وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ’ ہم نے معاشرے میں ٹائم بم لگا دیے ہیں جو اب پھٹ رہے ہیں‘۔ ان کا یہ بیان سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ ہلاکت کےبعد ایک ٹی وی انٹرویو میں سامنے آیا ہے۔ تاہم فواد چوہدری بھی یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ یہ ٹائم بم کسی نے لگایاہے اور اسے ناکارہ بنانے کے لئے حکومت کیا کرسکتی ہے۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ سیالکوٹ سانحہ پر پوری پاکستانی قوم افسردہ اور پریشان ہے اور مغربی ممالک میں موجود پاکستانی تارکین وطن شدید صدمے اور لاچاری کا سامنا کررہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم متعدد پاکستانی لیڈروں نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اعتراف کیاہے کہ اس سانحہ سے پاکستان کی شہرت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب امریکہ میں کسی بھی سطح پر پاکستان کی خیر سگالی کے لئے بات کرنا آسان نہیں ہے۔ جہاں بھی پاکستان کے حوالے سے کوئی بات کی جائے گی تو سیالکوٹ میں ہونے والے اس قتل کے بارے میں ضرور سوال اٹھایا جائے گا۔ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی بھی ایسی ہی کیفیت کا سامنا کررہے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر ان کے لئے یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ ان کے آبائی وطن کے ایک اہم شہر میں لوگوں کا ہجوم اس قدر درندگی اور انسانیت سوز حرکت کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔
پولیس نے پریانتھا کمارا کے قتل کی جو پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق متوفی کے جسم کے ایک پاؤں کے سوا ان کے جسم کی کوئی ہڈی سلامت نہیں تھی اور لاش کو آگ لگانے سے 99 فیصد جسم جھلس چکا تھا۔ اس رپورٹ سے مارے جانے والے شخص پر کئے گئے تشدد اور ظلم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس سانحہ کے کئی پہلو قابل غور ہیں۔ ایسی متعدد ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر عام ہوئی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم ہنگامہ اور تشدد میں مصروف ہے لیکن تماشائیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو نہ صرف نظارہ کررہی ہے بلکہ اس وقوعہ کے ساتھ سیلفی لے کر اپنے اس ’کارنامہ‘ کو ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق سیالکوٹ کی وزیر آباد روڈ پر اب بھی اس جگہ راکھ کا ڈھیر اور جلے ہوئے جوتے پڑے ہیں۔ لوگ اس جگہ کا نظارہ کرنے وہاں آتے ہیں اور متعدد لوگ سیلفی بھی بناتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں اگر تشدد یا ایسے خون ناحق کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگ وہاں پر مرنے والوں کی یاد اور احترام میں چراغ روشن کرتے ہیں اور پھول رکھ کر اپنی محبت ، ہمدردی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں معاشرہ کی طرف سے عام طور سے اس واقعہ اور اس میں ملوث افراد سے لاتعلقی کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ پیغام عام کیا جاتا ہے کہ معاشرہ کی اکثریت ایسے تشدد اور بے رحمی کو نہ تو قبول کرتی ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دینے پرتیار ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس سیلفی لینے اور نظارہ دیکھنے کے جو مناظر سامنے آئے ہیں ، انہیں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں ٹائم بم لگادیے گئے ہیں جو اب پھٹ رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان بطور معاشرہ، اس کی حکومت اور ریاست کی سلامتی اور استحکام کے ذمہ دار تمام ادارے اس المناک سانحہ پر بیان دینے اور قصور واروں کو سنگین سزائیں دلوانے کے عزم کا اظہار کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد یوں بھی اس سانحہ کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے کیوں کہ وہ خود ان ممالک میں اقلیت کے طور پر رہتے ہیں اور ان کی اپنی سلامتی اور بنیادی حقوق کی حفاظت اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے اگر معاشرہ کی اکثریت اقلیتوں کے وجود کو قبول کرے، ان کی علیحدہ شناخت کا احترام کیا جائے اور عقیدہ و ثقافت کے اختلاف کو تسلیم کیا جائے۔ اگر کسی مہذب انسانی معاشرہ کی یہ بنیادیں کمزور ہونے لگیں تو اقلیتوں کا ایسے کسی بھی معاشرہ میں پنپنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ مسلسل جد و جہد ہے۔ یہ کہنا بے بنیاد ہوگا کہ مغربی ممالک میں تعصب و زیادتی کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا لیکن اس حوالے سے یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ معاشرہ اور اس کے لیڈر ان واقعات پر کس رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کسی بھی زیادتی اور ظلم کے بعد اگر معاشرہ کسی اقلیت یا مظلوم کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے اور ایسے واقعات کے تدارک کے لئے عملی اقدامات کرنے قابل ہو تو مشترکہ فلاح کی امید بھی قائم رہتی ہے اور کسی زیادتی سے پیدا ہونے والے اثرات سے نمٹنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ اقلیتوں کو بھی یہ یقین ہوجاتا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں کے منفی رویوں کے باوجود معاشرہ میں قبولیت و احترام کی بنیادی انسانی روایات کو تسلیم کرنے کا مزاج راسخ اور مستحکم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات سے ہی کوئی معاشرہ یہ واضح کرتا ہے کہ وہ کن اصولوں پر گامزن ہے اور مستقبل میں بقائے باہمی اور بھائی چارے کا ماحول قائم رکھنے کا عزم و ارادہ رکھتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں مغربی ممالک میں اقلیتی عقیدہ پر حملہ کے دو واقعات میں ان معاشروں اور وہاں کی حکومتوں کے رد عمل سے اس تصویر کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مارچ 2019 میں ایک اسلام دشمن دہشت گرد نے نیوزی لینڈ کے شہر چرچ کرائسٹ کی ایک مسجد پر حملہ کرکے متعدد لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔ لیکن نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن اور اس ملک کے عوام نے اس سانحہ پر شدید رد عمل کا ظہار کیا۔ فوری طور سے انتہاپسندی کو مسترد کرنے کا اعلان کرنے کے علاوہ قوانین میں متعدد ترامیم کے ذریعے اقلیتی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ نیوزی لینڈ کا حصہ ہیں اور ان کے خلاف اختیار کی گئی جارحیت دراصل پورے ملک پر حملہ کے مترادف ہے۔ جیسینڈرا آرڈن نے ذاتی طور پر اس غم میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوکر اور مرنے والوں کے لواحققین کو سرکاری اعزاز کے ساتھ نیوزی لینڈ بلاکر آخری رسومات میں شرکت کا موقع فراہم کرنے جیسے اقدامات سے شدت پسندی کے خلاف معاشرے کے دو ٹوک عزم کا اظہار کیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی حکومت اور وزیر اعظم کی ان مثبت کوششوں کو مسلمان ملکوں سمیت پوری دنیا نے خوشگوار اقدامات قرار دیا تھا جن سے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔
اگست 2019 اسی قسم کا ایک واقعہ ناروے کے علاقے بیرم میں پیش آیا جہاں ایک مسلح نوجوان انتہاپسند نے ایک مسجد پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ وہ اس حملہ میں کسی کو ہلاک نہیں کرسکا بلکہ مسجد میں موجود دو نمازیوں نے اسے قابو کرکے پولیس کے حوالے کردیا اور یوں کوئی بڑا المیہ وقوع پزیر نہیں ہؤا ۔ لیکن ناروے کی حکومت نے اسے نہایت سنجیدگی سے لیا اور وزیر اعظم ارنا سولبرگ سمیت سیاسی قیادت نے ذاتی طور پر مقامی مسلمانوں کے ساتھ ملاقات میں اظہار یک جہتی کیا اور انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ بعد میں ناروے کے ولی عہد نے بھی مسجد کا دورہ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی ضروری سمجھا۔ حالانکہ ناروے کی حکومت اور لوگ یہ سوچ کر اس واقعہ کو نظر انداز بھی کرسکتے تھے کہ اس میں کون سا کسی شخص کو مارا گیا ہے یا مسجد کو نقصان پہنچاہے۔ لیکن ان معاشروں کی قیادت یہ ادراک رکھتی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ معاشرے میں پائے جانے والے انتہا پسندانہ منفی عناصر کے ارادوں کا اظہار ہے لہذا اسے مسترد کرنا اور پوری قوت سے یہ بتانا بے حد اہم ہے کہ ایسے رویے ملک و قوم کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔
یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی سانحہ میں ایک انسان کے بہیمانہ قتل کے دوران اور بعد میں جائے وقوعہ پر سیلفیاں لینے والی قوم کو ابھی انسانیت اور بقائے باہمی کے کئی اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اہل پاکستان اپنے عقیدہ و روایت کا اعزاز لینے میں دیر نہیں کرتے لیکن جب امتحان کی گھڑی آتی ہے تو ان کا رویہ اور طریقہ کار اپنے بیان کردہ احترام انسانیت کے اصولوں سے متصادم ہوتا ہے اور کوئی اسے پرکھنے اور تبدیل کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔ وزیر اعظم اور دیگر سیاسی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں نے ضرور اس قتل کی مذمت کی ہے اور پنجاب پولیس اس سانحہ میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے اور مقدمے تیار کرنے میں پھرتی کا مظاہرہ بھی کررہی ہے ۔ وزیر اعظم یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کی خود نگرانی کررہے ہیں۔ البتہ ایسے ہی اعلان ان سے پہلے آئی جی و وزیر اعلیٰ پنجاب بھی کرچکے ہیں۔ ان سب کے باوجود صوبائی یا مرکزی قیادت میں سے کسی کو ابھی تک سیالکوٹ کا دورہ کرکے اس فیکٹری اور علاقے کے لوگوں کی دل جوئی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ عمران خان نے سری لنکا کے صدر سے فون پر ضرور بات کی ہے لیکن کسی سرکاری عہدیدار نے سری لنکا کے سفارت خانے میں جا کر اس قومی شرمساری اور دکھ ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جس کا اعلان متعدد بیانات میں بار بار کیا جارہا ہے۔
سیالکوٹ سانحہ کی سب ہی مذمت کررہے ہیں۔ ان میں سیاسی لیڈر اور مذہبی رہنما یکساں طور سے شامل ہیں لیکن یہ سب لوگ ایسے سانحات کی روک تھام کے لئے کسی قومی رد عمل کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک سانحہ کو بنیاد بنا کر سیاسی اور مذہبی پوائینٹ اسکورنگ کا کام ضرور شروع کیا گیا ہے۔ معاملہ کی شدت پر افسوس کا اظہار سامنے آیا ہے لیکن اس بات پر اصرار قائم ہے کہ حرمت دین کے معاملات کو ’قانون کے مطابق‘ طے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اعلانات درحقیقت پاکستان میں انسانی زندگی کی ناقدری کے رویہ کو ظاہر کررہے ہیں۔ کسی رپورٹ میں ابھی تک پریانتھا کمار اکے کسی قصور کا ثبوت نہیں مل سکا لیکن یہ شواہد ضرور سامنے آئے ہیں کہ یہ معاملہ توہین مذہب سے زیادہ ذاتی مخاصمت اور دشمنی کا نتیجہ تھا ۔ یعنی ایک شخص سے انتقام لینے کے لئے مذہب اور حرمت رسولﷺ کا نام استعمال کیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ توہین مذہب کے نام پر جھوٹ بولنے کو سنگین جرم قرار دیا جائے تو مذہب کے محافظ ایسا مطالبہ کرنے والوں کا منہ نوچنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
فواد چوہدری کی بات سے اختلاف نہیں ہے کہ معاشرے میں ٹائم بم لگا دیے گئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پوری قوم کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اس لئے اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس بارود کو ناکارہ کیسےبنایا جائے ۔ باہم دست و گریبان سیاسی لیڈر اور کسی بھی طرح مذہب کو فروخت کرنے پر آمادہ مذہبی رہنما تو یہ کام کرنے کے اہل نہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ