پاک فوج کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کتنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بیک وقت تصادم اور جنگ کی صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ اسے یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس کے ترجمان جب میڈیا سے گفتگو یا مواصلت کرتے ہیں تو انہیں کون سی معلومات کس طرح فراہم کرنی چاہئیں۔ اس وقت پاکستان بیک وقت تین ہمسایہ ملکوں کے ساتھ سرحدی تنازعہ میں ملوث ہے اور تینوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان سے دہشت گرد ان کے علاقوں میں حملے کرنے کےلئے جاتے ہیں یا پاکستانی علاقے سے دور مار کرنے والے ہتھیاروں سے سرحدی محافظوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر صرف پاکستانی فوج ہی درست موقف بیان کرتی ہے اور اس کی تشہیر کرتی ہے اور باقی تینوں ملک جھوٹ بولتے ہیں تو بھی فوجی قیادت کےلئے یہ امر تشویش کا سبب ہونا چاہئے کہ اس کے تین ہمسایہ ملک پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے اس سے بدظن ہیں۔ لیکن پاکستان ان شکایات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ پاکستانی فوج کی صلاحیتوں پر شبہ کئے بغیر یہ باور کرنا ضروری ہے کہ کوئی فوج خواہ کتنی ہی باصلاحیت اور طاقتور ہو، اس کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور وہ بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ نہیں کر سکتی۔ پاکستان اور اس کے عوام کےلئے صرف یہ بات باعث اطمینان نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے، اس لئے ہر ہمسایہ ملک کو اس سے خوفزدہ رہنا چاہئے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ اور نامناسب رویہ ہوگا۔ دنیا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الریاستی تعلقات کےلئے جو قواعد وضع کئے ہیں، یہ طرز عمل ان کی بھی خلاف ورزی ہوگا۔
پاکستان کی فوج کو یہ یاد دہانی کروانے کی ضرورت دو وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ فوج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ سرحدی معاملات ہوں، سکیورٹی امور ہوں یا خارجہ تعلقات، بہرصورت اسے ہی فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا حق حاصل ہے۔ سول حکومت اور ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو بوجوہ ان معاملات میں جزو معطل بنا دیا گیا ہے۔ دوسرے فوج کی پروپیگنڈا مشینری نے میڈیا کے ذریعے اپنے اس موقف اور کردار کو واضح کرتے ہوئے عام لوگوں کے دلوں میں بھی راسخ کر دیا ہے۔ ملک میں جمہوریت اور منتخب حکومت کے اختیار کا معاملہ اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی قومی سلامتی کے حوالے سے فوج سے یہ ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس نے علاقے میں اپنے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضی اور اختیار کی گئی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی صورتحال کو نوٹ کیا ہے اور اس بارے میں وہ اپنی حکمت عملی اور میڈیا اسٹریٹجی میں کیا تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملکوں کی سرحدوں پر مسلح افواج ہی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں فوج کے اقدامات پر سول حکومتوں کو کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور فوجی قیادت سرحدوں پر کسی بھی غیر معمولی صورتحال کی اطلاع فوری طور پر حکومت کو فراہم کرتے ہوئے اس سے رہنمائی اور ہدایات وصول کرتی ہے۔ اس لئے دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں امریکی افواج تعینات ہیں اور وہ مختلف قسم کی مشقوں اور سرگرمیوں میں ملوث رہتی ہیں لیکن ان کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ سول حکومت کو فراہم ہوتی ہے اور سول قیادت ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس وقت کیا بات دنیا کے سامنے کہی جائے گی۔
مئی 2011 میں جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کےلئے آپریشن کیا گیا تھا تو صدر باراک اوباما اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ واشنگٹن میں براہ راست اس فوجی کارروائی کو لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھ رہے تھے۔ صدر اوباما نے ہی قوم سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی خبر دی تھی۔ اس کا اعلان کسی کمانڈر ، جنرل یا آپریشن لیڈر نے نہیں کیا تھا۔ دنیا کے سب سے بڑی فوجی اتحاد نیٹو میں 28 ملک شامل ہیں۔ لیکن اس کی نگرانی ایک سول سیکریٹریٹ کرتا ہے جس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر رکن ملکوں کا کوئی سابق سیاستدان متعین ہوتا ہے۔ اس وقت ناروے کے سابق وزیراعظم ینس ستولتن برگ JENS STOLTENBERG اس عہدہ پر فائز ہیں۔ بلاشبہ فوجی کمانڈر اس سیکرٹریٹ کی اعانت کرتے ہیں لیکن تمام فیصلے رکن ملکوں کی سیاسی قیادت کے مشورہ سے سول رہنما ہی کرتے ہیں۔ اسی طرح پالیسی سازی کے معاملات یا افواج تعینات کرنے کے فیصلے بھی سول قیادت ہی کرتی ہے۔ فوجی لیڈر ان فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں۔ اس مسلمہ طریقہ کار کے برعکس پاکستان میں عسکری معاملات میں فوج نے خود کو ’’مادر پدر آزاد‘‘ کر لیا ہے۔ یعنی وہ بظاہر تو وزیر دفاع کی نگرانی میں چلنے والی ایک وزارت دفاع کے تحت کام کرنے والا ادارہ ہے لیکن تمام فیصلے اور پالیسیاں جی ایچ کیو میں آرمی چیف کی نگرانی میں طے پاتی ہیں اور ان پر عملدرآمد سے پہلے سول حکومت کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ملک میں ’’حب الوطنی‘‘ اور پاک فوج سے عقیدت و محبت کی ایسی فضا پیدا کر دی گئی ہے کہ کوئی مبصر یا سیاستدان فوج کی اس کج روی پر انگلی اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ لائن آف کنٹرول کے معاملات ہوں، افغانستان کے ساتھ سرحدوں کی صورتحال ہو یا ایران کے بارڈر پر پیش آنے والے سانحات ۔۔۔۔۔۔۔ فوج ہی ان کے بارے میں فیصلے کرتی ہے اور اپنی صوابدید کے مطابق ان پر عمل کرتی ہے۔
یہ رویہ صرف اس حد تک نہیں ہے کہ فوج سرحدی معاملات پر عسکری فیصلے کرنے میں خود کو باصلاحیت اور خود مختار سمجھتی ہے بلکہ ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور گفتگو کرنے کا حق بھی فوج نے اپنے نام محفوظ کروا لیا ہے۔ ایسے میں ملک کے اصل حکمران ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی کسی سنسنی خیزی میں اتنے ہی لاعلم یا باخبر ہوتے ہیں جتنا اس ملک کا عام شہری۔ فوج کے ترجمان جب اور جس قدر مناسب سمجھتے ہیں معلومات فراہم کرتے ہیں اور اسی سوال کا جواب دیتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی حیثیت اور پوزیشن کو مستحکم کر سکیں۔ فوج کے ترجمانوں کی ایک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ آئی ایس پی آر کے مشہور زمانہ ٹویٹ کی صورت میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ہو چکا ہے۔ کل انسپکٹر جنرل ایف سی بلوچستان نے اس کا دوسرا مظاہرہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے افغان فوج کی طرف سے چمن کے سرحدی دیہات پر حملہ کا انتقام لینے کےلئے جوابی کارروائی کی ہے اور 50 افغان فوجی ہلاک اور 100 زخمی کر دیئے ہیں۔ انہوں نے 4 افغان سرحدی چوکیاں تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔ انہوں نے یہ معلومات فراہم کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ یہ کارروائی کب اور کیسے کی گئی۔ اور اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ جمعہ کو افغان سرحدی فوج نے مردم شماری کی نگرانی کرنے والے فوجی دستے پر حملہ کرکے 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں فوجی بھی شامل تھے۔ البتہ اس معاملہ پر افغانستان کی طرف سے غلطی کے اعتراف اور طرفین میں گفت و شنید شروع ہونے کے باوجود انتقامی کارروائی کا فیصلہ کیوں کیا گیا اور اس کی کیا ضرورت تھی۔ اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔
البتہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر ذخیل وال نے آج اس سوال کا جواب یہ کہہ کر دیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور پاکستان کے ساتھ جھڑپ میں دونوں طرف کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں 2 افغان فوجی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر باہمی تعلقات کو خوشگوار کرنا مطلب ہو تو دو ہلاکتیں بھی زیادہ ہیں۔ فوج کی طرف سے افغان سفیر کے تبصرے کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ لیکن یہ پوچھنا تو پڑے گا کہ ایک طرف افغانستان کے ساتھ مصالحت اور دوستی بحال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اس کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور ایک میجر جنرل کی طرف سے دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ فوج کے ترجمان جوش خطابت میں ایسے بیان جاری کرتے ہیں جو اشتعال انگیز تو ہوتے ہیں لیکن فوج کی اصل پالیسی کی عکاسی نہیں کرتے۔ کیونکہ افغانستان کے حوالے سے میجر جنرل ندیم انجم نے کل جو گفتگو کی، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ جی ایچ کیو نے افغانستان کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آج ہی ایران نے ایک بار پھر پاکستان کو اس کے علاقے سے اپنے سرحدی گارڈز پر حملوں کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔ ایرانی افواج کے سربراہ جنرل محمد بقری نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اگر پاکستانی علاقوں سے ایران کے سرحدی محافظوں پر حملے بند نہ ہوئے اور پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایرانی فوج پاکستانی علاقے میں جا کر ان عناصر اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرے گی۔ اسی قسم کی وارننگ بھارت دیتا رہتا ہے تاہم اسے دشمن ملک ہونے کے ناطے ہمیشہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ یہ گیدڑ بھبھکیاں ہیں۔ افغانستان کو بھی پاکستان سے یہی شکایت ہے کہ اس کے علاقوں سے دہشت گرد افغانستان جا کر حملے کرتے ہیں۔ امریکہ کا بھی یہی موقف ہے اور وہ ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے کےلئے عرصہ تک پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا رہا ہے اور اشاروں کنایوں میں سخت اقدام کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔
سوال تو یہ ہے کہ آخر پاکستان کے تین ہمسایہ ملکوں کو ایک ہی جیسی شکایات کیوں ہیں اور پاکستان ان کا سدباب کرنے میں کیوں ناکام ہے۔ اس سوال کا جواب دینا پاک فوج پر لازم ہے کیونکہ ان سوالوں کی گونج سے ملک کی سلامتی اور اس کے باشندوں کی بہبود وابستہ ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ