یہ سیاسی تحریر نہیں ہے، اِس لئے اِس سے کوئی بھی سیاسی مطلب نکالنا زیادتی ہو گی۔ یہ موسمی یا زیادہ سے زیادہ طبی کالم ہے جس کا مقصد ملکی عوام کی قومی صحت کو درست کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ معاشی بحران سیاست سے کہیں بڑا ہو کر قومی مسئلہ بن چکا ہے اِس لئے ا ٓج کل سیاست کرنے نہیں بلکہ قومی ذہن اور قومی صحت کو درست کرنے کا وقت ہے، ہم قومی طور پر صحت مند ہو جائیں تو سیاست کا میدان پھر سے سجالیں گے۔ گرمی کا موسم شروع ہے اور اُس میں قومی صحت درست کرنے کے لئے ستو پینا ضروری ہے، فرہنگ آصفیہ اور نئی شائع شدہ پنجابی لغت پلاک ڈکشنری کے مطابق بھنے ہوئے گیہوں کو ستو کہتے ہیں۔ ستو میں شکر ملا کر پینے سے جسم کے اندر ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے۔ لغات میں ستو گھولنا کے نام سے ایک اور اصطلاح بھی درج ہے جس پر عمل ہوجائے تو ملک کے تمام بحران ٹل سکتے ہیں۔ اِس اصطلاح کا مطلب ہے بے فائدہ گفتگو کرنا۔ گویا ملک کو ٹھیک کرنا ہے تو سب ستو پئیں مگر ستو مت گھولیں، یعنی ٹھنڈے رہیں اور بے فائدہ گفتگو نہ کریں۔اِس شاندار نسخے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں تو اپنے حصے کے ستو پی رہا ہوں آپ بھی امید ہے ایسا ہی کررہے ہوں گے، اگر ایسا نہیں کررہے تو فوراً ستو کو بطور خوراک استعمال کریں تاکہ آپ ٹھنڈے رہیں، نہ آپ کو گرمی لگے نہ غصہ آئے ا ور نہ ہی آپ پریشان ہوں۔ سیاست خان کے حوالے ہے وہ جانے اور سیاست جانے، معیشت بھی خان کے حوالے ہے وہ جانے اور آئی ایم ایف جانے، ہمارا اس معاملے میں ستو گھولنے سے فائدہ کیا؟ ملک میں کوئی مصیبت آئے تو اسے بھی خان ہی سنبھالے گا۔ ہم رعایا کا کام ستو پینا، ٹھنڈے رہنا اور پریشان نہ ہونا ہے، باقی سب کچھ خان پر ہے و ہی سب کچھ ٹھیک کرے گا۔
ویسے بھی ستو پینے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگلے ماہ بجٹ ہے، اگست ستمبر میں توسیع یا نئی تقرری کا معاملہ درپیش ہوگا، ایک بڑھے گا 3سال یا پھر کوئی نیا چہرہ؟ اِن سارے حالات میں ہر طرف ستو پینے کی رسم جاری رہتی ہے، کئی دفعہ اِس سارے عمل میں ستو مک بھی جاتے ہیں۔ آنے والے مہینوں کا سب سے بڑا فیصلہ یہی ہوگا اور اِسی سے حکومت کے مستقبل پر پیشین گوئیاں ہو سکیں گی اور پتہ چل سکے گا کہ کس کے ستو ختم ہوں گے۔
جب سے فواد جہلمی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنے ہیں نت نئی ایجادات کا سلسلہ چل پڑا ہے، ستو کی از سر نو بحالی اُنہی کی وزارت کا کارنامہ لگتا ہے۔ ستو پہلے بھی موجود تھے لیکن سیاست کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے ستو کا استعمال پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، آج سے سو سال پہلے یہ تصور عام تھا کہ ایک ایسی دوا بنانا چاہئے جس سے ہر بیماری کا علاج ممکن ہوجائے، اِس فرضی دوائی کو اکیسر اعظم کا نام دیا گیا۔ کئی اتائی اور حکیم اُس کے بنانے کے دعوے کرتے رہے مگر یہ سب جھوٹ نکلے، اب بھی کئی مجمع باز اور مداری چھوٹی سی شیشی نکال کر دو روپے میں ہر بیماری کا علاج ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن آج کے جدید دور میں اکیسرِ اعظم کو مذاق کے طور پر لیا جاتا ہے کیونکہ سائنسدان اس تصور ہی کو احمقانہ جانتے ہیں، شکر یہ ہے کہ وزارت سائنس نے ستو کو باقاعدہ اکیسرِ اعظم کے طور پر مشتہر نہیں کیا، شک البتہ یہی کیا جارہا ہے کہ ستو کی بطور مشروب راتوں رات مشہوری میں کہیں نہ کہیں فواد جہلمی کا ہاتھ ضرور ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلیٰ بزدار کی پےدرپے کامیابیوں کا راز بھی ستو پینے میں ہے، وہ ہر سیاسی حملے کے جواب میں ستو کا شکر بھرا پیالہ پیتے ہیں، بنی نالہ سے بھی ستو پینے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ یہی وہ واحد وجہ ہے جس سے بزدار کی تبدیلی میں تاخیر ہوتی جارہی ہے، وہ جتنے ستو پیتے ہیں اتنی ہی بنی نالہ میں ان کی پتنگ اونچی اڑتی ہے۔ اس خطے کی تاریخ میں بھی ستو پینے، ستو کھانے اور خوش رہنے کی مستقل روایت موجود ہے، دبائو بڑھتا ہے تو یہ دبک جاتے ہیں، خود کو خوش و خرم ظاہر کرتے ہیں، اپنے حکمران کو بےفکر کردیتے ہیں اور پھر اندر ہی اندر سے سازش کر کے گھر روانہ کر دیتے ہیں۔ لاہور کے شہریوں پر ایک سکھ مثل نے زمین تنگ کی تو انہوں نے ساز باز کر کے سکر چاکیہ مثل کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لئے رات کو دروازے کھول دیئے۔ یہ ستو کھانے والے بڑے تیز ہیں، پرویز مشرف کے دور میں اندر ہی اندر سے جمالی، شجاعت اور شوکت عزیز کو بار بار بدلا، زرداری کے زمانے میں گیلانی اور پرویز اشرف کو بھی اندرونی طور پر بدل ڈالا، نواز شریف ہٹا تو اندر ہی اندر شاہد خاقان عباسی لے آئے گئے۔ اب خان ہیں اور ستو پینے والے عوام۔ ابھی تک لوگ مہنگائی، بےروزگاری، ڈالر کی اڑان، روپیہ کی گراوٹ اور عمومی مایوسی پر خاموش ہیں۔ ستو پیتے ہیں سو جاتے ہیں، کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرتے، کوئی جلوس نہیں کوئی احتجاج نہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام یونہی ستو پیتے رہیں گے یا پھر اندر ہی اندر جو لاوہ پک رہا ہے وہ کبھی باہر نکلے گا۔
اپوزیشن جماعتیں لاکھ اکٹھی افطاریاں کرلیں وہ بھی ستو پینے پر لگ چکی ہیں، جب تیسری دنیا کے سیاستدان جیل جانے سے گھبرائیں، حکومتی زیادیتوں پر مصلحتوں کا شکار ہوں، مصالحت کے راستے ڈھونڈیں تو اُن سے کیا توقع کی جاسکتی ہے، اگر وہ واقعی سنجیدہ اور عوامی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو بیرون ملک اثاثے واپس پاکستان لائیں، سیاست پاکستان کی اور دولت بیرون ملک؟ چہ معنی دارد۔ اپوزیشن جب تک اثاثوں کا مسئلے حل نہیں کرتی عوامی فتح حاصل نہیں کر سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ڈیل یا مصلحت سے انہیں کامیابی مل جائے مگر عوامی فتح صرف ان کو ملتی ہے جن کے ہاتھ مکمل طور پر صاف ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ فیصلوں میں ناانصافی ہوئی ہو، بالادست طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہو لیکن پھر بھی بیرون ملک اثاثوں کا اخلاقی جواز ڈھونڈنا اور عوام کو اس بارے میں مطمئن کرنا مشکل ہے۔ حکومت کا حال اپوزیشن سے بھی برا ہے نہ ان کے پاس کوئی وژن ہے اور نہ کوئی تجزبہ انہیں صرف اور صرف ستو گھولنا آتا ہے یعنی ان کا کمال بے فائدہ باتیں کرنے میں ہے، موضوع کچھ ہوتا ہے اور دلائل کسی اور موضوع پر دیئے جاتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی صورتحال اگر یہ ہے تو ایسے میں عوام ستو نہ پیئے تو اور کیا کرے؟
گالم گلوچ بریگیڈ کو بھی چاہئے کہ وہ ستو پینے کو اپنے نصاب کا حصہ بنائیں۔ اس سے ان کی بیماری کو افاقہ ہوگا اور انہیں دوسرے لوگ جس قدر برے نظر آتے ہیں وہ ویسے نظر آئیں گے۔ امید ہے کہ خان صاحب بلاول صاحب اور مریم صاحبہ سبھی ستو پر لگے ہوئے ہیں اسی لئے کسی فوری تبدیلی کا امکان نہیں، ستو ستمبر اکتوبر تک پیئے جاتے ہیں پھر ان کا موسم ختم ہوجاتا ہے ستو کا موسم ختم ہوگا تو تبدیلی پر سوچ بچار ہوگی۔ فی الحال سب ستو پئیں ستو کھائیں، خوش رہیں اور سو جائیں……
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ