حکومت نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین مفتی منیب الرحمان اس معاہدہ میں ضامن ہوں گے۔ معاہدہ کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں اور بتایا گیا ہے کہ مناسب وقت آنے پر ان کا اعلان کیا جائے گا ۔ مفتی منیب الرحمان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور تحریک لبیک پاکستان کے قائدین کے ساتھ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاہدہ کا اعلان کیا۔
مفتی منیب الرحمان نے بتایا ہے یہ معاہدہ کسی کی فتح یا شکست نہیں ہے بلکہ اسلام اور پاکستان کی فتح ہے۔ اور انسانی جان کی حرمت کی کامیابی ہے۔ فی الوقت کوئی بھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ جو پولیس افسر طاقت کے اس ناجائز مقابلے میں جان سے گئے ہیں، ان کے خون کا حساب کون، کس سے لے گا۔ کیوں کہ قتل کرنے والے اور اس بارے میں عدالتی انصاف کے ذریعے قصور واروں کو کیفر کردار تک پہنچانے والے بظاہر حکومت پاکستان اور ایک کالعدم تنظیم کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ میں فریق ہیں۔ البتہ حکومت کے تمام کارپردازوں کے علاوہ مفتی منیب الرحمان کو بھی شہید پولیس اہلکاروں کے اہل خاندان کو ضرور یہ جواب دینا پڑے گا کہ انہیں کون سی ریاست کے وقار اور اختیار کے نام پر قربان کیا گیا تھا۔
حکومت نے بند دروازوں کے پیچھے ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ مفاہمت کرکے ملکی تاریخ میں ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ اب اشارے دیے جا رہے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان پر سے پابندی اٹھالی جائے گی اور مفتی منیب کے بقول جلد ہی پاکستان کے عوام اس تنظیم کو سیاسی طور سے متحرک دیکھیں گے۔ سعد رضوی اور دیگر مقید لیڈروں کی رہائی کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اگرچہ ٹی ایل پی کی طرف سے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے اہم ترین مطالبے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے گو کہ رات گئے سرکاری ذرائع خفیہ طور سے میڈیا کو یہ خبریں بہم پہنچا رہے تھے کہ تحریک لبیک نے اس مطالبے سے دست بردار ہونے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ جبکہ ٹی ایل پی کے نمائندے یہ دعوے کررہے ہیں کہ حکومت نے اس معاملہ پر لچک دکھائی ہے۔ یوں اسلام آباد میں ایک غیر ملکی سفیر کی تقرری کا معاملہ بدستور غیر واضح ہے۔ نہ حکومت یہ کہہ پا رہی ہے کہ کسی دباؤ میں مسلمہ عالمی سفارتی طریقہ کار سے گریز نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ٹی ایل پی یہ تسلیم کرے گی کہ اس نے متعدد دیگر سہولتوں اور مراعات کے بدلے اس معاملے کو فی الوقت سرد خانے میں ڈالنے پر اتفاق کیا ہے۔
مفتی منیب الرحمان نے اگرچہ معاہدہ کی تفصیلات خفیہ رکھنے پر اصرار کیا ہے لیکن یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سمیت تمام معاملات کی نگرانی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی کرے گی۔ کمیٹی میں پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ ٹی ایل پی کے دو نمائندے بھی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ کی کمیٹی میں شمولیت سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تحریک لبیک کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کے معاملات اس معاہدہ میں بنیاد ی اہمیت رکھتے ہیں۔ معاہدہ کے حوالے سے جو معلومات سامنے آئی ہیں ان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ ٹی ایل پی کے جن کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے الزامات میں مقدمات قائم ہیں ، حکومت ان کے بارے میں فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ انہیں عدالتوں سے ریلیف لینا ہوگا۔ اگر یہ بات من و عن بھی درست ہو تو بھی جب ریاست اور حکومت کسی غیر قانونی گروہ کے ساتھ امن و امان کے عذر پر مفاہمت اور معاہدہ کا اعلان کر رہی ہے تو پھر وہ کسی بھی مقدمہ میں کیوں کر مدعی کا کردار ادا کرے گی۔ یوں عدالتیں دہشت گردی سمیت ہر قسم کے الزامات میں کوئی خاص کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہوں گی۔
گزشتہ دو ہفتے کے دوران لاہور کے علاوہ جی ٹی روڈ پر ہونے والے تصادم میں آٹھ پولیس اہلکار تحریک لبیک کے مظاہرین کو روکنے کی کوشش میں جاں بحق ہوئے تھے۔ اب ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کرکے ملک میں امن قائم کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت یہ تسلیم کررہی ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کے برعکس ایک سرکش گروہ کو دبانے، مظاہرین کو منتشر کرنے اور غیر قانونی مطالبات کرنے والے لیڈروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ایسے میں جان سے جانے والے پولیس اہلکاروں کے پسماندگان کے علاوہ پولیس فورس اور پاکستانی عوام یہ جاننے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ حکومت نے اگر دو ہفتے کے فساد اور تشدد کے بعد معاملات معاہدہ کے ذریعے ہی طے کرنے تھے تو اس کار رائیگاں میں سرکاری اہلکاروں کو کیوں جھونکا گیا تھا۔ سوچنا چاہئے کہ ان اقدامات کے بعد ریاست کی اتھارٹی، حیثیت اور ارادوں کے بارے میں کیا رائے قائم ہوگی۔ یا ملک کی کسی بھی سیکورٹی فورس کے کارکن ایسی کمزور حکومت کی نگرانی میں فرائض کی بجا آوری کے لئے کیوں جان کی بازی لگائیں گے؟
معاملہ سیدھا تھا لیکن اب اسے پراسرار بنا دیا گیا ہے۔ نئے معاہدے کو پردے میں رکھ ایک شکست خوردہ حکومت نے اپنی رہی سہی عزت بچانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ آج کی پریس کانفرنس نے حکومتی اختیار اور دعوؤں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ رہی سہی کسر میڈیا میں لیک کی جانے والی خبریں پوری کررہی ہیں کہ آرمی چیف کسی بھی قسم کے تصادم کے خلاف تھے اور انہوں نے واضح طور سے کہا تھا کہ پر امن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے منسوب یہ بیان دو وجوہات کی بنیاد پر قابل یقین ہے۔ ایک تو نومبر 2017 میں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایسا ہی بیان دیا تھا جس کا اعلان اس وقت آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف غفور نے ایک ٹوئٹ میں کیا تھا۔ اب اس کا اعلان جنرل صاحب کے غیر سرکاری ترجمان میڈیا گفتگو میں کر رہے ہیں لیکن دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ یہ یقین کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند گھنٹوں سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں مفتی منیب الرحمان کراچی کے ایک سرمایہ دار کے ہمراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کررہے ہیں۔ اب وہی مفتی صاحب نئے معاہدہ کے ضامن بھی ہیں اور آج منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کی قیادت بھی کررہے تھے حالانکہ ان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی موجود تھے۔
ان شواہد کے بعد یہ جاننے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو ملک میں امن قائم رکھنے کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور سیاسی و انتظامی امور کے بارے میں حقیقی فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر عمران خان اتھارٹی والے وزیر اعظم کا ڈھونگ رچا کر یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کریں گے کہ میں چیف ایگیزیکٹو ہوں اور آرمی چیف میرے ماتحت ہے تو کوئی ان پر اعتبار نہیں کرے گا۔ دو روز پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں وزیر اعظم ہاؤس سے جو بیان جاری ہؤا تھا اس میں سرکش گروہوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ریاست کی طاقت سے ٹکرانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس پریس ریلیز میں تحریک انصاف کی حکومت کو حرمت رسولﷺ کا سب سے بڑا پاسبان بتاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تحریک البیک اپنے رویہ سے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بنی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج پریس کانفرنس میں مختصر گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی غور خوض کے بعد طے کیا گیا تھا کہ اس معاملہ کو ذمہ داری سے پر امن طریقے سے حل کیا جائے۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وزیر خارجہ نے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کر دیا اور پریس کانفرنس ختم کر دی گئی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلہ کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا بیان ، وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان سے مختلف ہے۔ اب حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد عوام الناس اس تضاد کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔
وزیر اعظم سمیت ملک کے سول و عسکری قائدین دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کامیاب جنگ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لئے کامیاب آپریشن کے علاوہ متعدد قانونی اور سماجی اقدامات کئے گئے ہیں۔ تاہم حکومت خود ہی جس گروہ کو شدت پسند اور دہشت گرد قرار دے رہی تھی ، اب اس کے ساتھ شیر و شکر ہو کر امن قائم کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ اس صورت میں دنیا بھر کے دارالحکومتوں اور عالمی اداروں میں پاکستان کی نیک نیتی پر اٹھنے والے سوالوں کا کیا جواب دیا جائے گا اور پاکستان کے قول و فعل کے تضاد کو کیوں کر چھپایا جا سکے گا؟
پاکستان کے لوگوں پر تو واضح ہے کہ کون سی قوتیں ملک کے وزیر اعظم کو جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔ عمران خان کی اس ہزیمت کے بعد یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ وہ اقتدار کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ غیرت، انا، خود داری اور ہمت نہ ہارنے کی باتیں صرف سیاسی نعرے ہیں جو اقتدار تک پہنچنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے بلند کئے جاتے ہیں۔ تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ عمران خان کی سیاسی و انتظامی ناکامی کا اعلان نامہ ہے۔ وزیر اعظم یہ سچ مان کر اپنی ناکامی کا اعتراف نہ بھی کریں تو بھی حکومت کی باقی مدت شکست خوردگی اور منت سماجت میں ہی گزرے گی۔ یہ ذلت اٹھانے سے بہتر تھا کہ عمران خان معاہدے کی اجازت دینے کی بجائے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے۔
(بشکریہ :کاروان۔۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ