شام سے امریکی فوج نکالنے کے اچانک اعلان کے بعد اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے نصف امریکی فوجی واپس بلانے کا حکم دیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق اس بارے میں زبانی حکم دے دیا گیا ہے تاکہ پینٹاگون فوجیوں کی واپسی کے لئے انتظامات کا آغاز کرسکے۔ اس بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری اعلان سامنے نہ آنے کی وجہ سے مسلسل غیر یقینی کی کیفیت تو موجود ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم کے بعد افغانستان سے نصف کے لگ بھگ امریکی فوج کی واپسی چند ہفتے سے چند ماہ کے دوران مکمل ہو سکتی ہے۔
صدرٹرمپ کا یہ اعلان اگرچہ ان کے انتخابی منشور کے مطابق ہے جس میں وہ بیرون ملک امریکی فوجوں کے قیام کے خلاف بات کرتے رہے ہیں۔ لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے اس پالیسی میں تبدیلی کی تھی اور ان کے معاونین انہیں شام فوجی موجودگی کے علاوہ افغانستان میں امریکی فوج کی قوت میں اضافہ کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ تاہم اپنے ٹویٹ پیغامات کے ذریعے دو روز قبل شام سے دو ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی کے اچانک اعلان سے صدر ٹرمپ نے دنیا کے علاوہ اپنے قریب ترین معتمدین کو بھی حیران کردیا تھا۔
ماہرین اس فیصلہ کے نتیجہ میں شام کے علاوہ مشرق وسطیٰ پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ فیصلہ اپنی ہی حکومت کے اہم ارکان کے مشورہ اور رائے سے اس قدر متصادم تھا کہ گزشتہ روز وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا۔ صدرکے نام اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ حلیفوں اور دشمنوں کے بارے میں ان کی اور صدر کی رائے میں بہت فرق ہے جس کی وجہ سے وہ موجودہ صدر کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔
اب افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد نصف کرنے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ اس معاملہ پر امریکی قیادت میں شدید اختلافات دیکھنے میں آئیں گے لیکن صدر ٹرمپ خارجہ اور سیکورٹی کے معاملہ میں خود کو عقل کل سمجھ کر حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار بلاشرکت غیرے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اب اس کا ڈرامائی طور سے مظاہرہ بھی کیا گیا ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ نے چھے ماہ انتظار کے بعد افغانستان کے بارے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر سخت تنقید کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں مکمل کامیابی کے بغیر وہاں سے نہیں نکلے گا۔ اس کے ساتھ ہی مزید تین ہزار فوجی بھی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس طرح اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اب اسے نصف کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
تازہ فیصلہ سولہ ماہ پہلے اعلان کردہ پالیسی سے قطعی طور سے مختلف ہے کیوں کہ فوجی نفری میں اچانک کمی کے بعد وہاں موجود امریکی فوج، طالبان کے خلاف مزاحمت کے علاوہ افغان فوجوں کی تربیت کے منصوبوں پر پوری طرح عمل کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ حال ہی میں طالبان کے نمائیندوں کے ساتھ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے براہ راست مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ جس وقت افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا حکم دینے کی خبریں سامنے آرہی تھیں عین اس وقت زلمے خلیل زاد امن کے بارے میں طالبان کی نیت پر شبہات کا اظہار کررہے تھے۔ میڈیاسے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان نے جس طرح افغان حکومت کے نمائیندوں سے براہ راست بات کرنے سے گریز کیا ہے، اس سے ان کے ارادوں کے بارے میں شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
سفارتی نمائیندوں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز پر ہی امریکی فوجوں کی واپسی کا فیصلہ طالبان کے حوصلوں میں اضافہ کرے گا اور امن مذاکرات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ طالبان کا بنیادی موقف یہی رہا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے امن کی کوششیں ڈھونگ ہیں۔ پاکستان کی کوششوں سے گزشتہ دنوں افغان طالبان امریکی نمائیندے سے براہ راست بات چیت پر آمادہ ہوگئے تھے جسے پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا تھا۔ ابوظہبی میں ہونے والے ان مذاکرات میں پاکستان اور سعودی عرب کے نمائیندے بھی شریک ہوئے تھے۔ افغان حکومت نے بھی کسی سطح پر مذاکرات میں شاملکیے جانے کی امید پر ایک 12 رکنی وفد ابوظہبی بھیجا تھا لیکن طالبان نے افغان حکومت کے نمائیندوں سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس مرحلہ پر امریکی فوجوں کی واپسی کے اعلان کو طالبان اپنی کامیابی تصور کریں گے۔ اس لئے امریکہ اگر نصف فوجی افغانستان سے واپس بلا لیتا ہے تو طالبان بات چیت کو آگے بڑھانے کی بجائے ’مزید انتظار کرو‘ کی حکمت عملی اختیار کریں گے۔ اس فیصلہ سے انہیں یقین ہو جائے گا کہ ٹرمپ بہر صورت افغانستان سے فوجیں واپس بلائیں گے اس لئے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب امریکی فوج ملک سے نکل جائے۔ تب کابل میں موجود حکومت کے ساتھ بات چیت میں زیادہ رعایات حاصل کرنا آسان ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خط آنے کے بعد طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے کی امریکی پالیسی کو سراہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ امریکی فوجوں کو امن کا راستہ ہموار ہونے اور افغانستان کے حالات مستحکم ہونے تک وہاں سے فوج واپس نہیں بلانی چاہیے۔ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے معاونین اور پینٹاگان کے نمائیندوں کا بھی یہی موقف ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے اچانک انخلا سے امن کی رہی سہی امید بھی دم توڑنے لگے گی۔
اگرچہ افغان فوج کے نمائندے نے امریکی فوجوں کی جزوی واپسی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ افغان فورسز باصلاحیت ہیں اور وہ صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تاہم صدر اشرف غنی کی حکومت کی طرف سے ان خبروں پر رائے دینے سے گریز کیا کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کابل حکومت کے لئے بھی صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ اچانک اور ناقابل قبول ہے۔
اسی طرح شام سے دو ہزار امریکی فوج نکالنے کے فیصلہ پر اکثر امریکی ماہرین کو شدید تشویش ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح روس اور ایران کے لئے شام میں من مانی کرنے کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ اعلان دراصل داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کھل کر ساتھ دینے والے شامی کردوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ہے۔ ترکی ان کے خلاف سرگرم ہے اور اپنی سرحدوں کے ساتھ شامی علاقوں میں کرد فورسز کی قوت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
جبکہ کرد ملیشیا ان علاقوں میں دسترس کی وجہ سے شام سے خود مختاری حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ امریکی فوج کے نکلنے کے بعد کرد ایک طرف شامی فوج کے نشانے پر ہوں گے تو دوسری طرف ترک فوج ان کی ق کمر توڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گی۔ یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی فوجوں کی عدم موجودگی میں ترکی اور شام کی فوجوں کے براہ راست تصادم کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔
دنیا پر اپنی فوجی قوت کی بنیاد پر دہشت طاری کرنے کی امریکی پالیسی ناقابل قبول اور غلط ہے۔ اسے کسی بھی دور میں قابل برداشت نہیں سمجھا گیا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ کی شخصیت اور طرز حکومت پر باتکیے بغیر بھی اسے مثبت فیصلہ کہا جائے گا۔ تاہم صدر ٹرمپ کے فیصلہ کو امریکہ کے داخلی معاملات اور دوسرے ملکوں میں اس کی پیدا کردہ صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ صدر ٹرمپ امریکی استعماریت سے گریز کی پالیسی اختیار نہیں کررہے بلکہ وہ ان فیصلوں سے اپنے ان انتہا پسند ووٹروں کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں جو میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا وعدہ پورا نہ ہونے سے ناراض ہیں اور صدر ٹرمپ کے خلاف سامنے آنے والے نت نئے اسکینڈلز سے دل برداشتہ ہیں۔
صدر ٹرمپ ان اعلانات سے مباحث کا فوکس اپنی ذات کی بجائے مریکہ کی سلامتی اور عسکری پالیسیوں کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے خلاف نہ صرف انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملہ میں تحقیقات ہورہی ہیں بلکہ یہ شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے متعدد وفاقی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس سلسلہ میں ان کے کئی معاونین کو سزا دی جاچکی ہے۔
شام یا افغانستان میں خانہ جنگی امریکی مداخلت اور غلط فیصلوں کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ اگر وہ ان تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی راہ ہموارکیے بغیر ان سے علاقوں سے دست کش ہو گا تو اس سے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو گی جو ان خطوں کے عوام کے لئے آنے والے کئی برسوں تک جنگ اور مصائب کا پیغام ہو سکتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ کا فیصلہ دراصل ذمہ داری سے گریز اور ان خطوں کے عوام کی بہبود سے لاتعلقی کا اعلان ہے۔
پہلی افغان جنگ کے بعد افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد بھی امریکہ نے اچانک اس معاملہ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ سے افغانستان کئی برس تک شدید خانہ جنگی کا شکار رہا پھر طالبان نے اپنی حکومت قائم کی۔ یہ حکمرانی نائن الیون کے حملوں کے بعد ہی ختم ہوسکی تھی۔ اب بھی افغانستان سے کسی معاہدہ اور مناسب انتظام کے بغیر امریکی فوجوں کی واپسی سے جو خلا پیدا ہوگا، علاقے کی کوئی قوت میں اسے پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس کے نتیجہ میں مزید تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔
پاکستان پر اس امریکی فیصلہ کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ حکومت اور فوج یہ اقرار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امن پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ لیکن امریکہ نے اگر ایک بار پھر افغانستان میں اپنی ذمہ داری پوریکیے بغیر میدان چھوڑ دیا تو وہاں پیدا ہونے والا بحران پاکستان کے حالات پر بھی اثر انداز ہوگا۔ ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قیادت اس نئی صورت حال میں غلطیاں کرنے اور ٹھوکر کھانے کو ایک بار پھر قومی سلامتی کا تحفظ قرار دے گی۔ ماضی میں کی گئی غلطیاں دہرانے سے مسائل کی شدت دوچند ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کہ گزشتہ پندرہ برس کے دوران بھارت نے افغانستان میں اپنے پاو?ں جمائے ہیں اور پاکستان نے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تصادم میں اضافہ کیا ہے۔
اس پس منظر میں افغانستان سے امر یکی فوجوں کی اچانک واپسی پاکستانی عوام کے امن و بہبود کے حوالے سے اچھی خبر نہیں ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ