجلاس پر اعتراض اٹھایا تو جہانگیر ترین نے بھی کہہ دیا کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں دونوں رہنماؤں کا آپس میں پارٹی پر اثر رسوخ قائم کرنے کے حوالے سے اختلافات ہیں شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بنے جبکہ جہانگیر ترین مسلم لیگ ق کو خیر باد کہہ کر عمران خان کی جماعت میں شامل ہوئے ۔گزشتہ چھ سالوں کے دوران عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخاب یا پھر بلدیاتی انتخاب تو پارٹی ٹکٹ کی تقسیم پر دونوں رہنما اختلاف کا شکار رہے اور کئی بار تحریک انصاف کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بھی تلخ کلامی ہوئی۔دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مند تھے لیکن جہانگیر ترین ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئے جہانگیر ترین نے ملتان کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر شاہ محمود قریشی کے مخالف آزاد امیدوار سلمان نعیم کی حمایت کی جبکہ جیتنے پر سب سے پہلے سلمان نعیم کو مبارکباد دی ۔ اور ابھی تک سلمان نعیم اکثر جہانگیر ترین کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین کے پنجاب کی حکومت پر زیادہ اثر رسوخ پر بھی ناخوش ہیں جو حالیہ اختلاف کی وجہ قرار دی جارہی ہے جبکہ دونوں رہنماؤں کے درمیان جنوبی پنجاب صوبہ اور سیکرٹریٹ پر بھی اختلافات موجود ہیں۔سیاسی مبصرین کے مطابق شاہ محمود قریشی طاقتور حلقوں کے قریبی سمجھے جاتے ہیں اس حوالے سے جہانگیر ترین بھی ناخوش دکھائی دیتے ۔ لیکن شاہ محمود قریشی نے جو یہ کھل عام جہانگیر ترین کے خلاف بیان دیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اتنا بڑا بیان وہ طاقتور حلقوں کی اشیر باد کے بغیر نہیں دے سکتے ۔بہر حال اگر شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیان کہ جہانگیر ترین کا وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بیٹھنا توہین عدالت ہے وہ بالکل درست ہے کیونکہ عدالت نے جہاں نواز شریف کو آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا نہ اترنے پر نا اہل قرار دیا تو اسی حوالے سے جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیتے ہوئے سند یافتہ جھوٹا قرار دیا ہے اس لیے ان کے پاس اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔
فیس بک کمینٹ