شہر کے ہنگاموں سے دور آباد صحرائی دانشور محبّی رانا اعجاز نے نوابوں کے شہر بہاولپور میں برصغیر کی تاریخ کا المیہ کچھ یوں بیان کیا ’’داراشکوہ نہ ہارتا تو برصغیر کی تاریخ آج مختلف ہوتی‘‘ ایک فقرے پر مشتمل تاریخ کا یہ خلاصہ، اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ اس خیال نے میرےلئے تازیانے کا کام کیا۔ دماغ میں فلم چلنے لگی اور بار بار یہ خیال آنے لگا کہ آخر برصغیر میں داراشکوہ مسلسل ہار کیوں رہے ہیں؟ یورپ کی تاریخ میں بالکل الٹ ہوا۔ وہاں کے داراشکوہ کو ایک بار شکست ہوئی، لوگوں نے تاریخ سے ایسا سبق سیکھا کہ تب سے لے کر اب تک یورپ میں داراشکوہ مسلسل جیتتے آرہے ہیں۔ یوں یورپ ترقی کرتا آرہا ہے اور ہمارے داراشکوہ کی ہر شکست کے بعد تنزلی کا سفر اور تیز ہو جاتا ہے۔
تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو مغل شہنشاہ شاہجہاں ایک طرف لاہور میں شالامار باغ تعمیر کر وا رہا تھا تو دوسری طرف شاہی قلعے پر دنیا کی سب سے بڑی تصویری دیوارتیار کروارہا تھا۔ برصغیر میں امن اور چین کا دور دورہ تھا۔ شاہجہاں اور اس کی محبوب ملکہ ممتاز محل کا لخت جگر داراشکوہ مغلیہ روایات کا بہترین وارث تھا۔ شاہجہاں کو ممتاز محل کی موت کا اتنا افسوس ہوا کہ اس کی یاد میں لافانی شاہکار تاج محل کھڑا کر دیا۔ شاہجہاں کا دوسراقابل فخر ورثہ دارالشکوہ تھا جو کئی کتابوں کا مصنف، حضرت میاں میرؒ اور دوسرے درویشوں کا عقیدت مند، آرٹ اور فن کا دلدادہ، عوام دوست اوررحم دل تھا۔ معین باری نے داراشکوہ پر کتاب لکھی تو جہاں جگہ جگہ سے معلومات اکٹھا کیں وہاں داراشکوہ کی شادی کے موقع پر کی گئی آتش بازی اور اس کی اپنےبھائیوں مراد بخش، شاہ شجاع اور اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ گھڑسواری کرتے ہوئےہاتھ سے بنی ہوئی پینٹنگ بھی شامل کردیں۔ ایک اور تصویر میں داراشکوہ اپنے باپ شاہجہاں کو عقاب کا تحفہ پیش کر رہا ہے۔ شاہجہاں نے اپنے دور ِعروج ہی سے داراشکوہ کواپنا جانشین بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور یہ فیصلہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ داراشکوہ کے درجے اور مناصب سے یہ اعلان صاف نظر آتا تھا۔ داراشکوہ مغل اعظم اکبر کی طرح سادھوؤں سنتوں اور درویشوں سے محفل کرتا، پرندوں کی تصویریں بناتا، کتابیں لکھتا اور یوں عدم برداشت اور انتہا پسندی کے خلاف اپنا موقف، اپنے قول و عمل سے ثابت کرتا۔ بس پھر کیا تھا کہ نظر بد پڑی۔ بھائیوں میں اختلاف اتنے بڑھے کہ آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ درباری سازشوں نے زور پکڑا، ا ورنگزیب کا پلڑا بھاری رہا اور داراشکوہ اور اس کےبیٹے کو گرفتارکرکےدہلی کے بدنام زمانہ جلاد نذر بیگ کے حوالے کردیا گیا۔
چشم فلک کو 360 سال پہلے 29اگست 1659ء کا وہ دن یاد ہے جب شاہجہاں کے ولی عہد داراشکوہ اور اس کے شہزادے بیٹے سفیراشکوہ کو ٹھگنے قد کی مادہ ہتھنی پر پھٹے پرانے کپڑے پہنا کر دلّی کی سڑکوں پر پھرایا گیا۔ نذر بیگ ننگی تلوار لہرائے ساتھ موجود تھا۔ لوگ رو رہے تھے۔ وہ فقیر اور درویش جو دارالشکوہ سے امداد لیتے تھے، ان کی سسکیاں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ مغلیہ دور کے مشہور غیر ملکی سیاح برنیئر نے جو اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا، لکھا ہے کہ ’’دلّی کامجمع اس طرح رو رہا تھا کہ جیسے ان کے اپنے خاندان پر کوئی آفت آگئی ہو۔‘‘ اورنگزیب چاہتا تھا کہ داراشکوہ کی تذلیل ہو، اسی لئے گلیوں میں پھرایا مگر اگلے ہی روز اس کا ردعمل اس کے بالکل الٹ ہوا۔ 30اگست 1659ء کو داراشکوہ کا ساتھ چھوڑ کر عالمگیر کا ساتھ دینے والا افغان جنرل ملک جیون جب اپنی مسلح سپاہ کے ساتھ دلّی کے بازار سےگزر رہا تھا تو فقیروں اور دکانداروں نے اس پر حملہ کردیا۔ گھروں کے چوباروں سے خواتین نے اس پر پتھرپھینکے، کئی نوجوانوں نے چاقو ایسے گھمائے کہ ملک جیون کے سپاہی زخمی کرڈالے۔ ایسا لگتا تھا کہ داراشکوہ کی ہمدردی میں دلّی کےلوگ بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ ایسے میں شاہی پولیس نے ملک جیون اور اس کے ساتھیوں کو بچایا۔ اورنگزیب عالمگیر نے فوراً ہی اپنے بھائی داراشکوہ اور بھتیجے سفیر اشکوہ کے قتل کے احکامات جاری کردیئے۔ خود بھائی کا کٹا ہوا سر منگوا کر دیکھا اور پھر اسے سر بازار لٹکانے کا حکم دیا تاکہ باغیوں کو عبرت ملے۔
بظاہر تو یہ کہانی360سال پرانی ہے مگر برصغیر میں عوام کے ہر محبوب رہنما اور بادشاہ کے ساتھ داراشکوہ والا سلوک ہی ہوتا آیا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں عوام کے ہر منتخب وزیراعظم کا یہی حشر ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور مارشل لا کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ، داراشکوہ کے واقعے کا ہی اعادہ تھا۔ اب بھی کچھ نہیں بدلا۔ آج کا داراشکوہ نواز شریف ہے۔ مقدمات پر مقدمات ہیں، الزامات کا طوفان ہے۔ آنے والے دن سزاؤں کے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ تھوڑی بہت بغاوت کی چنگاریا ں بھی سلگ اٹھیں لیکن اورنگزیبوں اور ریاست کی ظالمانہ طاقت کے سامنے عوامی طاقت کھڑی نہیں رہ سکتی۔ داراشکوہوں کو شکست ہونا برصغیر کا مقدر رہا ہے۔ عوام کی تقدیر تبھی بدلے گی جب کبھی داراشکوہ جیتنا شروع ہوں گے۔
ہارنا داراشکوہ کی تقدیر سہی، مگر آخر کچھ غلطیاں داراشکوہ بھی تو ایسی کرتے ہیں کہ اورنگزیب کو جیتنے کا موقع دیتے ہیں۔ داراشکوہ بھٹو نے اپنے نظریاتی اتحادی ولی خان کو اورنگزیب ضیاء کا ساتھی کیوں بننے دیا؟ داراشکوہ نواز شریف نے اپنے سیاسی اتحادی زرداری کو ناراض کرکے مخالفوں کی طرف کیوں دھکیلا؟ وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے داراشکوہ اورنگیزیبوں سے بہتر گورننس کریں گے، بہتر منصوبہ بندی کریں گے اور ہر دفعہ ہار کر تاریخ کا حصہ بننے کی بجائے کب ایسی بھرپور جدوجہدکریں گے کہ آئندہ کوئی داراشکوہ نہ ہارے؟ ہر بار مصالحت، مفاہمت اور درمیانی راستوں پر چلنے کی وجہ سے داراشکوہ بینظیروں اور داراشکوہ نوازوں کو مکمل جمہوریت کی منزل نہ مل سکی۔ اصل میں مکمل جمہوریت کی راہ میں آنے والی مصلحت، مفاہمت اور درمیانی راستہ ہی ہر بار داراشکوہ کو ہراتا رہا ہے۔ داراشکوہ اپنے آہن پوش دستے کو کڑی دھوپ میں کھڑا کرکے انہیں اپنے خلاف کرلیتا ہے اور ہمارے سیاسی داراشکوہ اپنی بیڈگورننس اور اپنی جمہوری صفوں میں شگاف ڈالنے سے کمزور ہوجاتے ہیں اور پھر جب جنگ کا وقت آتا ہے تو اپنی انہی کمزوریوں کی وجہ سے اورنگزیب کا بازوئے شمشیر زن انہیں شکست دے ڈالتا ہے۔
داراشکوہ کی کہانی میں عوام کا قصور بھی صاف نظر آتا ہے۔ وہ دارالشکوہ کی تذلیل پرملک جیون کے لشکر پر پتھر تو پھینکتے ہیں مگر اسے ہرا نہیں پاتے۔ بھٹو کی پھانسی پر خودسوزیاں تو کرتے ہیں مگر سوختہ سامانی سے کوئی انقلاب برپا نہیں کر پاتے۔ نواز شریف کے جلسوں میں گلے پھاڑ کر نعرے تو لگاتے ہیں مگر اس کی خاطر جیلیں نہیں بھرتے۔ مظلوم عوام نے داراشکوہ کو ہارنے سے روکنا ہے تو نیم دلی سے نہیں بھرپور انداز سے سیاست کرنی ہوگی۔
(بشکریہ :روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ