اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی ہے ۔ اسی دوران پنجاب حکومت کی نگرانی میں ایک ’عام شہری‘ کی درخواست پر گجرات پولیس نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف ججوں اور سرکاری اہلکاروں کو دھمکانے کے الزام میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے مونس الہیٰ نے رانا ثناللہ کے خلاف ایف آئی آر کی نقل ٹوئٹر پر شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جلد ہی رانا ثنااللہ کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رانا ثنااللہ نے ہمارے لیڈر عمران خان کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کیا لیکن اب رانا ثنااللہ کے خلاف سچا مقدمہ قائم کرلیا گیا ہے‘۔ اس قسم کی قانونی کارروائی ، مقدمے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ہتھکنڈے، ملک میں جمہوری نظام قائم کرنے کے نام پر کئے جارہے ہیں۔ لیکن یہ سچائی چھپائی نہیں جاسکتی کہ اگر ایک دوسرے سے انتقام لینے کے لئے ایسے اوچھے طریقے اختیار کئے جائیں گے اور صوبوں کی حکومتیں ،وفاقی حکومت کے ساتھ برسر پیکار ہوں گی تو اس صورت حال میں جمہوریت ہی سب سے پہلے نشانے پر ہو گی۔
پاکستان میں سیاسی تصادم کی موجودہ فضا کا الزام کسی ایک شخص یا پارٹی پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان ہوں یا وفاق میں اقتدار سنبھالنے والی اتحادی پارٹیاں، سب ہی اپنے اپنے طور پر اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی دشمنی کا تعلق استوار کئے ہوئے ہیں۔ 20 اگست کو اسلام آباد میں کی جانے والی ایک تقریر کے بعد وفاقی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پولیس افسروں اور ایک خاتون جج کو دھمکانے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا تھا۔ اس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔ حالانکہ ہر سیاسی لیڈر پولیس افسروں اور عدلیہ کو موقع ملنے پر اپنے اپنے طور دھمکانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا ۔ تاہم اس معاملہ میں چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کے ماتحت اسلام آباد پولیس نے اس معاملہ کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ دنیا بھر کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم کو ایک تقریر کے الزام میں دہشت گردی کے مقدمہ میں قصور وار قرار دیا گیا ہے۔ آج اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران خان کے ہمراہ اس مقدمہ میں ضمانت کی درخواست کے لئے آنے والے لیڈروں کا یہی مؤقف تھا کہ وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ نے سابق وزیر اعظم پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا ہے۔ البتہ عمران خان کی خوشنودی کے لئے گجرات میں وفاقی وزیر داخلہ پر ایسے ہی الزامات میں مقدمہ قائم کرنے کو مونس الہیٰ کے علاوہ تحریک انصاف کے دیگر ممتاز لیڈر بھی ’جائز کارروائی‘ قرار دیں گے۔ اب یہ پریشانی محسوس نہیں کی جائے گی کہ ملک کے وفاقی وزیر کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے سے ملک کی عزت میں کتنے ستاروں کا اضافہ ہوگا؟
دو روز قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختون کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت حکمران پاکستان جمہوری تحریک کے متعدد لیڈروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے الزام میں غداری اور بغاوت کے مقدمے قائم کرے گی۔ یہ کارروائی بظاہر عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کی گرفتاری اور ان پر غداری کے الزامات کے رد عمل میں کی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں اس وقت وفاق میں حکمران جماعتوں کی قیادت کو زچ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیا ربیٹھی ہیں۔ ملک شدید معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ابھی تک مالی معاہدہ کی تجدید اور قرض کی نئی قسط جاری ہونے کا کوئی اعلان سامنے نہیں آسکا جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو مسلسل اندیشے اور خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرات صرف شہباز شریف یا ان کی حکومت کو لاحق نہیں ہیں بلکہ کسی قسم کی ناگہانی صورت حال کی بھاری قیمت پاکستانی عوام ہی کو ادا کرنا پڑے گی۔ حکومت تو کسی شدید بحران یا دباؤ کی صورت میں دامن جھاڑ کر ایک طرف ہوسکتی ہے لیکن پاکستانی ریاست کو ہر اس غلط یا درست فیصلے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی جو عوام کے نمائیندوں کے طور پر کوئی بھی حکمران کرتا رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے جو بھی معاشی فیصلے کئے اور عالمی اداروں سے جو بھی معاہدے کئے گئے ، اب شہباز حکومت ان سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے اور پاکستانی عوام بجلی و پیٹرول کے علاوہ دیگر اجناس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کی صورت میں ان کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح جیسے عمران خان نے ساڑھے تین سال کے دور حکومت میں مسلسل سابقہ حکومتوں پر ملکی معیشت گروی رکھنے، آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی غلامی قبول کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ دعوے کئے تھے کہ سابقہ حکومتوں کے لئے ہوئے قرضوں کی وجہ سے ان کی حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ حسب وعدہ عوامی بہبود کے منصوبوں پر عمل نہیں کرسکے۔ وہی دلیل اب مفتاح اسماعیل اور شہباز شریف کی گفتگو میں سنی جاسکتی ہے جو عوام کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ عمران حکومت نے سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ قرض لے کر ملکی معیشت کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دی ہیں۔ بس اب وہ ان زنجیروں کو کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور صوبوں و وفاق کے درمیان افتراق کے سبب پیدا ہونے والے بحران اور مسائل کی صورت حال کا سارا الزام موجودہ حکومت بلکہ حکمرانوں کی چوری اور بدعنوانی پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کررہے ہیں کہ امریکہ نے پاکستانی معیشت تباہ کرنے کے لئے بدعنوان لیڈروں کے ذریعے یہ ساز ش کی تھی تاکہ پاکستان خود مختاری سے زندہ رہنے کے قابل نہ ہوسکے۔ بہادری اور دلیری کے تمام تر دعوؤں کے باوجود عمران خان کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اس وقت ملکی سطح پر پائے جانے والے مالی بحران کو تحریک انصاف ہی کی حکومت نے اپنی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے تحت کاشت کیا تھا جو اب تناوہ درخت بن چکا ہے۔ عمران خان کو تو اس سے غرض ہے کہ انہیں سیاسی نعرے ایجاد کرنے کے لئے ہر روز نیا موضوع ہاتھ آجاتا ہے۔
شہباز حکومت ایک طرف میثاق معیشت کا چرچا کرتی ہے لیکن دوسری طرف عمران خان کے ساتھ مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان موجودہ حکمرانوں کو چور و لٹیرے قرار دیتے ہوئے ہر قسم کے ڈائیلاگ سے انکار کرتے ہیں لیکن حکومت کی بھی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان اور تحریک انساف کو زیر کرنے کے لئے حکومتی انتظامی اختیار استعمال کیا جائے۔ شہباز حکومت نے میثاق معیشت کے دعوؤں کے باوجود ملکی معیشت کا کوئی دیانت دارانہ تجزیہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسا عوامی فورم تشکیل دینے کی کوشش کی ہے جس پر ’میثاق معیشت‘ کے لئے گفتگو ہوتی اور دیکھا جاتا کہ ملک کو معاشی دباؤ اور قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لئے کن اقدامات پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔ کل تک عمران خان غیر ملکی قرضے لے کر ایسے منصوبے متعارف کروا رہے تھے جو ان کے لئے سیاسی طور سے سود مند ہوتے اور اب شہباز حکومت وہی کوشش کررہی ہے۔ اسی لئے انتخابات کو زیادہ سے زیادہ مدت تک مؤخر کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔
شہباز حکومت کے ترجمانوں کے بیانات کو پڑھا جائے تو وہ ملکی معیشت میں بہتری کی خبر دیتے ہوئے یہی نوید دیتے ہیں کہ فلاں ادارے یا ملک سے نیا قرض ملنے والا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ حکمت عملی تحریک انصاف کی زیادہ سے زیادہ قرضے لینے کی پالیسی سے کیوں کر مختلف ہے ؟ نہ عمران خان کی حکومت یہ جواب دے سکی تھی کہ ان قرضوں کو کیسے واپس کیا جائے گا اور نہ ہی شہباز شریف کے پاس اس کا کوئی شافی جواب موجود ہے۔ خاص طور سے جب یہ دونوں سیاسی قوتیں مسلسل ملک میں سیاسی بے چینی، ضد
اور تصادم کی کیفیت پیدا کرنا چاہتی ہیں تاکہ سیاسی مدمقابل کو نشانے پر لیا جاسکے تو کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی آمدنی و اخراجات میں توازن قائم ہوسکے گا؟ملک کے سب صوبوں میں سیلاب اور شدید بارشوں کی تکلیف دہ صورت حال، انسانی جانوں، اموال واملاک کے کثیر نقصان اور زرعی فصلیں تباہ ہونے سے ملکی معیشت پر ناقابل تلافی بوجھ میں اضافہ ہؤا ہے۔ اس کی تلافی کرنے اور متاثرہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ہر قسم کا تنازعہ بھلا کر امداد، بحالی اور آباد کاری کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تھا۔ لیکن مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں اور دوسری طرف وفاقی حکومت کسی بھی طرح ایک دوسرے کو غدار اور دہشت گرد قرار دینے کے لئے توپیں تانے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران عالمی میڈیا نے پاکستا ن کی خبریں دیتے ہوئے اسے جمہوریت یا قانون کی بالادستی کی لڑائی کہنے کی بجائے دو سیاسی دھڑوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش قرار دیا ہے۔
پاکستانی سیاست دان اسٹبلشمنٹ کی سیاست پر دو حرف بھیجتے ہیں لیکن اپنے اپنے طور پر اسی اسٹبلشمنٹ کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طرح سیاسی مخالف کو دن میں تارے دکھانا چاہتے ہیں۔ کل تک عمران خان کو یہ سرپرستی حاصل تھی تو اپوزیشن عوامی حاکمیت اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہی تھی اب اتحادی پارٹیوں کو حکومت کی سہولت حاصل ہوئی ہے تو وہ اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر ہونے والی ہر بات میں غداری کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ عوامی حکمرانی یا حقیقی آزادی کے نام پر پاکستان کے لوگوں کو رجھانے والے کسی بھی سیاسی گروہ کو عوام کی قوت فیصلہ پر نہ تو اعتبار ہے اور نہ وہ اس کا احترام کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو ملکی مسائل کی وجہ سمجھنے والے سب عناصر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر جمہوریت کو کامیاب کروانے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ پکڑ کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ