وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آج کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ کوئی ریاست غیر معینہ مدت تک جنگ نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہےاور ان جنگجوؤں کو قانون پسند شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے کا ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر کی یہ وضاحت اس اعلان سے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کی اطلاع دی تھی۔ ابھی تک تحریک طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ کی کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔
حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف کی حکومت تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ اور دھرنا ختم کروانے کے لئے ایک ’خفیہ معاہدہ‘ کرنے کے بعد اب تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی اور ملکی شہریوں اور فوجیوں کو ہلاک کرنے والے عناصر کو معافی دینے کا اعلان کررہی ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے ان معاملات پر پارلیمنٹ میں بحث کے مشورہ پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی اور عمران خان کی حکومت کسی بھی قیمت پر ملک میں ’امن ‘ امن قائم کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے کسی بھی معاہدہ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی حکومت کو یک طرفہ طور سے کسی ایسے گروہ کے ساتھ امن قائم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے جس کے ہاتھ اس ملک کے شہریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدوں پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ معاہدہ کے حوالے خاص طور سے پیپلز پارٹی کو نظر انداز کرنا دست اقدام نہیں ہوگا۔ پارٹی کی سابق چئیر پرسن اور ملک کی دو بار وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو تحریک طالبان ہی کے ہاتھوں شہید ہوئی تھیں۔ ٹی ٹی پی نے گزشتہ بیس برس کے دوران فوجی ٹھکانوں اور شہری اجتماعات پر حملے کرنے کے علاوہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی ترقی پسند خیالات کی حامل جماعتوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا تھا۔ ان کے لیڈروں کو ہلاک کرنے کیا گیا اور ان جماعتوں کی عوامی انتخابی مہم کو ناکام بنانے کی دھمکیاں دی گئیں ۔ دہشت کے ماحول میں ان جماعتوں کے سیاسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لئےدباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ یہ طریقہ درحقیقت ملک میں جمہوری عمل کو تباہ کرنے کے مقصد سے اختیار کیا گیا تھا۔ اب ایک منتخب حکومت اگر ایسے گروہ کے ساتھ کسی معاہدہ پر متفق ہوتی ہے اور ان عناصر کی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرائم کو یہ کہتے ہوئے معاف کردیاجاتا ہے کہ ’کوئی ریاست غیر معینہ مدت کے لئے جنگ نہیں کرسکتی‘ تو یہ طریقہ صرف شہیدوں کے لہو کے ساتھ دھوکہ دہی نہیں ہوگا بلکہ ملک کے جمہوری نظام کے خلاف سرگرم عناصر کی سرپرستی کا سبب بھی بنے گا۔
فواد چوہدری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کسی گروہ کے ساتھ کوئی معاہدہ ملکی آئین و قانون سے بالا رہ کر نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر قدم قانون کے مطابق اٹھائے گی لیکن موجودہ حالات میں حکومت اپنے شہریوں کو امن کے ساتھ جینے کا ایک موقع دینا چاہتی ہے۔ وزیر اطلاعات اور حکومتی ترجمان کا یہ بیان متضاد دعوؤں پر مبنی ہے۔ ایک طرف قانون و آئین کی پاسداری کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف ایک کالعدم اور عوام کے قاتلوں پر مشتمل گروہ کے ساتھ معاہدہ کو خفیہ رکھنے پر اصرار کیاجارہا ہے۔ اگر ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ اور افہام و تفہیم قانون کے مطابق ہی ہے اور تحریک طالبان کو آئین سے مکمل وفاداری کے عہد کے بعد ہی مین اسٹریم میں شامل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے تو کالعدم گروہ کی جانب سے اس کا اعلان کیوں سامنے نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے کہ صرف حکومت کے ترجمان ہی کبھی جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اور کبھی معافی دے کر امن قائم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
آئین و قانون کے متعینہ فریم ورک میں رہتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان میں شامل عناصر کو معافی دینے اور پر امن زندگی گزارنے کا حق دینے کے لئے کم از کم دو باتوں کا اہتمام ضرور کرنا پڑے گا:
اول: تحریک طالبان پاکستان ملک میں نام نہاد اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے جد و جہد کا اعلان کرتی رہی ہے۔ اس کے ترجمانوں نے ہمیشہ پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی قرار دے کر مسترد کیا ہے اور پا ک فوج کو موجودہ ریاستی انتظام کی محافظ سمجھتے ہوئے اپنا دشمن سمجھا ہے اور ان پر حملوں کو اپنی جنگ جوئی کا حقیقی ٹارگٹ کہا جاتا رہا ہے۔ اگر اب ٹی ٹی پی نے اس مؤقف سے رجوع کرلیا ہے تو ان کے ترجمانوں کی طرف سے اس حوالے سے واضح اعلان سامنے آنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں اور ماضی میں ان کی جنگ جوئی غلط اور گمراہ کن مقاصد کے لئے تھی۔
دوئم: تحریک طالبان نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سرکاری اعلانات کے مطابق 80 ہزار پاکستانی شہریوں کو شہید کیا ہے۔ ان میں 6 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی فوجی بھی شامل ہیں۔ کوئی بھی حکومت یا ریاست کسی باغی اور جنگ جو گروہ سے مفاہمت قائم کرتے ہوئے محض امن کے نام پر قتل و غارتگری کے جرائم کو معاف نہیں کرسکتی۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو ریاست کا تصور اور ملک کا انتظامی ڈھانچہ اپنی افادیت کھو دے گا۔ اس لئے اگر فواد چوہدری کے بقول ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ ملکی آئین و قانون کے مطابق ہی طے کیا جارہا ہے تو ان تمام لوگوں کے ناموں کا اعلان بھی ہونا چاہئے جو مختلف دہشت گرد حملوں میں ملوث رہے ہیں یا ان کی منصوبہ بندی میں شریک ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے جرائم پر ملکی عدالتیں مروجہ قوانین کے مطابق سزائیں دینے کی مجاز ہیں۔ اس طریقہ کو ترک کرکے کوئی معاہدہ کرنے کا ایک ہی مقصد ہو گا کہ آئین و قانون پر عمل درآمد کی باتیں محض عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کی جارہی ہیں اور حکومت درحقیقت ایک سرکش گروہ کی شرائط پر مجبوری کے عالم میں عام معافی کا اعلان کررہی ہے۔
فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ کوئی حکومت غیر معینہ مدت تک حالت جنگ میں نہیں رہ سکتی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تنازعہ جاری رہنے کی صورت حال سے عاجز آچکی ہے اور کسی بھی قیمت پر اس فساد کو ختم کرکے معاملہ طے کرنا چاہتی ہے۔ اگر یقین سے یہ کہا جاسکے کہ یہ طریقہ درست ہے اور اس پر عمل سے واقعی ملک میں پائیدار امن قائم ہوجائے گا تو بھی طوعاً و کرہاً کسی ایسے معاہدے کو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی ریاست کسی سرکش مسلح گروہ کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ کوئی ریاست غیر معینہ مدت تک جنگ جاری نہیں رکھ سکتی تو وہ دراصل اپنی مجبوری کا اعلان کرتی ہے اور معاشرے کے دیگر عناصر کو مستقبل میں ایسا ہی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ کیوں کہ ایک انتہا پسند گروہ کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرنے کے بعد دوسرے دہشت گرد گروہ کے ساتھ افہام و تفہیم سے ایک ہی پیغام عام ہوگا کہ ریاست پاکستان پر دباؤ کےذریعے کوئی بھی بات منوائی جاسکتی ہے۔
اس وقت جس معاہدے اور جنگ بندی کی بات ہورہی ہے ، اس سے اسی تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ اس لئے وزیر اطلاعات کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ’طاقت کی پوزیشن‘ سے بات چیت کی ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کمزور اور ریاست سے بغاوت کرنے والا گروہ طاقت ور دکھائی دے رہا ہے۔ خاص طور سے جب سرکاری ترجمان یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت چاہتی تھی کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ امن قائم کرلے تو اس میں پاکستانی ریاست کی بالادستی اور شرائط منوانے کی حیثیت کی بجائے ، صاف صاف اس کی مجبوری دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان نے سال ہا سال پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود افغان طالبان کی اعانت کی ہے لیکن جب افغانستان میں ان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان نے ان سے اپنے شہریوں کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر کو لگام دینے اور پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو کابل نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی بجائے پاکستان کو مجبور کیا گیاکہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ کرلے اور کسی طرح بھی امن قائم کیا جائے تاکہ افغان طالبان ٹی ٹی پی میں اپنے معاونین کے سامنے سرخرو رہیں۔ اس دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قائم ہونے کے باوجود ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کرکے جانی و مالی نقصان بھی پہنچاتے رہے ہیں۔
حکومت کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ کوئی ریاست ملکی آئین سے بغاوت کرنے والے عناصر کے ساتھ یوں جنگ آزما نہیں ہوتی جیسے وہ کسی مد مقابل دشمن ملک کے ساتھ برسر پیکار ہوتی ہے۔ آئین دشمن عناصر کی سرکوبی کسی ریاست کے بنیادی فرائض کا حصہ ہے ورنہ وہ خود ہی اپنے وجود کے جواز سے محروم ہوسکتی ہے۔ یہ معاملات اتنے سہل نہیں ہیں کہ فواد چوہدری جیسا وزیر اطلاعات الفاظ کے ہیر پھیر سے اسے ریاست کی کامیابی و سرخروئی قرار دے۔ ریاست اور اس کی نمائیندہ حکومت اگر کمزور نہیں ہے اور اس نے ٹی ایل پی کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ ’قیام امن‘ کے لئے ریاستی وقار اور اختیار کا سودا نہیں کیا ہے تو اسے فوری طور سے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لانا چاہئے تاکہ منتخب اجتماعی دانش بہتر قومی مفاد میں کوئی مناسب راستہ تلاش کرنے کے لئے حکومت کی رہنمائی کرے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ