یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق نے ایک تازہ فیصلہ میں توہین رسالت کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ آسٹریا کی ایک خاتون کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سات رکنی عدالت نے قرار دیا ہے کہ کسی مذہب کے پیغمبر کے بارے میں توہین آمیز اظہار خیال کو آزادی اظہار کاحق نہیں مانا جاسکتا۔ آسٹریا کی شہری خاتون نے یورپی عدالت سے اپیل کی تھی کہ اس کے ملک کی عدالتیں توہین مذہب کے عذر پر اس کے اظہار رائے کے حق کو سلب کرنے کی مرتکب ہوئی ہیں جو یورپی انسانی حقوق کنونشن کی شق 10 کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے آسٹریا کی عدالتوں میں کئے گئے فیصلوں کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ عدالت نے آزادی رائے اور مذہبی شخصیات کے احترام میں مناسب توازن قائم کیا ہے۔ اس طرح اس خاتون کو آسٹریا کی عدالت سے ملنے والی جرمانہ اور مقدمہ کے اخراجات ادا کرنے کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔ آسٹریا کی عدالت نے اس خاتون کو یہ سزا 2011 میں قائم ہونے والے ایک مقدمہ میں دی تھی۔ اس خاتون نے 2008 میں ایک پمفلٹ شائع کیا تھا جس میں رسول پاک ﷺ پر توہین آمیز الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس نے بعد میں متعدد تقریروں میں ان خیالات کا پرچار بھی کیا تھا۔
یورپ میں آزادی اظہار اور توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے۔ مسلمانوں اور معاشرے کے انتہا پسند عناصر کے درمیان اس معاملہ پر تنازعہ رہتا ہے۔ یورپ میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بحث میں مذہب پر تنقید کو بنیادی جمہوری اصول مانتے ہوئے اسے مذہب کے کردار اور انسانوں کی آزادیوں کے حوالے سے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم بعض عناصر اس حوالے سے بات کرتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں یا سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب پر تنقید کے اصول اور آزادی رائے کا سہارا لے کر مذہبی شخصیات پر حملے کرنے اور ان کے بارے میں توہین آمیز خیالات کا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان عناصر کا بنیادی مقصد مذہب کے منفی اثرات پر گفتگو کی بجائے معاشرہ میں آباد مذہبی اقلیتوں کے خلاف بات کرکے اکثریت کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی موجودگی میں مقامی ثقافت اور شناخت کو خطرہ لاحق ہے۔
یورپ میں مسلمانوں کے حوالے سے اس بحث کا آغاز 80 کی دہائی میں سلمان رشدی کی کتاب ’شیطانی آیات‘ کی اشاعت کے بعد ہؤا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے اس کتاب کے مندرجات پر گفتگو اور اس کی تاریخی یا سماجی حیثیت و قدر و قیمت کے پہلو سامنے لانے کی بجائے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ دے کر اس بحث کو مشرق اور مغرب کی اقدار کی بحث میں تبدیل کردیا۔ اس طرح رشدی کے ناول کے مندرجات کی بجائے ہمیشہ اس موضوع پر بحث ہوتی رہی ہے کہ کیا کسی ملک کا کوئی مذہبی پیشوا کسی تحریر کی وجہ سے کسی مصنف کو مارنے کا حکم دے سکتا ہے۔
رشدی تنازعہ کے بعد 2005 میں ڈنمارک کے اخبار ای لاند پوستن نے رسول پاک ﷺ کے کارٹون شائع کر کے ایک نئے تنازعہ کو جنم دیا۔ اخبار اور کارٹونسٹوں کو ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے یورپ کے متعدد ملکوں کے اخباروں اورجرائد نے مسلمانوں کا مؤقف سننے کی بجائے آزادی رائے کی بنیاد پر ڈینش اخبار کے ساتھ اظہار یک جہتی میں ان کارٹونوں کو خود بھی شائع کیا۔ ان دو بڑے مباحث کے دوران بعض دانشوروں کی طرف سے آزادی رائے اور مذہبی حساسیات میں تمیز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیاگیا لیکن ایک طرف یورپ کا میڈیا اورادیب آزادی رائے کی بحث میں تشدد کو مسترد کرتے رہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے مسلمان آبادی والے ملکوں کے علاوہ یورپ میں بھی حملے کرنے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے توازن قائم کرنے اور ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کا ماحول پیدا نہیں ہو سکا۔
2001 میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد افغان جنگ اور اس کے بطن سے ابھرنے والی دہشت گردی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بات کرنا یورپی سیاست اور میڈیا میں فیشن کی حیثیت اختیار کرگیا۔ یورپ میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور انہوں نے سینکڑوں مساجد تعمیر کی ہیں اور اسلامی مراکز قائم کئے ہیں لیکن اس کے باوجود بنیادی مباحث میں اقدار اور عقائد پر گفتگو کی بجائے الزام تراشی اور تشدد کا پلہ بھاری رہا ہے۔ افغان اور عراق جنگ کے بعد شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجہ میں مسلمان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد نے یورپ کا رخ کیا ہے۔ اس طرح یورپ پر معاشی دباؤ بڑھنے کی وجہ کئی برس سے مسلمانوں کو حرف تنقید بنانا سیاسی ضرورت شمار ہونے لگا ہے۔
اقتصادی دباؤ کے سبب عوام کو گمراہ کرنے کے لئے مقبول نعروں میں اسلام پر حملے کرنا دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹیوں کا محبوب ترین ہتھکنڈا رہا ہے۔ معاشی مشکلات کا شکار لوگ اس قسم کی نعرے بازی اور الزام تراشی سے متاثر ہونے لگے اور متعدد یورپی ملکوں میں انتہا پسند گروہوں کی مقبولیت میں اچانک اور تیزی سے اضافہ ہؤا ہے۔ اس انتہا پسندانہ سیاسی طرز تکلم کی مقبولیت کی وجہ سے پہلے تو مین اسٹریم پارٹیوں نے بھی اسی لب و لہجہ کو اختیار کرنے کی کوشش کی تاکہ انتہا پسند اور تشدد پر اکسانے والے گروہوں کی قوت کو محدود کیا جاسکے۔ لیکن مین اسٹریم پارٹیوں کے اس طرزعمل سے انتہاپسند سیاسی گروہ یہ کہنے لگے کہ اہم پارٹیاں مسلمانوں کے خلاف ان کے مؤقف کو تسلیم کرنے لگی ہیں ۔ یہ صورت حال سنجیدہ سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے لئے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
اب یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مذہب اور مذہبی شخصیات کو بنیاد بنا کر عوام کو گمراہ کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں برابری، مساوی حقوق اور سماجی امن و ہم آہنگی کے اصولوں کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس طرح یورپی معاشرے اس بنیاد سے دور ہونے لگے ہیں جن کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ ترقی پذیر ملکوں کو اصلاحات کرنے اور تبدیلی لانے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے فیصلہ سے باہمی احترام کا ایک اہم اور بنیادی اصول واضح ہؤا ہے۔ اس فیصلہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اختلاف کا اظہار مہذب انداز میں ہونا چاہئے۔ دوسرے عقائد اور مذہبی شخصیات کے بارے میں منفی اور اشتعال انگیز گفتگو سے سماجی انتشار اور بےچینی پیدا ہوتی ہے جس سے تشدد اور دہشت گردی جیسی علتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
یورپی عدالت کا فیصلہ اگرچہ اہم اور بروقت ہے لیکن اس بحث میں مسلمانوں کے کردار اور مسلمان ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال یورپ کے لوگوں کو یہ باور کرواتی ہے کہ مسلمان انسانی حقوق کی پرواہ نہیں کرتے لیکن اپنے مذہب پر ہونے والی گفتگو کے موقع پر مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا واویلا کرتے ہیں۔ یہ ایک جائز اور قابل فہم مزاج ہے جسے دنیا میں اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی، تشدد اور شدت پسندی کی وجہ سے فروغ ملتا ہے۔ یورپ کے مسلمان بھی اپنے آبائی ملکوں میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔ بہت کم مذہبی گروہوں یا اداروں نے دہشت گردی کے خلاف رائے ہموار کرنے کے لئے کام کیا ہے۔ یورپی مسلمانوں میں پائی جانے والی سماجی برائیوں اور ان کی وجہ ہونے والی خوں ریزی سے بھی مسلمانوں کے بارے میں مثبت تصویر سامنے لانے میں مشکل پیش آتی ہے۔
مسلمانوں کو اس وقت یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جدید مغربی مباحث میں اسلام کا پیغام زیر بحث نہیں ہوتا بلکہ عصرحاضر کے مسلمانوں کے کردار سے سامنے آنے والی صورت حال سے رائے استوار ہوتی ہے۔ جب طالبان لوگوں کوذبح کرتے ہیں، داعش کے جنگجو اقلیتی عورتوں کو جنسی غلام بناتے ہیں یا نائیجیریا میں بوکو حرام کا گروہ مذہب کا نام لے کر کم سن بچیوں کو اغوا کرکے ان کے ساتھ زیادتی اور تشدد کا ارتکاب کرتا ہے تو بڑی تصویر میں مسلمانوں کو رحمدل اور دوسروں کا احترام کرنے والا یا انسانوں سے محبت کرنے والا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ و امریکہ یا دیگر مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کے علاوہ مسلمان ملکوں کی حکومتوں اور عوام کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے افعال و کردار سے ہی مسلمانوں یا اسلام کی تصویر تشکیل پاتی ہے۔ اگر مسلمان لیڈر اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہوئے ان کے رہنماؤں یا پیشواؤں کی توہین کریں گے یا فرقہ بندی کی وجہ سے لوگوں کو قتل کرنا جائز قرار دیں گے تو مسلمانوں کو خوں خوار اور اسلام کو انسانیت دشمن مذہب کہنا آسان ہو جائے گا۔
اپنے عقیدہ سے محبت اور اپنے رسول سے عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے دوسروں کے عقائد کا احترام کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ مسلمان جب تک اپنے عمومی رویہ میں یہ تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال تبدیل نہیں ہوگی، ترقی یافتہ دنیا میں اسلام کو مسلمانوں کے کردار کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور اسلام اور ان کے لیڈروں کے خلاف افترا پردازی جاری رہے گی۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ تشدد اور دہشت گردی میں ملوث لوگ قلیل تعداد میں ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جب ان عناصر کو قبول کرنے کا رویہ عام ہوگا اور مسلمان معاشروں میں عمومی طور سے تشدد کا پرچار دیکھنے میں آئے گا تو یہ دلیل بے بنیاد اور غلط ثابت ہوتی رہے گی۔
دنیا اس وقت اسلام کو سمجھنے کے لئے مسلمانوں کی طرف دیکھتی ہے۔ اگر مسلمانوں کے رویے خوشگوار اور انسان دوست ہوں گے تو کوئی بھی اسلام کو انسان دشمن کہنے کا حوصلہ نہیں کرے گا۔ اس صورت میں مسلمانوں کے جذبات کا احترام کروانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ عام لوگ خود ہی اس قسم کی باتوں کو دیوانگی اور نفرت سمجھ کر مسترد کردیں گے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ