سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما چوہدری نثار علی خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد نواز شریف ان کے مشورہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ راولپنڈی میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے نواز شریف کے سابق معتمد خاص کا کہنا تھا کہ ’اگر میری بات اور مشورہ مانا جاتا تو آج شاید یہ مشکلات نہ ہوتیں اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی‘۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی غلط مشورہ نہیں دیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ بیانات میں تلخی کم کی جائے۔ عدلیہ اور فوج کو براہ راست نشانہ بنانے کے لئے نرم الفاظ استعمال کیے جائیں ’۔ چوہدری نثار کا دعویٰ ہے کہ‘ میں نے بس اتنا ہی کہا تھا ’۔
جس اتنا ہی کہنے پر چوہدری نثار اور نواز شریف کی تیس برس کی سیاسی رفاقت ختم ہوگئی اور جس معمولی مشورہ کو نہ ماننے سے اس وقت مسلم لیگ (ن) اختیار سے محروم ہے، نواز شریف احتساب عدالت کے حکم پر قید بھگت رہے ہیں اور شہباز شریف نیب کی تحویل میں ہیں، اسے مان لینے میں آخر کیا حرج تھا۔ ملک کے متعدد سیانے تبصرہ نگار اور تجزیہ کرنے والے بھی یہی سوال کرتے رہتے ہیں۔ یہ سوال دراصل ایک بنیادی اصول سے جڑا ہے کہ اس ملک پر عوام کی حکومت ہو گی یا عوام اور قوم کے نام نہاد اور خود ساختہ ’محافظ‘ اس مملکت میں سارے فیصلے کرنے کے مجاز ہوں گے۔
نواز شریف کے بعد اب آصف زرداری کا بھی دعویٰ ہے کہ انہیں عوامی حکمرانی کی بات کرنے اور ووٹ کو احترام دینے کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے کی سزا دی جارہی ہے۔ تاہم دونوں لیڈر یہ بات مشکل میں گرفتار ہونے کے بعد کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی باتوں پر مکمل اعتبار نہیں کیا جاتا۔ خواہ ان کے حامی ان کے دعوﺅں پر اعتبار کرتے ہوئے ہر دو کو ہیرو اور بنیادی جمہوری روایات کا محافظ قرار دینے کی کوشش کرتے رہیں۔
نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں عوام کے منتخب وزیر اعظم کے عہدے کو حقیقی معنوں میں با اختیار بنانے اور منتخب نمائندوں کے ذریعے فیصلے کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ اب تو وہ سیاسی خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں تاہم گزشتہ برس سپریم کورٹ کی طرف سے معزول کیے جانے کے بعد انہوں نے اپنے ’لانگ مارچ‘ میں اسے اداروں کی سازش قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ووٹ کے احترام کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ اسی لئے جب اس سال جولائی میں انتخابات سے پہلے وہ اپنی علیل اہلیہ کو لندن میں بستر مرگ پر چھوڑ کر نیب کی سزا کاٹنے کے لئے پاکستان واپس آئے تھے تو اسے ان کا حوصلہ مندانہ اقدام قرار دیا گیا تھا جس سے جمہوریت کو نئی زندگی ملنے کا امکان تھا۔
خلاف توقع نواز شریف کی آمد پر مسلم لیگ (ن) اور جمہوریت کے حامی اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اس بنیادی اصول کے لئے وابستگی کا اعلان نہیں کرسکے جس کی توقع کرتے ہوئے شاید نواز شریف اور مریم نواز نے سزا کا اعلان ہونے کے بعد بھی پاکستان کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان دونوں کو خاموشی سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا اور شہباز شریف جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ائیر پورٹ کا راستہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔
یہ راستہ بھولنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شہبازشریف بھی جمہوریت کا وہی قاعدہ ازبرکیے ہوئے ہیں جس کے اسباق چوہدری نثار علی خان اب صحافیوں کو سناتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کا مشورہ نہ مان کر نواز شریف نے اپنا اور مسلم لیگ (ن) کا حلیہ خراب کیا ہے۔ شہباز شریف کو ووٹ کے احترام کی بجائے پنجاب میں اپنی اعلیٰ کارکردگی اور ہر بحران میں نواز شریف کی نام نہاد جمہوریت پسندی کی بجائے اداروں کی بالادستی اور طاقت کو تسلیم کرنے کی حکمت عملی پر اتنا یقین ضرور تھا کہ وہ اگر وزیراعظم نہ بن سکے تو کم از کم پنجاب میں اپنے صاحبزادے کو وزیر اعلیٰ ضرور بنوا دیں گے۔ اس طرح وہ ایک طرف خاندان کے اندر سیاسی قیادت کی لڑائی میں نواز شریف اور مریم نواز کو پچھاڑ دیتے تو دوسری طرف مصلحت و عملیت پسند لیڈر کے طور پر انہیں بھی وہی قوت و اہمیت حاصل رہتی جس پر اس وقت بظاہر عمران خان کی اجارہ داری ہے۔
آصف زرداری نے اٹھارہویں ترمیم کا نعرہ بلند کرتے ہوئے 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد انہوں نے یہ نعرہ مستانہ بلند کیا کہ ’تم تین سال کے لئے آتے ہو اور چلے جاتے ہو، لیکن ہم نے یہیں رہنا ہے‘ یا یہ کہ اگر انہیں بدنام کرنے کی کوششیں بند نہ کی گئیں تو وہ بھی فوجی جرنیلوں کے کارناموں کی فہرستیں جاری کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں جون 2015 میں طویل قیام کے لئے ملک سے باہر جانا پڑا۔ اس کوچہ گردی کو آصف زرداری یا کوئی دوسرا اگرچہ جلاوطنی کا نام تو نہیں دے گا لیکن سب جانتے ہیں کہ جنرل (ر) راحیل شریف کے ہوتے وہ وطن واپس نہیں آ سکے۔
یہ معاملہ ایک علیحدہ ستم ظریفی ہے کہ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کی جمہوریت پسندی پر بھروسہ کرتے ہوئے، آصف زرداری دسمبر 2016 میں وطن واپس آئے تھے، انہی کے ہوتے اب وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ فوج کے ساتھ مڈبھیڑ کے بعد آصف زرداری پر جب برا وقت آیا تو نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے زرداری کی تقریر کے بعد طے شدہ ملاقات منسوخ کرکے آصف زرداری کو ملنے سے انکار کردیا تھا۔ اسی لئے آصف زرداری کی 18 ماہ بعد جلاوطنی سے واپسی پر جب نواز شریف کی سیاسی مشکلات کا آغاز ہو رہا تھا اور وہ ڈان لیکس کے بنائے ہوئے جال اور پاناما لیکس سے پیدا شدہ صورت حال میں گھیرے جا رہے تھے تو آصف زرداری نے اسے پیپلز پارٹی کے اقتدار کے لئے سنہرا موقع سمجھتے ہوئے تالیاں بجانے اور اس سیاسی خلا سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
سینیٹ انتخابات اور اس کے چئیرمین کے لئے عملیت پسند مصالحت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود انہیں جولائی 2018 کے انتخابات میں مناسب حصہ نہیں مل سکا۔ سندھ میں وہ اقتدار بچانے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن اب ایف آئی اے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ صوبے میں کبھی گورنر راج کی باتیں ہوتی ہیں اور کبھی اس سے انکار کیا جاتا ہے۔ کبھی مراد علی شاہ کے استعفی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی یہ اشارے دیے جاتے ہیں کہ سندھ پر بدعنوان ٹولے کی حکومت غیر اخلاقی ہے۔ یہ صورت حال پیدا ہونے پر پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو پھر صوبوں کے مفادات اور اٹھارویں ترمیم یاد آرہی ہے۔
جمہوریت، سیاسی اقتدار، اداروں کی مداخلت اور بدعنوانی و منی لانڈرنگ کے بیانیہ پر استوار یہ صورت حال سیاست میں ہیرو اور ولنز کا سراغ لگانے کا میڈ ان پاکستان آلہ بن چکا ہے۔ اس کی مدد سے اس وقت عمران خان کی حکومت اپنے سارے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کرکے عوام میں بے توقیر کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اسی بیانیہ کے مستقبل میں سامنے آنے والے ایڈیشن میں کس کس کا نام درج ہوگا۔ یہ کھیل پرانا ہونے کے باوجود نئے اور پرانے کھلاڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اسی لئے رونق لگی ہوئی ہے اور چوہدری نثار اس کھیل کے بنیادی اصولوں کی نشاندہی کرتے ہوئے خود کو ’اصول پسند‘ سیاست دان قرار دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔
آصف زرداری مشکل میں تھے تو نواز شریف وزیر اعظم کے طور اتنے لاچار تھے کہ ان سے ملاقات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکے۔ جب یہ وقت نواز شریف پر آیا تو زرداری قومی مفاد کا جال بننے والے مزدوروں میں بھرتی ہونے کو قومی خدمت سمجھ رہے تھے۔ تاہم جب وہ خود اسی پھندے کی گرفت میں ہیں تو بے بسی سے اٹھارویں ترمیم کی دہائی دے رہے ہیں لیکن حکومت اس سنگین الزام کو اتنی اہمیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے کہ اس دعوے کی تردید کا اہتمام کیا جائے کہ موجودہ حکومت ون پارٹی حکومت کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتی اور صوبوں کے اختیارات کم کرنے یا اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
جال میں پھنسے نواز شریف اور آصف زرداری اب بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں لیکن اس بھنور سے نکلنے کے لئے اپنے اپنے طور پر ہاتھ پاو?ں مار کر ہی کامیابی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ہتھکنڈے اور عذر کو جمہوریت کا نام دے دیا گیاہے۔ ملک کے سب سیاست دان اسے اقتدار حاصل کرنے کے لئے نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے تقاضے پورے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ ایسی صورت میں جمہوریت کا پودا جو پھل دے گا اس کا فائدہ بھلے آنے والی نسلوں کو ہو لیکن موجودہ قیادت کو اقتدار اور وزارت عظمی عطا نہیں کرتا۔
ایسی صورت میں کیا چوہدری نثار علی خان کے نسخہ کیمیا کو رہنما اصول مان کر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اداروں کی چوکھٹ پر سر جھکا کر اقتدار حاصل کیا جائے اور مزے کیے جائیں۔ جمہور کے حق حکمرانی کی بات جلسوں میں نعرے لگانے اور عام آدمی کو خوش کرنے تک ہی کافی سمجھی جائے۔ آگے بڑھتے ہوئے اس پرچہ ترکیب استعمال پر عمل کیا جائے جس پر سنہرے حروف میں کامیابی کا نقشہ ثبت ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں چار فوجی ’انقلابات‘ ، آدھا ملک گنوانے کی کہانی اور کرپشن کے خاتمہ کا قصہ انہی اجزائے ترکیبی سے بنا گیا ہے۔
بار بار وزرائے اعظم کو بدعنوانی کے الزامات میں معزول کیا گیا، حکومتوں کو توڑا گیا۔ ایک کے بعد دوسرا جرنیل بلا تخصیص احتساب کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھا اور خود الزامات کا پشتارہ اٹھائے ماضی کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔ نہ احتساب ہو?ا اور نہ انصاف مل سکا۔ اب چوہدری نثار علی خان وہی ترکیب سامنے لائے ہیں جس پر عمل کرنے کی وجہ سے ہی ملک کے سیاست دان اور سیاسی نظام موجودہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
جمہوریت ایک سادہ اصول کا نام ہے۔ عوام ووٹ دیں اور منتخب ہونے والے عوام کے عطا کردہ اس اختیار کو عوام کے مسائل اور قومی امور طے کرنے کے لئے استعمال کریں۔ باقی ادارے، فوج ہو یا عدالتیں پارلیمنٹ کے طے کردہ دائرہ عمل کے اندر اپنے فرائض ادا کریں۔ اگر اس بنیادی اور سادہ اصول کو چوہدری نثار علی خان کے کامیابی کے منتر میں تبدیل کیا جائے گا تو اس کا انجام جیل کی کوٹھری یا سیاسی ہزیمت ہی ہو گی۔
جمہوریت میں ان طاقتوں کو بالادستی نہیں دی جاتی جن سے قوت مانگ کر ملک کے سیاست دان اقتدار کا راستہ کھوجتے ہیں۔ اگر یہ طریقہ مسترد نہیں کیا جائے گا تو ملک میں خوشحال بستیوں کی بجائے جیل کی کوٹھریاں ہی تعمیر ہوں گی۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ