تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سو دن پورے ہونے والے ہیں۔ عمران خان کے علاوہ حکومت اور پارٹی کی قیادت اس حوالے سے نت نئے دعوے ضرور کر رہے ہیں اور معیشت، سیاست اور خارجہ امور تک میں تبدیلی اور پیش رفت کے جائزے بھی سامنے لائے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم تمام وزارتوں سے پہلے ایک سو دن کی کارکردگی کی رپورٹ مانگ رہے ہیں۔ لیکن عملی طور نہ تو ایک سو دن حکمرانی کے لئے ایسی کوئی خاص مدت ہے اور نہ ہی پاکستان جیسے مسائل میں گھرے ملک میں تین چار ماہ کے مختصر عرصہ میں ان کا حل تلاش کرلینا ممکن ہو سکتا ہے۔
اس لئے حکومت اگر یہ سچ تسلیم کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں اور عوام کو بھی یہ بات باور کروانے کے کام کا آغاز کرسکے تو اسے بھی نئی حکومت کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے۔ جب مقبول سیاست کی بنیاد نعروں اور سیاسی مخالفین کو معتوب کرنے پر رکھی جائے تو غلطیوں کو تسلیم کرنا اور کمزوری کا اعتراف کرنا اہداف میں شامل نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے مقبول سیاست کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے اور لیڈر کسی غیرمرئی مخلوق سے عام انسان کے درجے پر اتر آتا ہے۔
ہماری سیاست میں عمران خان جیسے لیڈروں نے یہ نیا معیار قائم کیا ہے کہ اس قوم کا رہنما کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔ اسے ایسا انسان ہونا چاہیے جو ناممکنات کو ممکن بنا سکے۔ اسی لئے عمران خان خود اپنی امیج بلڈنگ کرتے ہوئے یا سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور سے خیال رکھتے ہیں کہ یہ بتایا جاسکے کہ عمران خان غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل غیر معمولی انسان ہیں جبکہ ان کے مخالفین عام سوچ رکھنے والے معمولی لوگ ہیں جو صرف کرپشن کرنے اور ملکی دولت لوٹنے کے ہتھکنڈے تلاش کرنے میں مصروف رہے ہیں۔
پروپیگنڈے کی اس جنگ میں عمران خان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں جو کہانیاں از بر کروائی گئی ہیں، انہیں بیان کرتے ہوئے یہ باور کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی جاتی کہ کوئی ہسپتال بنا لینا یا یونیورسٹی کے منصوبے کا آغاز کرنا یا کرکٹ میں کامیابی حاصل کرلینا کسی ملک کو چلانے سے مختلف معاملات ہیں۔ عمران خان کو بطور کرکٹر چونکہ قومی ہیرو کا درجہ حاصل رہا ہے، اس لئے ان کی اس حیثیت کو نہ صرف انتخابی مہم کے دوران بلکہ اب بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے میں بطور کرکٹر ان کی ناکامیوں کا ایک بھی واقعہ دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی البتہ 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کا قصہ رومانوی جوش و خروش سے ازبر کروانے کا کام پورے صدق دل سے کیا جارہا ہے۔
کچھ یہی صورت حال شوکت خانم اسپتال کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ا س منصوبہ کے مالی وسائل کے لئے عمران خان نے بطور کرکٹر اپنے قومی ہیرو کے اسٹیٹس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان ہی نہیں بالی وڈ کے اسٹارز کے تعاون سے دنیا بھر میں کامیاب چندہ مہمات چلائی تھیں۔ تارکین وطن نے اپنے ملک میں کینسر اسپتال قائم کرنے کے لئے دل کھول کر چندے بھی دیے تھے۔ لیکن عمران خان اب تک یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ 21 کروڑ آبادی کا ملک چلانا کسی ماڈرن کینسر اسپتال قائم کرنے اور چلانے سے مختلف کام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے شوکت خانم کے منصوبہ کو رہنما اصول بناتے ہوئے قوم سے خطاب میں چیف جسٹس کے قائم کردہ ’ڈیم فنڈ‘ کو وزیر اعظم فنڈ میں تبدیل کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ایک ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے اس فنڈ میں عطیہ جمع کروائیں۔ تاکہ فوری طور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہو سکے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے عمران خان کے ذہن میں شوکت خانم اسپتال کی چندہ مہم ہی ہوگی۔
انہیں یقین تھا کہ ان کی ایک اپیل پر تارکین وطن پاکستانی اپنے بنک اکاؤنٹس سے دھڑا دھڑ رقوم پاکستان روانہ کرنا شروع کردیں گے۔ اس کے دو فوائد کا تخمینہ پیش از وقت لگا لیا گیا تھا۔ ایک یہ کہ دنیا میں مقیم 75 لاکھ پاکستانی جب وزیر اعظم کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے ایک ہزار ڈالر فی کس جمع کروائیں گے تو ساڑھے سات ارب ڈالر تو فوری طور پر قومی خزانے میں آ جائیں گے۔ یعنی ایک تو دیامر بھاشا ڈیم کی کل لاگت کا نصف فوری طور پر جمع ہوجائے گا تو دوسری طرف کسی مشکل کے بغیر زرمبادلہ کی کمی سے نمٹ لیا جائے گا اور دوست ملکوں یا آئی ایم ایف کی محتاجی بھی نہیں رہے گی۔
وزیر اعظم کا یہ اندازہ کچھ اس طرح غلط ثابت ہؤا کہ سو دن کی مہم جوئی کے دوران جس قدر ڈالروں کی امید کی جارہی تھی اس کے مساوی روپے بھی بمشکل جمع ہوسکے ہیں۔ اس میں بھی صرف بیرون ملک پاکستانیوں کا کمال نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ نے مقدمات میں جرمانے کرتے ہوئے افراد اور کمپنیوں کو یہ رقوم ’ڈیم فنڈ‘ میں جمع کروانے کی جو نیک مہم شروع کی ہوئی ہے، اس نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کیا ہے۔ دو روز پہلے تک اس فنڈ میں اب تک جمع ہونے والی کل رقم 8 ارب روپے سے کم ہی تھی۔
اس ڈیم کی کل لاگت کا تخمینہ پندرہ ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ کے ججوں کی محنت اور حکومت کے علاوہ تمام سفارت خانوں کی کوششوں کے باوجود جو رقم جمع کی جاسکی ہے وہ کل لاگت کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود حکومت یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس منصوبہ کی ناکامی کو قبول کرنے کی بجائے اس مہم جوئی کو قومی وقار میں اضافہ کا موجب قرار دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا ڈیم فنڈ جمع کرنے کے لئے برطانیہ کا دورہ اسی مقبول گمان کو راسخ کرنے کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے۔
ایسے میں یہ جاننا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا کہ بھاشا ڈیم بنانا ایک طویل المدت منصوبہ ہے جس کے لئے رقم کی فراہمی کے علاوہ سفارتی اور آئینی مشکلات کو حل کرنا بھی ضروری ہوگا۔ نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا میں پانی کی کمی کے لئے بڑے ڈیم بنانے کو ماحولیاتی اعتبار سے مہلک قرار دیاجارہا ہے اور ان منصوبوں کے متبادل پر غور کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس بھی کسی سیاست دان کی طرح پاپولر فیصلوں اور اعلانات پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لئے اب انہوں نے ڈیم بنانے کے علاوہ آبادی پر کنٹرول کے منصوبہ کا اعلان کیا ہے اور غیر شادی شدہ لوگوں کو مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ شادی ہونے کی صورت میں دو بچوں سے زیادہ پیدا کرنے کی کو شش نہ کریں۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں سپریم کورٹ میں آبادی میں کمی کے حوالے سے ایک کانفرنس بھی منعقد ہوگی جس میں چیف جسٹس کے علاوہ وزیر اعظم بھی شریک ہوں گے۔
گویا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کے سربراہ ایک بار پھر یہ اعتراف و اعلان کریں گے کہ قومی منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کی ذمہ داری حکومت پر نہیں بلکہ سپریم کورٹ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ حکومت تو کسی اچھے بچے کی طرح اس کے بنائے ہوئے منصوبوں پر عمل کرکے انہیں کامیاب کروانے کی کوشش ہی کرسکتی ہے۔ لہذا ڈیم فنڈ کو وزیر اعظم فنڈ کہنے کے بعد اب آبادی کنٹرول منصوبہ میں سپریم کورٹ کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کی حکومت اب تک خارجہ پالیسی میں جس سب سے بڑی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ سکتے ہیں، وہ بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی عطا کردہ ہے۔ انہوں نے اگست میں عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے آئے ہوئے بھارتی پنجاب کے وزیر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سے ملاقات کے دوران بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کے موقع پر گردوارہ دربار صاحب کرتار پور تک سکھ زائرین کی رسائی کے لئے سرحد کھولنے کی پیش کش کی تھی۔
بھارتی حکومت نے بہت رد و کد کے بعد دو روز قبل اس پیش کش کو قبول کرلیا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھارتی ہم منصب سشما سوراج کو یہ راستہ کھولنے کی سہولتوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کو ختم کیا جاسکے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے البتہ یہ دعوت قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے بعض جونئیر وزیروں کو بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی اسے بھی پاکستانی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ کرتار پورا منصوبہ پر ہونے والی پیش رفت اگر دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے کوئی سفارتی کامیابی ہے تو اس کا کریڈٹ تو آرمی چیف کو جاتا ہے جنہوں نے ایک وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے موقع پر یہ پیشکش کرکے اس سفارتی بریک تھرو کا امکان پیدا کیا تھا۔ منتخب حکومت یا نمائندوں کا اس سفارتی مہم جوئی میں کوئی کردار نہیں ہے۔ بلکہ منتخب لیڈر تو ایسا وعدہ کرنے کی صورت میں ملک دشمنی کا خطاب پا سکتا ہے۔
عمران خان اور ان کے ساتھی اقتدار میں سو دن مکمل ہونے پر کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اگر صرف یہ غور کرنے کی زحمت ہی کرسکیں کہ ملک میں پارلیمنٹ اور حکومت کا کیا کردار ہے۔ کیا فوج کو خارجہ اور سپریم کورٹ کو قومی منصوبوں کی باگ ڈور سونپ کر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اپنی سیاسی و سفارتی کامیابیوں کا اعلان کرسکتی ہے۔ کیا ملک میں جمہوریت اور نظم حکومت کے لئے یہ اچھی خبر ہے کہ حکومت کے کرنے کے اہم کام وہ ادارے کررہے ہیں جن کے پاس ان کاموں کا آئینی اختیار ہی نہیں ہے۔ البتہ حکومت اس پر تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے ہم آہنگی کے نام پر جوش و خروش سے ان کی تکمیل میں حصہ دار بننا ضروری سمجھتی ہے۔ اگر یہی جمہوریت ہے اور اسی اختیار کے لئے عمران خان نے بائیس برس سیاسی جد و جہد کی تھی توپھر ملک میں انتخاب کا ڈھونگ کرنے اور پارلیمنٹ کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت ہے۔
اسی دوران ورلڈ اکنامک فورم نے جنوبی ایشیائی ملکوں میں سرمایہ کاری کے مسائل سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں پانی کے بحران کے علاوہ افراط زر، دہشت گردی، شہری منصوبہ بندی میں ناکامی اور ناقص انفرا اسٹرکچر کو بنیادی وجوہ میں شامل کیا گیاہے۔ عمران خان کی حکومت ان میں سے کسی بھی مسئلہ کے بارے میں کسی منصوبہ کا آغاز نہیں کرسکی۔ عمران خان بدعنوانی کو تمام اقتصادی اور سیاسی مسائل کی جڑ قرار دے کر اس کے حل کے لئے اپنے سیاسی گرو مہاتیرمحمد سے ملنے کوالالمپور کا دورہ کرکے آئے ہیں۔ تاہم ملکی مبصرین کے علاوہ عالمی اکنامک فورم بھی اس مسئلہ کو پاکستان کی مالی مشکلات کے حوالے سے بنیاد نہیں مانتا۔ اس طرح بدعنوانی کے خلاف عمران خان کی مہم جوئی قومی معاشی احیا کا موجب بننے کی بجائے سیاسی انتقام کی شکل اختیار کررہی ہے۔
وزیر اعظم اپنی حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی کے حوالے سے پبلک ریلیشننگ کے نئے پہلو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں اگر وہ تھوڑا وقت نکال کر یہ غور بھی کرسکیں کہ عوام نے ووٹ دیتے ہوئے ان سے کیا امیدیں باندھی تھیں تو شاید وہ کارکردگی کے سراب سے باہر نکل کر یہ جان پائیں کہ ان کی حکومت کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں دھرے۔ عوام کا دیا گیا اعتبار پورا کرنے کے لئے سیاسی اختیار کی کوشش کیے بغیر کسی قومی منصوبہ کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکتی۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ