سکھر :سکھر بیراج سے اونچے درجے کا سیلاب گزرا اور منچھر جھیل میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور بند ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، جس سے سندھ کے ضلع دادو کو بڑے پیمانے پر تباہی کے خطرے کا سامنا ہے۔فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق آج صبح 6 بجے سکھر بیراج سے 5 لاکھ 59 ہزار 988 کیوسک کا اونچے درجے کا سیلاب گزرا۔
دادو سے رکن قومی اسمبلی رفیق احمد جمالی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ دوپہر کو صورت حال مزید خراب ہوئی کیونکہ پانی ریلہ جوہی کی تحصیل کی طرف بڑھنے لگا جہاں مختلف پہلے ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔
دادو ضلع سیلاب کا نیا مرکز بن گیا ہے کیوں کہ ملک کے شمالی علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد پانی ملک کے جنوب کی طرف بہہ کر آرہا ہے۔تاہم گڈوبیراج میں پانی کا بہاؤ صبح سے کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔
گڈو بیراج کی صلاحیت 12 لاکھ کیوسک پانی کے بہاؤ کی ہے جہاں سے شام 6 بجے کو 5 لاکھ 61 ہزار 118 کیوسک سیلاب کا گزرا تھا جو دوسرے نمبر سب سے زیادہ بہاؤ ہے، آج صبح 6 بجے کم ہو کر 5 لاکھ 53 ہزار 183 کیوسک تک آگیا، بہاؤ میں اس کے بعد دوپہر 12 بجے مزید کمی ہوئی اور 5 لاکھ 32 ہزار 634 کیوسک تک آگیا۔
گڈو اور سکھر بیراج میں بالترتیب 23 اور 25 اگست کو پہلی مرتبہ سب سے زیادہ 5 ہزار 80 کیوسک سیلاب کا گزر ہوا تھا اور یہ سیلاب اب کوٹری بیراج میں سستی روی سے پہنچ رہا ہے۔
کوٹری بیراج میں 5 لاکھ 43 ہزار 592 کیوسک کا بہاؤ اوپر اور 5 لاکھ 32 ہزار 787 کیوسک نچلی سطح پر ریکارڈ کیا گیا، بہاؤ میں آج اس وقت اضافے کا رجحان دیکھا گیا جب صبح 6 بجے اوپر کی طرف 5 لاکھ 8 ہزار 102 کیوسک اور نچلی سطح پر 4 لاکھ 98 ہزار 497 کیوسک گزر ہوا۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور شمال کے پہاڑوں میں گلیشیئر پگھلنے سے سیلاب آیا جس سے 14 جون سے اب تک کم از کم ایک ہزار 265 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان میں سے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 57 ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ اب تک زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 ہزار 577 ہے۔
ایک روز قبل دادو شہر سیلابی پانی میں گھرا ہوا تھا جس میں شہر کے شمال میں خیرپور ناتھن شاہ شہر، جنوب میں منچھر جھیل، مغرب میں مین نارا ویلی ڈرین اور مشرق میں دریائے سندھ پانی سے بپھرا ہوا تھا۔ایک مقامی رہائشی بشیر خان جو علاقے میں باقی لوگوں سے رابطے میں ہیں کا کہنا تھا کہ دادو ضلع میں کئی دیہات 11 فٹ تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ‘میرا گھر پانی کے اندر ہے، میں نے 4 روز پہلے اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھر سے نقل مکانی کی تھی’۔
انہوں نے کہا کہ پڑوسی ضلع میہڑ میں رہائشی افراد سیلابی پانی کو قصبے میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش میں ایک بند بنا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر دادو سید مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق پھنسے ہوا شہریوں اور خاندانوں کے انخلا کے لیے کوششیں جاری ہیں۔دریں اثنا کوٹری بیراج کے چیف انجینئر نے ڈان کو فون پر بتایا کہ ‘اونچے درجے کے سیلاب کی سب سے بلند سطح 25 اگست کو سکھر بیراج سے گزری تھی’۔
اس وقت وہ پراعتماد تھے کہ اس کے علاقائی دائرہ اختیار میں دریا کے کنارے محفوظ اور اتنے مضبوط ہیں کہ بہاؤ کو برداشت کر سکیں، سکھر بیراج سے 25 اگست کو صبح 6 بجے 5 لاکھ 79 ہزار 753 کیوسک کا پہلا بلند سیلابی ریلا گزرا تھا۔
اس کے علاوہ منچھر جھیل میں بھی پانی کی سطح بڑھ رہی تھی، جس کے باعث جامشورو کے ڈپٹی کمشنر فرید الدین مصطفیٰ نے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا تھا۔
انہوں نے آج ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پانی کی سطح مزید بلند ہوتی ہے تو قریبی علاقوں کے مکینوں کو نکالا جا سکتا ہے۔
بعدازاں ڈی سی نے منچھر جھیل میں پانی کی سطح بلند ہونے اور آندھی آنے کے خدشے پر علاقہ خالی کرنے کے احکامات جاری کیے۔
انہوں نے کہا کہ منچھر جھیل میں لہروں کی صورت حال انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے اور عوام سے حفاظتی اقدامات کے تحت علاقہ خالی کرنے کی درخواست کی۔ان کا کہنا تھا کہ جھیل کا بند کسی بھی وقت ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔
سیہون کے ایک رکن قومی اسمبلی سردار سکندر راہوپوٹو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ جھیل کے حفاظتی بندوں کی نگرانی کی جا رہی ہے اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
( بشکریہ : ڈان نیوز )