وزیر اعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈروں اور وزارت خارجہ کے بعد اب پاک فوج کے سربراہ نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف دعوؤں کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ پاکستان نے کسی بھی ملک سے زیادہ افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کیا ہے‘۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے آرمی چیف کے بیان پر مشتمل ٹویٹ جاری کئے ہیں جن میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے بلکہ علاقے میں امن کے لئے بھی اہم کردار ادا کیا ہے‘۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان نے اس جنگ میں بھاری فوجی، معاشی اور سیاسی قیمت ادا کی ہے اور دنیا کو اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان میں قیام امن کے لئے کوشش کرتے رہیں گے۔ لیکن پاکستان کا وقار اور اس کی سلامتی ہمارے لئے سرفہرست ہے‘۔
حکومت کے بعد پاک فوج کے اس دو ٹوک اعلان کے بعد ملک کے عام لوگوں پر ضرور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان نے امریکی صدر کے درشت بیان کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور یہ بتا دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر صورت میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ اس حد تک بات نہ صرف درست اور جائز ہے بلکہ قابل فہم بھی ہے لیکن اس حوالے سے یہ سوال ضرور سر اٹھاتا ہے کہ پاکستان کی قربانیوں، کامیابیوں اور امن کے لئے مسلسل کوششوں کے باوجود امریکہ یا دنیا پاکستان کی ان کوششوں کو تسلیم کیوں نہیں کرتی۔ اور کیوں ہر تھوڑی مدت کے بعد پاکستانی لیڈروں کو اپنی نیک خواہشات اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہ خدمات دنیا کو ازخود دکھائی نہیں دیتیں۔ کیا امریکہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد کرنے کے لئے کس قدر بھاری مالی، جانی اور فوجی نقصان اٹھایا ہے۔
قریب ترین حلیف ہونے کے باوجود امریکہ کی طرف سے پاکستان پر تنقید سامنے آتی رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ لگ بھگ دو برس قبل برسر اقتدار آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح دنیا کے دوسرے ملکوں کے خلاف غیرذمہ دارانہ اور سخت لب و لہجہ میں بات کی ہے، اسی طرح پاکستان کو بھی تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں قیام امن کے لئے جو مطالبات موجودہ امریکی حکومت کررہی ہے، باراک اوباما کی سابقہ حکومت بھی ایسے ہی مطالبات کرتی رہی ہے۔ تاہم اس حکومت کا لب و لہجہ اور ناراضگی ظاہر کرنے کا طریقہ زیادہ سفارتی انداز لئے ہوئے تھا جبکہ ٹرمپ نے ان امریکی شکایات کو کھل کر نام نہاد ’عوامی یا مقبول‘ انداز میں بیان کرنا شروع کیا ہے۔
اوباما حکومت بھی پاکستان پر افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی، طالبان قیادت کو سہولتیں فراہم کرنے اور مذہبی انتہا پسند گروہوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ ٹرمپ حکومت بھی وہی مطالبے کررہی ہے۔ تب بھی ہمارا جواب وہی تھا جو ہم اب دیتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ان قربانیوں میں اہم ترین اس جنگ میں 70 سے 80 ہزار فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت ہے۔ لیکن حقیقت احوال یہی ہے کہ صرف صدر ٹرمپ ہی نہیں دنیا عام طور سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرنے والے ملک سے زیادہ دہشت گرد مزاج کی حوصلہ افزائی کرنے والی قوم کے طور پر جانتی ہے۔
اس کی ایک وجہ ضرور یہ ہو سکتی ہے کہ بھارتی حکومت مسلسل عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس سفارتی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا جواب تو حکومت پاکستان اور اس کے اہم ترین اداروں کو ہی دینا ہے۔ اسی صورت حال کی وجہ سے بھارت اور افغانستان کے خلاف پاکستان کے بعض جائز اور درست مطالبات کو بھی پذیرائی نصیب نہیں ہوتی۔ بلوچ قوم پرستوں کی مالی اور فوجی امداد یا افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کی پشت پناہی، ایسے دو معاملات ہیں جن میں پاکستان کا مؤقف درست اور جائز ہے لیکن دنیا کے دارالحکومتوں میں اس حوالے سے شنوائی نہیں ہوتی۔
وزیر اعظم عمران خان کا ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا جانے والا یہ مشورہ صائب ہے کہ وہ ناکام امریکی جنگ کے عوامل کا جائزہ لیں اور اس کا بوجھ پاکستان پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش نہ کریں لیکن اس سوال کا جواب تو پاکستان کو ہی تلاش کرنا ہے کہ دنیا اس کی جائز بات کیوں نہیں سنتی اور فناشل ایکشن ٹاسک فورس ۔ ایف اے ٹی ایف ہو یا اقوام متحدہ یا کوئی دوسرا عالمی فورم، پاکستان کے بارے میں بدگمانی کی فضا دکھائی دیتی ہے۔ نائن الیون کو اٹھارہ برس ہو گئے اور بقول وزیر اعظم پاکستان، ان حملوں میں ایک بھی پاکستانی شہری شامل نہیں تھا۔ لیکن دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کی بات کرتے ہوئے دنیا کے ہر حصے میں ہر کس و ناکس کی آنکھیں پاکستان ہی طرف اٹھتی ہیں۔
صدر ٹرمپ کے جس بیان پر پاکستان کے آرمی چیف اور وزیر اعظم چیں بجبیں ہو رہے ہیں، اس میں پاکستان پر تعاون نہ کرنے کا الزام لگانے کے علاوہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور اس کی ہلاکت کے مشن کے حوالے سے بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اسامہ بن لادن مئی 2011 میں ایبٹ آباد کی ایک عمارت میں ایک امریکی حملہ میں مارا گیا تھا۔ اب ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیڈروں کو پورا وقت اس کی موجودگی کا علم تھا۔ یعنی امریکہ کے مطلوب ترین دہشت گرد اور نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائینڈ کو پاکستان نے اپنی پناہ میں رکھا ہؤا تھا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ سابقہ امریکی حکومت نے اس پاکستانی مؤقف کو چیلنج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیوں کہ اس نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے اپنا ہدف حاصل کرلیا تھا اور وہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی تھی۔
ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات کے باوجود صورت حال اب بھی وہی ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل رابرٹ میننگ نے ایک پریس بریفنگ میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس طرح پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے پر غرّانے کے باوجود عملی طور سے ایک ہی بات کررہے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان اہم ہے اور پاک فوج کے سربراہ یقین دلاتے ہیں کہ ’ہم افغانستان میں قیام امن کے لئے کوشش کرتے رہیں گے‘۔
تاہم الزام تراشی کی زد پر آئے ہوئے پاکستانی عوام ضرور اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ پاکستان اسامہ بن لادن کی موجودگی اور ہلاکت کے مشن کے بارے میں تفصیلات عوام اور دنیا کو بتانے سے کیوں قاصر ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو خفیہ رکھا گیا ہے اور پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے ذمہ دار اداروں نے پاک سرزمین پر امریکی حملہ کو روکنے میں ناکامی پر نہ قوم سے معافی مانگی ہے اور نہ ہی اس کے کسی افسر پر اس ناکامی کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ پاک فوج پر بھروسہ کیا ہے۔ ملکی جمہوری نظام کو تاراج کرنے اور ملک کو دو لخت کروانے میں کردار ادا کرنے کے باوجود پاک فوج کو عزت و احترام دیا گیا اور اس کی قیادت پر اعتبار کیا گیا۔ لیکن جب پاک فوج اسامہ بن لادن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے الزامات پر خاموشی اختیار کرتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والے شبہات کا بوجھ بھی عوام ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں۔ دراصل یہی شدت پسندانہ مزاج ملک میں دہشت گردی کی قبولیت اور سرپرستی کرنے والے عناصر پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا درست دعویٰ کرنے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ ملک میں مذہب کے نام پر انتہا پسندی میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک نئی طرح کے مذہبی شدت پسند گروہ نے قوت حاصل کی ہے لیکن فوج اس کے ساتھ بھی شفقت کا رویہ اختیار کرتی ہے اور حکومت بھی اس کی بے ادائیوں کو نظر انداز کرنے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عام طور سے ججوں اور عدالت کی عزت کے معاملہ میں حساس چیف جسٹس بھی خادم رضوی اور افضل قادری کی دشنام طرازی پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
ملک میں اقلیتوں کو سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مذہبی شدت پسندی کا جواب دینے کے لئے خود مذہب کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنا کر ایک مقبول ایجنڈے پر عمل کرنے کا طریقہ شروع کیا ہے۔ آج اسلا م آباد میں دو روزہ عالمی رحمت العالمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا ہے کہ پاکستانی حکومت توہین مذاہب کے خلاف تمام ممالک کو ایک ڈیکلیریشن پر آمادہ کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ اس طرح وہ مذہب کو سیاسی منشور کا حصہ بنا کر مذہبی انتہا پسندی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن انتہا پسند عناصر کے خلاف بات کرنے یا اقلیتوں کو درپیش حالات کو تبدیل کرنے کے لئے کسی مؤثر حکمت عملی کا اعلان کرنے میں ناکام ہیں۔
آسیہ بی بی کے معاملہ میں حکومت نے مذہبی شدت پسندوں سے شکست قبول کرکے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ ملک میں عقیدہ اور فرقہ وارانہ منافرت کو روکنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اس مقصد کو نظر انداز کرنے والی حکومت کیوںکر دہشت گردی کے حوالے سے کسی مستقل کامیابی کی دعویدار ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جو لوگ پیغمبر اسلام ﷺ کے فلسفہ حیات کو سمجھنے میں ناکام ہیں، وہی عقیدے کے محافظ بن بیٹھےہیں۔ لیکن وہ ان عناصر کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف قومی مہم جوئی کا اعلان کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے برعکس وہ ڈینش سیاست دان گیرٹ وائیلڈرز کی طرف سے رسول پاک ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کے معاملہ کو اپنی حکومت کی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرکے ایسے مقبول ایجنڈے کو مستحکم کررہے ہیں جو انتہاپسندی میں اضافہ کا سبب بنے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہوسکتی کہ ’ پاکستان کا وقار اور اس کی سلامتی سرفہرست ہے‘۔ لیکن اس حوالے سے بعض چبھتے سوالوں کا دوٹوک جواب دینا ہوگا۔ اسی طرح مذہب کو مقبول سیاسی ایجنڈا بنانے کا طریقہ ترک کئے بغیر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف نہ تو پاکستان کی جنگ مکمل طور سے کامیاب ہو سکے گی اور نہ ہی دنیا اس کی قربانیوں کو تسلیم کرے گی۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ