عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن اس کے مندرجات ابھی سے جاری کردیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی اطلاعات کے مطابق اس خط میں عمران خان نے کہاہے کہ ’فوج ملک کا ایک نہایت اہم ادارہ ہے۔ عوام اور فوج کو آمنے سامنے کبھی نہیں آنا چاہیے لیکن ہم آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔‘
حیرت ہے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے بانی چئیرمین ایک طرف حکومت سازی اور عدالتی امور پر فوج کے سربراہ کو خط لکھ کر مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف آئینی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اسی خط میں عمران خان یہ بھی واضح کررہے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیوں کہ یہ جعلی حکومت ہے اور فارم 47 کی پیداوار ہے۔
خبروں کے مطابق عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ’آرمی چیف کو خط اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے لکھوں گا۔ وکلا کو خط تیار کرنے کی ہدایات دے دی ہیں‘۔ اس سارے معاملے کا یہ پہلو بہت دلچسپ ہے کہ ایک طرف خط لکھنے کے لیے وکلا سے رجوع کیا گیا ہے تو دوسری طرف خود ان کی ہی پارٹی میڈیا کو یہ بتا رہی ہے کہ اس خط میں عمران خان کیا لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی ہتھکنڈا ہے جس کے ذریعے عوام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف مسائل کی وجہ نہیں ہے بلکہ ملکی فوج پر موجودہ فساد یا سیاسی بحران کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
عمران خان ایک طرف فوج کے ساتھ مصالحت کا ارادہ ظاہر کرتے رہتے ہیں لیکن فوج اور اس کی قیادت کی توہین کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہفتہ عشرہ قبل آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے جس انداز میں تبصرے کیے گئے اور فوج کے ترجمان کی باتوں کو مسترد کیا گیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ پارٹی فوج کو دباؤ میں لاکر اپنی شرائط پر کچھ باتیں منوانا چاہتی ہے۔ عمران خان نے اب آرمی چیف کے نام جو خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ، اور جیسے اس بارے میں پہلے سے ہی خبر عام کی گئی ہے، اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فوج کو اپنی عوامی مقبولیت کے دباؤ میں لاکر اسے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر عمران خان واقعی انتخابی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک میں درحقیقت عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومتیں کام کریں اور عسکری اداروں کا اثر و رسوخ کم ہو تو اس مقصد کی تکمیل میں فوج کیسے ان کی معاونت کرسکتی ہے؟ بادی النظر میں عمران خان اور تحریک انصاف تسلسل سے یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے، وہی 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی کا موجب بنی تھی اور اسی کے تعاون و سرپرستی سے ہی موجودہ حکومتیں نام نہاد فارم 47 کے ذریعے مسلط کی گئی ہیں۔ عمران خان کے علاوہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے گزشتہ دو روز میں تواتر سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ’ہمارا چوری شدہ مینڈیٹ واپس کیا جائے اور عمران خان کو رہا کیا جائے‘۔
اس بیانیہ میں سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف ایک فعال حکومت سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ دستبردار ہوجائے اوراپنی بجائے تحریک انصاف کے امیدوار کو وزیر اعظم تسلیم کرلے۔ البتہ وہ یہ سچائی ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ انتخابات کے بعد اسے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی اور پارلیمانی طریقہ کے مطابق ، حکومت سازی کے لئے اس کا حق فائق تھا۔ لیکن تحریک انصاف نے حکومت بنانے میں دلچسپی ظاہر کرنے کی بجائے اس موقع پر مخالف پارٹیوں کے خلاف پروپیگنڈے پر زور دیا اور بہ اصرار یہ بتاتی رہی کہ اسے تو دو تہائی یا تین چوتھائی اکثریت حاصل ہوئی ہے لیکن فارم 47 پر گڑ بڑ سے اس کی واضح اکثریت سے محروم کردیا گیا۔
حالانکہ اگر تحریک انصاف اس وقت بڑی پارٹی کا پارلیمانی کردار ادا کرتی اور تمام مخالف سیاسی پارٹیوں اور گروہوں سے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھتی تو ملک میں بہتر جمہوری ماحول پیدا ہوتا، ایک مثبت پارلیمانی روایت بھی قائم ہوتی اور فوج اگر سیاسی امور یا حکومت سازی میں ملوث تھی تو اسے پیچھے ہٹنا پڑتا۔ ملکی سیاست میں فوج کی کامیاب مداخلت کی واحد وجہ سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے کے مد مقابل رہنا ہے۔ جس پارٹی کو فوجی قیادت کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے، وہ حکومت بنا لیتی ہے اور دوسری محروم رہ جاتی ہے۔
حالیہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ شہباز شریف بذات خود اس بات پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ فوجی قیادت کے ساتھ مل کر ملکی معیشت اور سیاسی امور طے کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اسی طریقے سے ملک میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے اور ملک کو موجودہ مسائل سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ دیکھا جائے تو شہباز شریف کا یہ رویہ تحریک انصاف کی طرف سے 2018 میں اختیار کیے گئے طرز عمل سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس وقت بھی عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے میں آرمی چیف نے کردار ادا کیا تھا اور اس کی تصدیق ’ون پیج سیاست‘ کے نام سے کی جاتی رہی تھی۔ تحریک انصاف اس وقت تک فوج کے خلاف ’سینہ سپر‘ نہیں ہوئی تھی جب متعدد اختلافات یا باہمی لین دین میں پیش آنے والی مایوسیوں کی وجہ سے عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلافات پیدا نہیں ہوگئے ۔ انہی اختلافات کے نتیجہ میں پی ڈی ایم تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوئی اور عمران خان کی مخلوط حکومت میں شامل پارٹیوں کی وجہ سے اس تحریک کو اکثریت حاصل ہوگئی۔
اس وقت بھی عمران خان نے پارلیمانی جمہوری طریقہ اختیار کرنے کی بجائے اپنی جولانی طبع کی وجہ سے غیر آئینی طریقہ اختیار کرنا مناسب خیال کیا اور قاسم سوری کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کروایا اور اس کے فوری بعد سابق صدر عارف علوی سے اسمبلی توڑنے کا فرمان جاری کروادیا گیا۔
ان اقدامات کو بعد میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا اور عمران خان سمیت ان فیصلوں میں شریک تمام افراد کو آئین شکن بتایا گیا۔ آئینی بالادستی کی بات کرتے ہوئے عمران خان کو سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ پاکستان میں اگر واقعی تمام آئینی طریقوں پر عمل کیاجاتا تو قاسم سوری، عارف علوی اور عمران خان کو سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی روشنی میں آئین کی خلاف ورزی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا۔ عمران خان ضرور اس وقت سیاسی دباؤ اور قانونی مشکلات کا شکار ہیں لیکن انہیں آئین کے احترام کی بات کرنے سے پہلے اپنے کردار پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
2022 کی عدم اعتماد کی تحریک سے نمٹنے کے کئی جمہوری و آئینی طریقے عمران خان کو میسر تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کروانے سے پہلے ہی اس کا چرچا تھا۔ وہ اپنی حلیف جماعتوں کو اعتماد میں لے سکتے تھے یا اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے کر انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کرسکتے تھے ۔ اگر وہ ان میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے میں راحت محسوس نہیں کرتے تھے اور ان کی ذاتی انا انہیں سیاسی فیصلے کرنے سے روک رہی تھی تو بھی وہ عدم اعتماد دائرہونے سے پہلے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کرسکتے تھے۔ بطور وزیر اعظم انہیں اس کا آئینی اختیار و حق حاصل تھا لیکن انہوں نے یہ ’حق‘ ایک ایسے موقع پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جب ان کے خلاف عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جاچکی تھی اور آئین کے مطابق اس پر ووٹنگ ضروری تھی۔ ماضی قریب کے سیاسی واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ عمران خان بہر طور اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے اور جب عدم اعتماد سے بچنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہا تو انہوں نے غیر آئینی ہتھکنڈا اختیار کیا جو کامیاب نہ ہوسکا۔
اس ناکامی کے بعد بھی عمران خان نے سیاسی لائحہ عمل اختیار کرنے کی بجائے سازشی نظریہ کی ترویج، سائفر اسکینڈل اور فوج پر نکتہ چینی کے ذریعے اقتدار تک راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ 10 اپریل 2022 کو اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے 9 مئی 2023 کو فوج کے ساتھ براہ راست تصادم تک عمران خان اور تحریک انصاف کو ناقابل یقین سیاسی سپیس مہیا تھی۔ جنرل باجوہ کی سربراہی میں فوج ان کی سہولت کار تھی اور اعلیٰ عدلیہ بھی ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھی۔ عمران خان کو مان لینا چاہئے کہ وہ اس موقع کو اقتدار میں واپسی کے لیے استعمال نہیں کرسکے۔
اب ایک بار پھر وہ فوج ہی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ ایسا سیاسی رویہ رکھنے والے شخص کو کیوں کر جمہوری لیڈر مانا جاسکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان ملک کے مقبول لیڈر ہیں لیکن جمہوری نظام میں مقبولیت کا پیمانہ بہر حال انتخابات کو ہی مانا جائے گا ۔ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات سیاسی نعروں سے دور نہیں ہوسکتیں بلکہ اس کے لیے مروجہ طریقہ ہی اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تحریک انصاف فارم 47 کی بنیاد پر پرجوش پروپیگنڈا کرنے کے باوجود کسی الیکشن ٹریبونل یا عدالت سے اپنے مؤقف کی تائید میں فیصلے نہیں لے سکی۔
اب عمران خان آرمی چیف کو عوام کے تصادم سے ’خوف‘ دلا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آئین کو ماننے والا ایک لیڈر عدالتوں میں اپنے خلاف ہونے والی نام نہاد ’ناانصافی‘ کی شکایت بھی فوج کے سربراہ سے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ عمران خان خود ہی بتائیں کہ اس طرز عمل میں آئین کا احترام کرنے والے ایک جمہوری لیڈر کو کیسے تلاش کیاجائے؟
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ