فوری ضرورت برائے تجربہ کار عسکریت پسند ۔۔ علی الصبح اخبار پڑھتے ہوئے ایک اشتہار دیکھ کر میں چونک گیا۔
عسکریت پسندوں کی اپنی نرسری، تربیتی کیمپ اور جملہ سازوسامان ہے پھر انہیں تجربہ کار افراد کی باہر سے کیا ضرورت پیش آگئی۔
یہ ہی سوچ کر میں نے اشتہارکو تفصیل سے پڑھنا شروع کردیا۔صفحہ چھ پر چوتھائی حصے پرمحیط اشتہار میں شان دار کیریئر،باوقار زندگی اور فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اخروی فوائد پر بھی صراحت سے روشنی ڈالی گئی تھی۔
اشتہار کے آخر میں ستارے کے نشان کے ساتھ تھوڑی باریک تحریر میں درج تھا، منتخب اور خوش نصیب عسکریت پسندوں کوبیرون ملک خصوصاً تپتے سورج کی سرزمین پر تعینات کیا جائے گا۔ یہ سطر پڑھ کر مجھے ساری تحریر اور اس کا مقصد سمجھ آ گیاخاص طور پر تجربہ کار عسکریت پسندکی شرط ،
میں نے اخبار کے دوسرے صفحات پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور اسے تہہ کرکے بیڈ کے سرہانے رکھ دیا۔ سارا دن گومگو کی کیفیت میں رہا۔ عمر کاایک بڑا حصہ محنت و مشقت کی چکی میں پستے ہوئے گزرا اور ابھی دو سال قبل ہی ریٹائر ہوا تھا۔ پھر سے اسی میدان کارزار کا حصہ بن جاؤں۔ دل کسی طور آمادہ نہیں ہورہا تھامگر حقائق برعکس تھے۔ ریٹائرمنٹ کے چھ سات ماہ تو فرصت اور آرام بہت بھلا لگا تھا اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا مگر پھر دن بھر سناٹے کی سی خاموشی اور رات کو اندھیری تنہائی۔ ساتھ دینے والی تو ملازمت کے دوران ہی منہ موڑ گئی تھی ۔ شائد منہ اس نے نہیں موڑا ہوگا بلکہ میری راہ تکتے تکتے تھک گئی ہوگی۔
مجھے تو اس کی تدفین کیلئے بھی بمشکل چھٹی ملی تھی۔ اب اس کی یاد آئے بھی تو سوائے جی خراب کرنے کے اور کیا مل سکتا تھا۔
اولاد اپنے اپنے کاموں اور اپنی اپنی ڈگر پر، میں نے کبھی توجہ دی تھی نہ انہوں نے اب پلٹ کر کبھی پوچھنے کی زحمت کی۔ ریٹائرڈ آدمی کی زندگی بھی عجیب ہے۔ اس کے پاس وقت ہے سنانے کو، بتانے کو، گزارنے کو مگر ساتھ دینے کیلئے کوئی میسر نہیں، میں بھی بہت کچھ بتانا چاہتاتھا۔ شروع میں ایک آدھ بار کبھی محفل جمی مگر اب تو ایسالگتاہے کہ مجھے دیکھ کر ہی سب کنی کترا جاتےہیں۔ کیا میں عسکریت پسندہوں اس لئے نہیں بلکہ میں ریٹائرڈ اور بے مصرف ہوں، اس لئے۔ دن بھر کی بوریت اور پھر مزاج کی تلخی مجھے دوبارہ سے ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کررہی تھی۔شام تک دل و دماغ میں جنگ چلتی رہی۔میری سوچ جنگ سے شروع ہوکر جنگ پرہی ختم ہوتی ہے۔ سو نتیجےپر پہنچنے میں کوئی مشکل نہ ہوئی۔بلانے والے پرائے نہیں، کام اجنبی نہیں اور ساری صورت حال بھی دیکھی بھالی بلکہ اپنےہاتھوں کی پیدا کردہ ہے۔نئی مصروفیت، رفقائے کار سے میل جول ، فرض کی ادائیگی اور بے بہا اخروی فوائد۔میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور اپنالیپ ٹاپ کھول کر اشتہارمیں درج ویب سائٹ تلاش کرنے لگا۔ نام زبانی یاد تھا۔ پہلے صفحے پرہی اشتہار کا عکس جگمگا رہا تھا۔میں نے کلک کیا تو اشتہار کے ساتھ ہی ایک کئی صفحات پر مشتمل درخواست فارم بھی کھل گیا۔اس بار کچھ سوالا ت نئے تھے۔میں نےپورا فارم اطمینان سے پڑھا اور پھر ایک ایک کرکے جواب درج کرنے لگا۔ ابتدائی اور بنیادی معلومات لکھنے کے بعد اپنے کوائف کا اندراج کیا۔ دوسرے صفحے کے شروع میں ہی ایک ضروری سوال لکھا تھا۔ آپ عسکریت پسند کیوں بنے اور تجربہ کہاں سے حاصل کیا؟
اے) محبوبہ کی بے وفائی پر
ب)اپنوں سے تلخی
سی) سماج سے بغاوت
ڈی)کوئی معاشرتی یا معاشی جبر
ای) دیگر،تفصیل سے بیان کریں
سوال پڑھ کر میرے کرخت چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ کیا بچگانہ سوال ہے اور کیا فضول آپشنز۔۔
بھلا محبوبہ کے روٹھ جانے یا اپنوں سے تنگ آ کر بھی کوئی عسکریت پسند بنتا ہے۔ سماج سے بغاوت یا کسی طرح کا جبر شدت پسندی کی طرف لے جاسکتے ہیں مگر پھر بھی جنگجو بننے کیلئے تو مخصوص ذہنی رو چاہئے جو اس طرف چل پڑے تو کوئی دوسری وجہ درکار نہیں ہوتی۔
میں نے دیگر کے خانے میں لکھ دیا میں عسکریت پسند بنا کیونکہ میں خود کو ایک بہترجنگجو محسوس کرتا ہوں۔ ویسے بھی کشش کیا کم ہے ہر طرح کی ترغیبات اورجھانسے تو ہیں یہاں پر۔۔۔پھر رعب و دبدبہ الگ سے ہے۔
تجربہ انہی کمیں گاہوں سے حاصل کیا جو انہی ہاتھوں کی آباد کی ہوئی ہیں۔ کچھ یہاں پر اور کچھ پاس پڑوس میں۔
فارم مکمل کرتا چلا گیا۔ آخری سوال پر پھر اٹک گیا۔ بلند رتبے پر سرفراز ہونے کے بعد جسدخاکی کس کے سپرد کیا جائے؟ ایک اور احمقانہ سوال۔۔۔
کیاعسکریت پسندوں کا دماغ نہیں ہوتاجو ایسے نامعقول سوال بڑی ڈھٹائی سے پوچھے جارہے ہیں ۔ میں نے سوچا اور پھر فوراً ہی جواب دیدیا ہاں نہیں ہوتا ۔ دوران ملازمت کبھی کسی ساتھی کو سوچتے ،اپنی رائے کا اظہار کرتے دیکھا، بلکہ اپنے کسی بڑے کو بھی نہیں
بس حکم کی بجا آوری اور وہ بھی ایسے کہ صبح آگے تو شام کو پیچھے مگر مجال ہے کسی نے اعتراض کیا ہو۔ یا سوچنے سمجھنے بابت کوئی ہلکا سا اشارہ بھی دیا ہو۔
میرا اپنا دماغ بھی تو ریٹائرمنٹ کے بعد چلنا شروع ہوا تھا اور اب ایک دوسال بعد میں پھر سے اسے سات تالوں میں مقفل کرنے جارہا تھا۔ کیونکہ ہمارا کام ہی دیواروں کو مضبوط کرنا ہے
دیوار سازی جو ہمارا نظریہ ،ہمارا واحد نصب العین ہے
یہ ہی ہمارا حفاظتی حصار ہیں۔ دیواریں جوہمیں خارجی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھتی ہیں سو ہم اور ہمارے شدت پسند دیواریں بناتے ہیں
انہیں اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور جب اور جہاں موقع ملتا ہے ،نئی سے نئی دیوار کھڑی کردیتے ہیں یہاں اس جگہ پر بھی ہماری قائم کردہ دیواروں میں ہم سب بٹے ہوئے ہیں۔ شائد ایک دوسرے سے محفوظ ۔۔ شور مچانے والے ہمارے حفاظتی حصاروں کو قید خانے قرار دیتے رہیں مگر ہم سب کو انہی دیواروں میں سانس لینے پر مجبور رکھیں گے ۔ انتشار اور تقسیم کی بکواس کرنے والی زبانیں بھی جلد بند ہوجائیں گی ۔۔ نہیں ۔۔۔میری میت کسی کے حوالے نہ کی جائے،بلکہ اسی میدان میں ایک دیوار کی طرح نصب کردی جائے جہاں میں اخروی لطافتیں حاصل کرنے کیلئے کام آجاؤں ۔۔ میں نے لکھا اور فارم مکمل کرنے کے بعد بھیج دیا ۔کافی دیر تک نئے کام کے بارے میں سوچتا رہا کام کی نوعیت بالکل بھی مختلف نہیں تھی۔ ساری عمر یہی تو کیا تھا۔ آس پاس کے گھروں میں ابتدائی تعلیم سے انتہائی تربیت تک یہ ہی کچھ سیکھتے ،سکھاتے ،کرتے اور کرواتے رہے تھے۔ دوتین روز بعد ای میل کے ذریعے مجھے انٹرویو کیلئے بلا لیا گیا۔سب ہی جان پہچان کے لوگ تھے۔ انٹرویو لینے والے بھی اور امیدواروں کی لمبی قطار بھی۔ پرکشش معاوضہ اور بے پناہ مراعات کسے پسند نہیں
ہر ریٹائرڈ آدمی اٹھ آیا تھا۔
انٹرویو لینے والے انچارج میرے سابق باس نکلے۔ وہ میری خوبیوں سے پہلے سے ہی آگاہ تھے۔ ایک عسکریت پسند کی خوبیاں کیا ہوسکتی ہیں۔
احکامات پر بے چون وچرا عمل کرنےوالا ۔۔ دوسروں کی آنکھ سے دیکھنے والا۔۔ جذبات و احساسات سے مکمل نہیں تو مطلوبہ حد تک عاری ۔۔ میری یہ تمام صلاحیتیں ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔ پھر بھی ٹیسٹ لیا گیاکہ ریٹائرمنٹ کے ایک دوسال کے دوران روشنی کی کسی کرن نے جانے انجانے میں مجھے چھو تو نہیں لیا۔اندر تک گھپ اندھیرا،جب کچھ نظر نہ آیا تو مجھے اوکے کردیاگیا۔ آج کل میں اپنے کئی ہم وطنوں کے ساتھ ماہانہ تنخواہ پر دیار غیر میں نوکری کررہا ہوں ۔ ستارے آسمان پر ہوں تو بھی ہمیں روشنی نہیں دکھا پاتے اور
ہمارے جسموں پر گاڑ دیئے جائیں تو بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
فیس بک کمینٹ