صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پاس کئے ہوئے الیکشن ترمیمی بل پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر حکومت کو واپس بھیج دیا ہے۔ صدارتی بیان سے واضح ہوتا ہے کہ صدر اس آئینی شرط سے آگاہ ہیں کہ ان کے دستخط کے باوجود ملکی پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس سے دوبارہ منظور ہونے والے اس بل کو دس روز بعد قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ اس کے باوجود انہوں نے ملک کا صدر بننے کی بجائے اپنی پارٹی کاوفادار اور لیڈر کا تابعدار بننے کو ترجیح دی ہے۔
اس دوران عارف علوی کے لیڈر عمران خان کی اپیل پر ملک بھر میں رات گئے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ متعدد شہروں میں منعقد ہونے والے ان مظاہروں سے عمران خان نے بنی گالہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور پرانے الزامات کو نئے جوش و خروش سے دہرایا۔ سابق وزیر اعظم مسلسل ملک میں انارکی پیدا کرنے، حکومت کو ناکام بنانے اور کسی بھی قیمت پر اپنی سیاسی اہمیت کو قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس طرح عمران خان ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں، اسی طرح ان کی پارٹی کے منتخب کردہ ایک وفادار عارف علوی یوں تو ملک کے صدر کے عہدے پر متمکن ہیں لیکن وہ بطور صدر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد عارف علوی نے یہ تصور کرلیا ہے کہ اب ان پر یہ فرض عائد ہوچکا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے حکومتی کام میں رکاوٹ ڈالیں اور شہباز شریف کے متوازی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں۔
اس صورت حال کا تقاضہ ہے کہ مستقبل میں کسی مرحلہ پر جب ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو تو متعلقہ آئینی شقات میں ترمیم کی جائے اور ملک کے رسمی صدر کے عہدے پر فائز شخص کو پارلیمنٹ میں ہونے والے فیصلوں کا احترام کرنے اور منتخب حکومت کی ہدایات کو تسلیم کرنے کا پابند کیا جائے۔ عارف علوی تکنیکی اور تھیوری کی حد تک تو اس وقت ملکی آئین کی علامت ہیں۔ یعنی وہ آئینی سربراہ ہیں جس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے سیاسی تعصب اور ہمدردی سے بالا ہوکر قانون و آئین کے مطابق اپنے فرائض ادا کریں۔ عارف علوی اگر عمران خان کے دور حکومت میں اپنے کردار کا ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد کے حالات میں اپنے طرز عمل سے موازنہ کرنے کی کوئی اخلاقی کاوش کرسکیں کہ تو انہیں اس عہدے پر فائز رہنے کا کوئی اخلاقی جواز مہیا نہیں ہوگا۔ صدر مملکت کو اس لئے آئین کی علامت نہیں کہا جاتا کہ وہ جیسے چاہے آئین کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ و حکومت کے فیصلوں کے راستے میں دیوار بن جائے تاکہ ان کی پارٹی اس بحران کا سیاسی فائدہ اٹھا سکے۔
صدر کا عہدہ اس حسن ظن کی بنیاد پر آئین کی علامت قرار پاتا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے والا کوئی بھی شخص خواہ ماضی مٰیں کسی بھی سیاسی تحریک یا لیڈر کے ساتھ وابستہ رہا ہو، اپنی پسند و ناپسند سے بالا ہو کر خود کو ملک کے تمام شہریوں کا نمائیندہ تصور کرے گا۔ وہ خود آئین کے احترام کا نمونہ بنے گا تاکہ اس مثال سے ملک کے شہری بھی قانون کا احترام کرنے کی تحریک پائیں۔ ملکی آئین صدر مملکت کو محض علامتی طور سے سربراہ مملکت بناتا ہے ۔ عملی طور سے وہ ملک کی پارلیمنٹ میں ہونے والے فیصلوں اور منتخب حکومت کی ہدایات کا پابند ہوتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں جب صدر عارف علوی آئینی عمل داری میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی بجائے آئین و قانون کے تحت انجام پانے والے امور میں رکاوٹ کا فریضہ ادا کررہے ہیں اور اپنے عہدے کو آڑ بنا کر طویل پریس ریلیز جاری کرکے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کررہے ہیں تو یہ لازم ہوجاتا ہے کہ اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے صدر سے علامتی ’اختیارات‘ بھی واپس لئے جائیں یا آئین میں یہ حکم شامل کیا جائے کہ صدر منتخب ہونے والا کوئی شخص، عارف علوی کی طرح منفی کردار ادا کرنے سے گریز کرے گا۔
عارف علوی نے اس وقت تو کوئی آئینی کردار ادا کرنے اور اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور اس کے لیڈر کو غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدمات سے نہیں روکا جب عمران خان نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی غیر آئینی رولنگ کے ذریعے پہلے عدم اعتماد کو مسترد کروایا۔ اس رولنگ کے بعد جب تکنیکی لحاظ سے ایوان میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک موجود نہیں تھی تو عمران خان نے فوری طور سے وزیر اعظم کے طور پر قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کروانے کی سمری ایوان صدر بھجوائی اور صدر مملکت نے کسی تاخیر کے بغیر اس پر حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر، ملک کا وزیر اعظم اور صدر مملکت تین مختلف آئینی عہدے ہیں اور ان پر مختلف آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر سارے اختیارات ایک شخص کے پاس مرتکز کرنا ہی آئین کا مقصد ہوتا تو پارلیمنٹ کو خود مختار حیثیت دینے اور اس کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کو بااختیار بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہی صدر مملکت کو وزیر اعظم کے مشوروں پر ’غور و خوض‘ کے لئے وقفہ دینے کی ضرورت تھی۔ اس آئینی انتظام کا محض ایک ہی مقصد ہے کہ اگر کسی ادارے میں بوجوہ کوئی کوتاہی پیدا ہورہی ہو تو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس غلطی کا تدارک کیا جاسکے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پوچھا جانا چاہئے کہ عارف علوی بطور صدر مملکت تقرریوں اور قانون سازی میں تعطل ڈالنے کا جو ’اختیار‘ اس وقت استعمال کررہے ہیں ، کیا عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران بھی انہوں نے یہ کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی؟ انہیں جواب دینا چاہئے کہ وزیر اعظم عمران خان کی بھیجی ہوئی سفارشات پر نوٹی فیکیشن جاری کرنے میں صدر عارف علوی نے اوسطاً کتنی دیر تک ’غور و خوض‘ کے لئے وقت لیا؟ شہباز حکومت کے ہراقدام پر صدر مملکت آئین کی مقررہ ہر مدت کو استعمال کرنے پر اصرار کررہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ مرکزی حکومت کے تمام فیصلوں میں زیادہ سے زیادہ تعطل واقع ہو۔ اس رویہ کا نقصان نہ تو اتحادی حکومت کو ہورہا ہے اور نہ ہی شہباز شریف کو اس سے کوئی ذاتی ہزیمت پہنچے گی بلکہ اہم فیصلوں میں تاخیر سے قومی معاملات میں تاخیر یا تعطل پیدا ہوتا ہے اور قومی سطح پر سیاسی عدم اعتماد میں اضافہ ہورہاہے۔ صدر عارف علوی اگر واقعی ملک کے سربراہ کے طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے تو وہ تحریک انصاف اور موجودہ حکومتی پارٹیوں کے درمیان پل کا کام کرسکتے تھے اور ملک کو تصادم کی موجودہ صورت حال سے بچا سکتے تھے۔ عارف علوی نے اپنے قد سے اونچا اٹھنے اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک فریق کا ساتھی بن کر اپنے عہدہ جلیلہ کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
سپریم کورٹ نے قاسم سوری رولنگ کو متفقہ طور سے غیر آئینی قرار دے کر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا حکم دیا تھا۔ اسی رولنگ کی آڑ میں وزیر اعظم کے طور پر عمران خان نے قومی اسمبلی توڑنے کی سمری صدر کو بھجوائی تھی۔ عارف علوی کو جواب دینا چاہئے کہ انہوں نے بادی النظر میں ایک غیر آئینی عمل کا حصہ بننے کی بجائے ، اس موقع پر صدارتی ’اختیار‘ استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کی سمری پر فوری عمل کرنے سے گریز کیوں نہیں کیا۔ کیا وجہ تھی کہ صدر مملکت نے وزیر اعظم کی عجلت میں روانہ کی گئی ایک سمری پر چند گھنٹے بھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور فوری طور سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم جاری کردیا۔ وہ عمران خان سے یہی پوچھ لیتے کہ اپوزیشن کے مسلسل اصرار کے باوجود وہ مڈ ٹرم انتخاب کی ہر تجویز کو مسترد کرتے رہے ہیں تو پھر فوری طور سے اسمبلی توڑنے کا حکم کیوں جاری کروانا چاہتے ہیں ؟ کیا وہ ایوان میں اکثریت کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں؟ درحقیقت عمران خان قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے تھے اور ایسے ’بے وفا‘ ادارے کو سزا دینا چاہتے تھے۔ وہ تو سپریم کورٹ آئین کی کھلی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہ سکی اور پورا عمل سعی لاحاصل ثابت ہؤا۔
ملکی سیاسی تاریخ کا یہ باب اہم عہدوں پر فائز افراد کی آئین شکنی سے عبارت ہے۔ قاسم سوری نے جان بوجھ کر صرف عمران خان کی خوشنودی کے لئے عدم اعتماد کی آئینی تحریک کو ’سازش کے قیاس‘ کی بنیاد پر مسترد کیا۔ اس کا قانون و آئین سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس فیصلہ سے گروہی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ عمران خان کے خلاف باقاعدہ تحریک عدم اعتماد موجود تھی اور وہ قومی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے لیکن انہوں نے رولنگ کا ڈرامہ رچانے کے فوری بعد اسمبلی توڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ عارف علوی نے بھی ملک کا صدر اور آئین کا محافظ ہونے کا کردار ادا کرنے کی بجائے ایک غیر آئینی عمل کا حصہ بننا ذیادہ بہتر سمجھا۔ ملکی سپریم کورٹ نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دینے پر اکتفا کیا۔ عدالت عظمی کے جج اگر سیاسی مسائل سے لاتعلق ہوکر فیصلہ کرتے تو وہ غیر آئینی قدام کرنے والے تمام کرداروں ڈپٹی اسپیکر، وزیر اعظم اور صدرمملکت کو جوابدہ بنانے کا حکم صادر کرتے۔ سپریم کورٹ کی سیاسی معاملہ فہمی کو صدر عارف علوی اپنی طاقت اور عمران خان بحران پیدا کرنے کا لائسنس سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔
صدر عارف علوی نے انتخابی ترامیم سے متعلق بل کو دوبارہ واپس بھیجتے ہوئے الیکٹرانک مشینوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے بارے میں اپنے سیاسی نظریات کا پرچار ضروری سمجھا ہے۔ ایوان صدر سے جاری ہونے والا بیان صدر کو ملکی سیاسی مباحثہ میں ایک فریق کے طور نمایاں کرتا ہے۔ اس رویہ سے اس عہدے کا وقار داؤ پر لگایا گیاہے۔ عارف علوی کو اگر سیاسی مہم جوئی کا اتنا ہی شوق ہے تو انہیں اپنے عہدے سے استعفی دے کر عمران خان کے ساتھ شہباز شریف کے خلاف تقریروں کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔ ایوان صدر کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے ملکی جمہوریت کو پامال نہیں کرنا چاہئے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ