گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں 120 ارب روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کرنے کے علاوہ پہلے سے اعلان شدہ قرض اسکیموں کا تفصیل سے ذکر کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ عوام کی تکلیفوں کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے امدادی پیکیج کا فائدہ کسے اور کب پہنچے لیکن پاکستان سے موصولہ خبروں کے مطابق شکر ، گیہوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں فوری طور سے اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومتی سبسڈی ملنے تک عوام کے سر پر مہنگائی کا بوجھ کئی گنا ہوچکا ہوگا۔
عمران خان کی تازہ ترین تقریر ذمہ داری سے فرار ،حقیقت احوال سے ناشناسائی اور ناکامیوں کے اعتراف کی ایک عمدہ مثال تھی۔ یہ کوئی قابل فخر صورت حال نہیں ہے بلکہ حیرت اور شرم کا مقام ہے کہ معاملات کی حساسیات سے ناواقف ایک شخص ملک کے اہم ترین عہدے پر براجمان ہے۔ لیکن نہ تو کوئی اسے راستہ دکھانے والا ہے اور نہ ہی یہ پوچھنے والا کہ وزیر اعظم کب تک اپنی عدم استعداد اور نااہلی کا بوجھ عوام کے گلے میں ڈال کر یہ مشورہ دیتے رہیں گے کہ انہوں نے گھبرانا نہیں ہے۔ اور قوم اگر بے حیائی ترک کرکے دین کے سچے راستے پرچل پڑے گی تو اللہ اس پر رحم کرے گا اور سارے معاملات درست ہوجائیں گے۔ عمران خان نے سیاست، شخصیت، دین اور اس کے لوازمات کو ایک دوسرے میں خلط ملط کرکے ایسا بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام اور اسٹبلشمنٹ انہیں باقیوں سے بہتر سمجھتے ہوئے قبول کرنے پر مجبور رہیں۔
تاہم یہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت عوامی جذبات اور لیڈروں کے ہیر پھیر سے اپنا راستہ متعین نہیں کرتی بلکہ وہ زمینی حقائق، پیدا واری صلاحیت، کسی ملک میں امن و امان کی صورت حال اور درپیش مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار سے اثر قبول کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کا مالیاتی پیکیج خوشی کی خبر بننے کی بجائے قیمتوں میں فوری اضافے پر منتج ہؤا ہے۔ اسی سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مارکیٹ وزیر اعظم کے اقدامات، اعلانات اور معاشی حکمت عملی کو درست نہیں سمجھتی۔ عام طور سے کسی حکومت کا سربراہ جب معیشت جیسے اہم معاملہ پر قوم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا مقصد اعتماد کی فضا بحال کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک طرف عوام کو تسلی دلائی جاتی ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو سمجھتی ہے اور ضروری اقدامات کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف مارکیٹ کو یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ حکمران معیشت مستحکم کرنے میں سنجیدہ ہیں ، اس لئے غیر ضروری اضطراب اور پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ قیمتوں میں فوری اضافہ کی خبروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ منڈی نے سربراہ حکومت کی باتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، وہ اپنا فیصلہ یا تو کسی انتخابات میں دے سکتے ہیں یا احتجاج کی صورت میں اس کا اظہار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا رد عمل بھی کسی حد تک عوامی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس وقت یہ سارے اشاریے حکومت وقت کے خلاف ہیں ۔ اسی لئے کسی بھی اعلان سے معاشی سدھار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
یہ تو طے ہےپاکستان کو معاشی انحطاط، قرضوں کے بوجھ، مالی خسارے اور سفارتی تنہائی کی جس خوفناک صورت حال کا سامنا ہے، اسے کسی ایک اعلان یا پیکیج سے تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ البتہ کوئی بھی ذمہ دار حکومت اس صورت حال میں اعتماد سازی کے بنیادی کام کا آغاز کرے گی تاکہ ایک تو سرمایہ دار وں کو یقین ہو جائے کہ وہ اطمینان سے کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو روزگار، نقل و حرکت اور معاشی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے مواقع ملنے لگیں جس سے معاشی تحرک پیدا ہو اور معاشرے میں بہتری دیکھنے میں آئے۔ انہی اشاریوں کی بنیاد پر عالمی ادارے بھی کسی ملک کی معاشی صلاحیت و حیثیت کا تعین کرتے ہیں اور قرضوں کی نوعیت اور مقدار کے بارے میں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ معاشرے میں جب اپوزیشن جماعتیں احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہوں اور دینی گروہ بلوے پر آمادہ ہوں تو اعتماد سازی کا یہ ماحول دیکھنے میں نہیں آسکتا۔ عمران خان کی حکومت کے بارے میں البتہ یہ تاثر موجود رہا ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اس کی ورکنگ ریلیشن شپ اچھی ہے ، اس لئے اسے سیاسی استحکام حاصل ہے۔ البتہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے سوال پر ایک جعلی بحران پیدا کرکے نہ صرف اس تاثر کو زائل کردیا گیا بلکہ بے یقینی کی کیفیت میں بھی اضافہ ہؤا ہے۔
ان حالات میں ایک ذمہ دار منتخب لیڈر کے طور پر عمران خان کا فرض تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں جاتے اور تمام پارلیمانی لیڈروں کو اعتماد میں لیتے۔ یوں ایک طرف سیاسی رہنماؤں کو اس بات پر آمادہ کیاجاتا کہ پہلے سے مشکلات میں گھرے ملک میں ایک نیا بحران پیدا نہ کیا جائے تو دوسری طرف اسٹبلشمنٹ پر یہ واضح ہوتا کہ اگر وزیر اعظم اپنے جائز اختیار کے حوالے سے کوئی مؤقف اختیار کرتا ہے تو یہ فیصلہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہؤا بلکہ ملک کی سیاسی قوتیں کسی منتخب وزیر اعظم کو دیوار سے لگانے کی کسی غیر جمہوری کوشش کو قبول نہیں کریں گی۔ اور مل کر جمہوری عمل کو تہ و بالا کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔ ایسا کوئی پیغام ملک میں کمزور جمہوری روایت کو مضبوط کرتا جس سے پاکستانی حکومت اور اس کے لیڈر کی فیصلے کرنے کی استعداد بہتر ہوسکتی تھی۔
عمران خان نے البتہ یہ راستہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بلکہ ایک ایسے ماحول میں جب ان پر ہر طرف سے دباؤ تھا، آمادہ بہ فساد ایک گروہ سے نمٹنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے کی بجائے ریاستی طاقت کے استعمال اور میڈیا کنٹرول کرنے کی حکومتی صلاحیت کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی لیڈروں کو مفاہمت کا پیغام بھیجنے کی بجائے ، ان کے خلاف طبل جنگ بجاتے ہوئے واضح کیا گیا کہ یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ گزشتہ روز قوم سے خطاب میں جب وزیر اعظم نے دو خاندانوں کی ناجائز دولت کا ذکر کیا تو دراصل وہ اسی جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کررہے تھے۔
میدان جنگ میں اترا ہؤا کوئی بھی کمانڈر بیک وقت دوسرا محاذ کھولنے سے گریز کرتا ہے لیکن عمران خان نے بخوشی بیک وقت سیاسی پارٹیوں، مذہبی گروہوں اور فوج سے نبرد آزما ہونے کا اعلان کیا۔ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت کو ایک مشکوک سیاسی کردار کے حامل مفتی منیب الرحمان کے ذریعے ایک ایسا خفیہ یا نامعلوم معاہدہ کرنا پڑا جس کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں لیکن یہ بات عام ہوچکی ہے کہ تحریک انصاف نے اس معاہدے کے ذریعے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ’سیاسی مفاہمت‘ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئیندہ انتخابات میں پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کا راستہ روک سکیں۔ عمران خان اس طریقے سے شاید اپنے ان کم حوصلہ ساتھیوں کی ہمت بندھوانا چاہتے ہیں جو بظاہر حکمران جماعت کا حصہ ہیں لیکن آئیندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔ وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں نہ جانے کس حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے لیکن حکومت کے سیاسی جوڑ توڑ کے بارے میں سامنے آنے والی افواہیں ملک کی بیمار معیشت کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی کوئی تدبیر کارگر ہونے میں نہیں آتی۔
اس پر وہ صاف گو حکمران کی شہرت کے لئے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور گیس کی نایابی کا اعلان کرکے مارکیٹ کو یہ پیغام دینے کا سبب بنے ہیں کہ حکومت کا کوئی اعلان قابل اعتبار نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی یہ خبر دی گئی تھی کہ وزیر اعظم نے اوگرا کی تجویز مسترد کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب اسی وزیر اعظم نےعوام کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں دنیا میں سب سے کم ہیں، اس لئے ان میں اضافہ ناگزیر ہے ورنہ ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔
جس حکومت کا سربراہ معاشی دیوالیہ پن کی بات کرتا ہو، اس کے کسی فیصلہ کو مارکیٹ قابل غور نہیں سمجھ سکتی۔ ایک جمہوری نظام میں ایسے بے بصر قائد کی اصلاح کی سب سے پہلی کوشش کابینہ اور پھر پارٹی کے پارلیمانی گروپ کی طرف سے ہونی چاہئے۔ لیکن ملک کی صورت حال یہ ہے کہ وزیر اپنی کرسی پکی رکھنے کے لئے خوشامد کے تمام ریکارڈ توڑنا چاہتے ہیں اور اسمبلیوں کے رکن ’بادشاہ کو ننگا ‘ کہنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ میڈیا میں درست تجزیہ کرنے اور حق بات کہنے والوں کی زبان بندی کا اہتمام کیا گیا ہے اور ایسے برزجمہروں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جو امدادی پیکیج کو فلاحی ریاست کی طرف ایک اہم قدم قرار دینے والے وزیر اعظم پر واری صدقے جانے پر آمادہ و تیار ہیں۔
وزیر اعظم کی سیاسی ناکامیوں کا حساب کرتے ہوئے البتہ ان عناصر سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا جنہوں نے ہائیبرڈ نظام کے تجربے کے لئے ایک نوآموز، جذباتی اور معاملات کی پرکھ سے عاری شخص کو ملک کا وزیر اعظم بنوانے میں جوش و خروش سے کردار ادا کیا تھا اور یہ تاثر قوی کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ملک کی دیگر مقبول سیاسی قوتوں کو منظر نامہ سے غائب کرکے ہی پاکستان کا مستقبل محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اب سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ تجربہ ناکام ہوچکا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس ’لیبارٹری ‘کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ رائے قائم کی جائے جہاں ایسے ناکام تجربے کرکے ملک کے لئے نت نئے مسائل پیدا کئے جاتے ہیں۔
یہاں یہ کہنا بھی اہم ہے کہ کسی غلطی کی اصلاح ایک نئی غلطی سے نہیں ہوسکتی۔ پاکستانی عوام کی موجودہ مشکلات سیاست میں فوج کی ناجائز مداخلت کا نتیجہ ہیں۔ اس کی اصلاح کے لئے اس طرز عمل کو تبدیل کرنا ضروری ہوگا۔ سیاسی منظر نامہ کو قومی سلامتی و مفاد کے ناقابل فہم ایجنڈے کا یرغمال بنانے کا طریقہ ترک کیا جائے۔ پاکستانی عوام کو یقین دلایا جائے کہ آئیندہ انتخابات میں کسی قسم مداخلت نہیں ہوگی اور نہ دھاندلی کی جائے گی۔ یہی یقین دہانی معیشت کا اعتماد بحال کرے گی اور ملک سفارتی بدحواسی کے موجودہ بحران سے باہر نکل سکے گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ