سفید کرتا پاجامہ ، سفید بال اور ہاتھ میں کپڑے کا ایک چھوٹا سا سفید تھیلا۔ اسلم یوسفی عزیز ہوٹل کی طرف سے آتے ، صدر بازار میں داخل ہوتے اور ٹہلتے ہوئے حزیں صدیقی کی بیٹھک کی طرف چلے جاتے۔ یہ ان کا معمول تھا اور جب تک حزیں صاحب کی بیٹھک صدربازار میں موجود رہی اسلم یوسفی کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ایک خاص وقت پر بازار سے گزرتے تھے۔ کبھی دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اور کبھی سوچوں میں گم۔ یوسفی صاحب ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی ”میسکو‘‘ (اب میپکو) کی بل برانچ میں کام کرتے تھے۔ کمپیوٹر کا دور نہیں آیا تھا اور بجلی کے بل ان دنوں ہاتھ سے بنا کرتے تھے۔ اب تو کمپیوٹر بلنگ میں بھی ردوبدل ہوجاتی ہے ، جب بل ہاتھ سے بنتے تھے ان دنوں رد و بدل کرنا کتنا آسان ہوگا۔ اس بل برانچ میں بھی بہت کچھ ہوتا تھا۔ اسلم یوسفی چاہتے تو بہت سے مالی مفادات حاصل کر سکتے تھے مگر وہ اول و آخر شاعر تھے۔ ایک جینوئن شاعر۔ اور جینوئن شاعر کبھی کرپٹ نہیں ہوتا۔ اسلم یوسفی ایک فرض شناس کارکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہم جب بھی انہیں ملنے گئے انہیں اپنی سیٹ پر ہی پایا۔ روایتی اہلکاروں کی طرح وہ حاضری لگا کر سیٹ سے غائب نہ ہوا کرتے تھے۔ ملاقاتیوں کے ساتھ چند منٹ گفتگو کرتے ،اس دوران ان کیلئے چائے منگواتے اور خود دفتری کام میں مصروف ہو جاتے۔ ملاقاتی خود سمجھ جاتا کہ یوسفی صاحب کا کام کا حرج ہو رہا ہے۔ اسلم یوسفی کی ادبی سرگرمیاں صرف حزیں صدیقی کی بیٹھک تک محدود تھیں۔بیٹھک میں منعقد ہونے والے طرحی مشاعروں اور نشستوں میں شرکت کرتے۔ شہر کی تقریبات میں وہ کم ہی جاتے تھے۔ گوشہ نشینی کی ایک وجہ ان کی اہلیہ کی علالت بھی تھی۔ اسلم یوسفی کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ صرف ایک بیٹی تھی جس کی پیدائش کے بعد ان کی اہلیہ علیل ہوگئیں۔ اہلیہ کی مسلسل علالت کے باعث اسلم یوسفی ان کی دیکھ بھال کیلئے زیادہ وقت گھر پر ہی گزارتے تھے۔ کبھی کبھار تقریبات میں چلے بھی جاتے تو ان کا دھیان گھر کی طرف ہی لگا رہتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اور خود ان کی اہلیہ نے بھی انہیں دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر اسلم یوسفی اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمر بھر ساتھ رہنے کا عہد کرنے والے کو یہ عہد نبھانا بھی چاہے۔ اسلم یوسفی نے اپنی بیگم کے ساتھ کیا ہوا عہد مرتے دم تک نبھایا۔
وہ وضعدار بھی تھے اور خوددار بھی۔ ان دو خوبیوں کا کسی کے ہاں یکجا ہوجانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے وضعدار بھی دیکھے کہ خودداری کبھی جن کے پاس سے ہو کر بھی نہیں گزری اور جو خوددار ہوتے ہیں ان کیلئے وضعداری کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ مگر اسلم یوسفی کے ہاں یہ دونوں خوبیاں موجود تھیں۔ تقریبات میں تو ہم بتا چکے ہیں کہ وہ کم ہی جایا کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اخبارات و رسائل میں بھی غزلیں بھیجنے سے گریز کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ میں طلب کئے بغیر کسی مدیر کو اپنی غزلیں نہیں بھیج سکتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا بہت سا کلام اشاعت کے مراحل طے نہ کرسکا۔ 1985-86ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد جب ان کی دفتری مصروفیات کم ہوئیں تو دوستوں کے اصرار پر انہوں نے اپنی غزلیں اخبارات و رسائل میں چھپوانے پر بھی توجہ دی۔ اس دور میں ان کی تحریریں بہت سے رسائل میں شائع ہوئیں۔ اُسی زمانے میں انہوں نے بہت سے خطوط بھی تحریر کئے۔ وہ اپنا فارغ وقت خطوط نویسی میں گزارتے تھے۔ مختلف ادیبوں ، شاعروں کو انہوں نے طویل خطوط تحریر کئے۔ اسلم یوسفی کے یہ خطوط انشاء پردازی کی ایک عمدہ مثال ہیں۔اگر وہ نثر نگاری پر توجہ دیتے تو بہت خوب لکھتے۔ ان کا منفرد اسلوب تھا۔ وہ خطوط میں شہر کی تقریبات اور روزمرہ مصروفیات کا بہت تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے تھے۔ ان کے ان خطوط میں شہر کی بہت سی ادبی سرگرمیوں کا احوال موجود ہے۔لوگوں کے بعض رویے اسلم یوسفی کو آزردہ کر دیتے تو وہ ان خطوط ہی کے ذریعے دوستوں کو اپنے دل کا حال بتاتے۔ بہت چھوٹی چھوٹی سی خوشیاں تھیں ان کی۔ کبھی ان کا خط آتا کہ کھاریاں سے گل بخشالوی نے ”سوچ رُت“ کے نام سے غزلوں کاانتخاب چھاپا ہے اور اس میں ہماری غزل کو بھی شامل کیا ہے۔ آپ کبھی آئیں تو آپ کو وہ کتاب دکھاﺅں گا۔ ہم انہیں ملنے جاتے تو اسلم یوسفی کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا ہوتا۔ ”یہ دیکھیں ہماری غزل انہوں نے کتنی عمدگی سے چھاپی۔ کتاب انہوں نے وی پی کی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کتاب اعزازی بھیجتے ،مگر چلئے کوئی بات نہیں۔ پہلے تو ہم نے سوچا تھا کہ وصول ہی نہ کریں مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اچھا نہ لگا پیکٹ واپس بھیجنا“۔
پھر وہ کچھ اور اخبارات اور رسائل لے آتے جن میں ان کی غزلیں شائع ہوتی تھیں۔ وہ انتہائی مسرت کے ساتھ اپنی مطبوعہ غزلیں دکھاتے۔ شاعری کا مجموعہ لانے کی انہوں نے کبھی سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے حلقہ احباب میں حزیں صدیقی اور ایاز صدیقی کا مجموعہ کلام اس وقت تک منظرِ عام پر نہیں آیا تھا اور ان کی کتب کی اشاعت سے قبل اپنی کتاب شائع کرانا اسلم یوسفی جیسے وضعدار شخص کیلئے ممکن ہی نہیں تھا۔اسلم یوسفی خوبصورت شاعر تھے۔ روایت کے ساتھ جڑی ہوئی شاعری ، کلاسیکی انداز ۔ جو رکھ رکھاﺅ ، سلیقہ اور نفاست ان کی شخصیت میں تھی وہی ان کی شاعری سے بھی جھلکتی تھی۔
جلتی آنکھیں چھوڑ آیا ہوں تری دہلیز پر
ان چراغوں کو ہوا کا سامنا درکار ہے
اور ایک یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے جس نے اپنے منفرد مضمون کی بناءپر 1980 ءکی دہائی میں بہت شہرت حاصل کی۔
میرے لُٹنے کی خبر احباب تک پہنچی نہیں
گرچہ میری راہ میں اخبار کا دفتر بھی تھا
خوبصورت لب و لہجے کے یہ شاعر 10 مئی 1991ء کو ہم سے جدا ہوئے تو ان کی موت کی خبر بھی ان کے احباب تک نہ پہنچ سکی۔ کسی اخبار کو ان کی موت کا پتہ ہی نہ چلا۔ ان کی تدفین کے بعد ایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی جس میں ان کی قل خوانی کی اطلاع دی گئی تھی۔ افسوس تویہ ہے کہ ان کے احباب نے اس خبر پر بھی کوئی توجہ نہ دی۔ محلہ کھٹکانہ کی ایک مسجد میں اسلم یوسفی کی قل خوانی میں ایک دو کے سوا کوئی ادیب شاعر شریک نہ ہوا۔ البتہ ان کے محلے دار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اسلم یوسفی کو فراموش کرنے کا جو سلسلہ ان کی زندگی میں شروع ہوا تھا وہ ان کی موت کے بعد بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ ان کی یاد میں کسی نے کوئی مضمون لکھا نہ ان کے فن کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی۔ زکریا یونیورسٹی کا شعبہ اردو اس شہر کی ادبی تاریخ محفوظ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس شعبے کے زیرِاہتمام اسلم یوسفی اور ان جیسے اور بہت سے شعراء کے کلام کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کرلی جاتی۔ ایسے بہت سے شاعر جو مالی وجوہات یا بعض دوسری مجبوریوں کے باعث اپنی زندگی میں اپنا کلام شائع نہیں کراسکے۔ ان کی شاعری کو دریافت اور محفوظ کرنا ہمارا فرض ہے۔ چاہے ہم اسے فرض کفایہ ہی سمجھ لیں۔
۔۔۔
نوٹ یہ مضمون کئی برس قبل تحریر کیا گیا تھا ۔ مضمون کی آخری سطر میں ہم نے جس فرض کفایہ کا ذکر آج سے کئی برس قبل کیا تھا وہ اب سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر عامر سہیل ادا کر رہے ہیں ۔ یونیورسٹی کی ایم فل کی طالبہ ثمینہ گل اسلم یوسفی کی کلیات ترتیب دے رہی ہیں ۔جس میں ان کے خطوط اور شاعری کو یکجا کیا جا رہا ہے ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اسلم یوسفی کی وفات کے 26 برس ان کے کلام کو محفوظ کر لیا گیا ہے ۔
فیس بک کمینٹ