41 برس پہلے ضیا الحق نام کے جس شخص نے ملک میں اصلاح احوال کا بیڑا اٹھایا تھا اور ایک منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کر کے آئین کو کاغذ کا بیکار ٹکڑا قرار دیا تھا، آج بھی اس کا بھوت جمہوریت، آزادی رائے اور بنیادی حقوق کے لئے خطرہ بنا ہؤا ہے۔ البتہ اس وقت اس مزاج کی زد پر وہی لوگ ہیں جنہیں ضیا الحق اپنی سرپرستی میں اقتدار تک لایا اور حکمرانی کے اسباق یاد کرواتا رہا تاکہ وہ عوامی امنگوں کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو پیچھے دھکیل کر اقتدار اور حکمرانی پر قابض رہیں۔ ضیا الحق اپنے تمام تر مکروہ ہتھکنڈوں اور ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے کے باوجود نہ پیپلز پارٹی کو ختم کرسکا اور نہ ہی عوام کی اس خواہش کو تبدیل کرسکا کہ وہ اپنے آبا و اجداد کی قربانیوں سے بنائے ہوئے اس ملک میں خود اپنے نمائندوں کے ذریعے فیصلوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔
جمہوری راستہ روکنے کے لئے ضیا الحق کے پروردہ نواز شریف ہی اب جمہوریت کے علمبردار بن کر سامنے آئے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’عوام کے ووٹ کو عزت دی جائے۔ ان کی رائے کا احترام کیا جائے اور ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ ہی فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ یہ اختیار منتخب پارلیمنٹ سے اداروں کو منتقل نہ کیا جائے خواہ وہ ادارہ عسکری قوت کا حامل ہو یا آئین کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی حفاظت کے نام پر عوامی حکمرانی کے راستے کی رکاوٹ بن رہا ہو‘۔ ضیا کی روح نواز شریف کے کردار کی اس تبدیلی پر شرمندہ ہو یا نہ ہو لیکن اس فوجی آمر نے جمہوریت اور عوامی بہبود کے خلاف جو مزاج ملک میں تیار کیا ہے، وہ اب بھی ان اصولوں کو مسترد کرکے سازش، طاقت اور خود ساختہ نظریات کی بنیاد پر ملک کو ان کے اصل مالکوں کے حوالے کرنے سے انکار کرتا ہے۔
سولہویں صدی سے شروع ہونے والا نوآبادیاتی نظام کئی صدیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں بمشکل گزشتہ صدی کے دوران اپنے انجام کو پہنچا۔ تاہم اس طویل نو آبادیاتی دور نے دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں کی سیاست، مزاج، عوامی اختیار اور ترقی پر مہلک اثرات مرتب کئے۔ اس کے علاوہ نوآبادیاتی قوتوں نے براہ راست حکمرانی کو ترک کرنے کے باوجود سابقہ نوآبادیوں کی معیشت اور سماجی رویّوں کو کنٹرول کے ذریعے ان علاقوں میں آباد لوگوں کو حقیقی معنوں میں آزاد ہونے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع فراہم کرنے سے محروم کیا۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے اور ماہرین اور سیاسی مبصر اسے پوسٹ کالونیل ازم کا نام دے کر ان مسائل کو سمجھنے اور ان کی صراحت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے سماج اور معیشت کے علاوہ سیاسی رویّوں پر بھی اس جبر و استبداد کے نشانات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
ضیا الحق جیسے فوجی آمروں کو بھی اس مزاج سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی حد تک اگر 5 جولائی 1977 کو رونما ہونے والے سانحہ اور پاکستان کی سیاست اور سماجی رویّوں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ان اثرات ہی طرح مہلک اور المناک ہے جو سابقہ نوآبادتی قوتوں کی ’محتاجی‘ کی صورت میں متعدد ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہیں۔ یہ ممالک آزاد ہونے کے باوجود مکمل طور سے خود مختار نہیں ہوسکے۔ نوآبادیاں قائم کرنے والے ممالک نے اپنے پیچھے نوکر شاہی اور سیاسی حکمرانی کرنے والوں کی ایسی نسل چھوڑی ہے جس نے اب تک نہ عوام کو فیصلے کا مجاز سمجھا اور نہ کبھی سابقہ حکمرانوں کی تابعداری سے روگردانی کی۔اس وقت پوسٹ کالونیل ازم کے اثرات پر بحث مطلوب نہیں ہے لیکن یہ غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاست اور طرز حکمرانی اب بھی اس روایت کے شکنجہ میں ہے جسے ضیا الحق نے پروان چڑھایا اور سینچا تھا۔ اسی لئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات پر دراصل ضیا الحق کے بھوت کا سایہ ہے۔ جمہوریت کے نعروں، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی خود مختاری اور سیاست سے فوج کی لاتعلقی کے اعلانات کے باوجود سارے کام اسی طرح انجام پا رہے ہیں جن کی بنیاد ضیا الحق نے رکھی تھی۔ ہم جمہوریت کا نعرہ لگانے اور اس کا ڈھونگ کرنے کے باوجود اب تک جمہوری رویہ اور مزاج پروان چڑھانے اور عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس معاملہ کو سیاسی نعرہ کی حیثیت ضرور حاصل ہو گئی ہے لیکن اس سے زیادہ نہ تو کوئی سیاست دان اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی عوامی حکمرانی کے سوال پر سب ’جمہوریت پسند‘ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔آج اگر ضیا الحق کا بھوت نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا راستہ کاٹ رہا ہے تو بے شک اس پر تالیاں بجائی جا سکتی ہیں کہ یہ راہ تراشنے میں نواز شریف نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ لیکن تالیاں بجانے والے اگر اس بات سے بےخبر ہیں کہ کل یہ تالیاں ان کی حالت پر بھی بجائی جائیں گی تو یہ واقعی تشویش اور پریشانی کی بات ہے۔ ضیا الحق نے ملک میں متوازن سوچ کی بجائے انتہا پسندی اور جمہوریت کی بجائے آمرانہ مزاج کو فروغ دیا۔ آج اس کا کڑوا پھل سب چکھ رہے ہیں اور اہل پاکستان اس کی قیمت اپنے خون اور عالمی سطح پر بدنامی کی صورت میں ادا بھی کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک کے ادارے خواہ وہ سیاست کی انجینئرنگ کرنے والے عسکری ادارے اور ایجنسیاں ہوں یا عدالتی نظام ہو، عقل کے ناخن لینے اور تبدیل ہوتے ہوئے ماحول اور حالات میں پرانی حرکتوں سے باز رہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انہیں آج بھی یہی لگتا ہے کہ جس طرح ضیا الحق یا اس کا جانشین پرویز مشرف معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں کامیاب ہوئے تھے، اس بار بھی اسی طرح ’قومی مفاد‘ کی حفاظت کی جا سکے گی۔
غیر واضح قومی مفاد اور نظریہ پاکستان جیسی اصطلاحات، ان کے بارے میں بعض طاقتور اداروں کی رائے اور اس رائے کو مسلط کرنے کا چلن بھی دراصل ضیا الحق ہی کی دین ہے۔ عوام کی اس حق تلفی اور قومی مفاد پر حاصل کی گئی اجارہ داری کے خلاف ملک کے عام لوگوں میں ایک مضبوط رائے موجود ہے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے لیکن سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر عوامی سوچ میں اس تبدیلی کو اہمیت دینے اور اس کی بنیاد پر حکمت عملی استوار کرنے کی بجائے ’طاقت کے مراکز‘ سے رجوع کرکے اقتدار تک پہنچنے کا آسان راستہ تلاش کر نا ہی سہل سمجھتے ہیں۔حیرت انگیز طور پر اسٹیٹس کو کے خلاف عوام کی ناپسندیدگی کو نہ تو ’نیا پاکستان‘ بنانے والے لیڈر سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں اور نہ ہی نواز شریف نے اس تفہیم کا مکمل اظہار کیا ہے حالانکہ وہ اسٹبلشمنٹ کی من مانی کے خلاف کھڑے ہونے اور عوامی حکمرانی کا خواب پورا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ فعال جمہوری نظام کے لئے عوام کی خواہش اور سیاسی معاملات میں اداروں کی مداخلت کو مسترد کرنے کے عوامی رویہ کو سمجھنے کے لئے زیادہ دور نہ بھی جائیں تو بھی 9 مارچ 2007 کو افتخار چوہدری کے استعفیٰ دینے سے انکار کے بعد شروع ہونے والی عدلیہ بحالی تحریک اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک کے عوام سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اسے ناپسند بھی کرتے ہیں۔اس تحریک کے جو پس پردہ عوامل بعد میں منظر عام پر آئے اس وقت ان سے بحث مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ نکتہ سامنے لانا ضروری ہے کہ عوام فوجی آمریت یا عدالتی حکمرانی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تاہم ملک کے سیاست دان اقتدار کے لئے اپنے خوابوں کی تکمیل کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے عسکری اداروں یا عدالتی نظام سے ساز باز کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ کسی گرنے والی سیاسی شخصیت کو دست تعاون فراہم کرنے کی بجائے اسے دھکہ دینے میں ان خفیہ ہاتھوں کا آلہ کار بنتے ہیں جو جمہوریت کو صرف نعرہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بہرصورت امور مملکت کو اپنی دسترس میں رکھنا چاہتے ہیں۔افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ نواز شریف نے اگرچہ اس طرز حکومت کو بدلنے اور پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کے نعرے کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے لیکن ایک طرف وہ شہباز شریف کے ذریعے مفاہمت اور ’فیصلو ں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت‘ کے اصول کی تائید کررہے ہیں تو دوسری طرف انہی الیکٹ ایبلز کے ذریعے یہ نظام تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو دراصل اس نظام کو مستحکم کرنے اور اس کے تسلسل کا باعث ہیں۔ اگر عمران خان الیکٹ ایبلز کی کاغذی فوج کے ذریعے ’نیا پاکستان‘ نہیں بنا سکتے تو نواز شریف، شہباز شریف جیسے پارٹی صدر اور بچے کھچے الیکٹ ایبلز کے ذریعے ملکی سیاست پر ہیئت مقتدرہ کا قبضہ و اختیار کیسے ختم کروا سکتے ہیں۔ نواز شریف کو اگر اسٹبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں کے خلاف عوام کی رائے پر بھروسہ ہوتا تو وہ الیکٹ ایبلز کو تلاش کرنے اور رجھانے کی کوشش کرنے کی بجائے ان پارٹی کارکنوں کو امید وار بناتے جو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر عوام سے ووٹ مانگتے۔ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو اس مقصد میں ناکامی ہوتی اور وہ بہت کم انتخابی کامیابی سمیٹ سکتے لیکن وہ تاریخ میں ایک ایسے سیاسی لیڈر کا مقام و مرتبہ ضرور حاصل کرسکتے تھے جس نے عوام کے جمہوری اختیار کے لئے آواز بلند کی اور اس اصول پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا۔پارٹی ٹکٹ بانٹنے میں جو پالیسی اختیار کی گئی،اس کی ناکامی جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے امید واروں کی آخری لمحوں میں ’بغاوت‘ سے ہی واضح ہے۔ جو بچے کھچے الیکٹ ایبلز اب بھی نواز شریف کا پاپولر ووٹ کیش کروانے کے لئے ان کے ساتھ جمع ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ انتخاب مکمل ہونے کے بعد ان کا ضمیر بھی انگڑائی لے کر بیدار نہیں ہو جائے گا۔ نواز شریف کے پاس اس المیہ سے نجات پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ملک واپس آئیں۔ جمہوریت کے لئے اپنا مؤقف صاف لفظوں میں عوام کے سامنے پیش کریں اور اسی ایجنڈے پر 25 جولائی کا سامنا کریں جس کا اعلان انہوں نے وزارت عظمیٰ سے محروم ہونے کے بعد کیا تھا۔دو روز بعد احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ سنانے والی ہے۔ ہو سکتا ہے اس مقدمہ میں انہیں سزا سنا دی جائے۔ اگر نواز شریف نے جیل جانے کے خوف سے پاکستان آنے سے گریز کیا تو جمہوریت کے لئے جنگ کا اعلان جھوٹا ثابت ہو گا۔ ضیا الحق کا بھوت خوشی سے محو رقص ہوگا۔ انتخاب سے 19 دن پہلے نواز شریف کے خلاف مقدمہ کے فیصلہ کا اعلان اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اس موقع پر نواز شریف کی ملک واپسی سے خوفزدہ ہے اور کسی بھی قیمت پر انہیں عوام سے دور رکھ کر انتخاب کا یہ مرحلہ گزارنا چاہتی ہے۔ نواز شریف کو صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس لمحہ پر اپنے لوگوں کو اکیلا چھوڑ کر تاریخ کا گمنام ورق بننا چاہتے ہیں یا ان زندہ لوگوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں جو جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کا فیصلہ نواز شریف کو خود کرنا ہے۔
( بشکریہ : ہم سب لاہو ر )
فیس بک کمینٹ