گوادر کے علاقے پشغان میں موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے سڑک کی تعمیر کا کام کرنے والے مزدوروں پر فائرنگ کرکے دس افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ یہ حملے دو مختلف مقامات پر کئے گئے ہیں لیکن دونوں واقعات میں موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آور ہی ملوث تھے ۔ حملہ آوروں نے مزدوروں کے قریب آکر ان پر گولیاں برسائیں جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ بعد میں فوجی طیارے کے ذریعے میتوں کو ہسپتال پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب وزیر اعظم نواز شریف چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ بیجنگ میں بیلٹ ایند روڈ فورم کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ اس اجلاس میں متعدد ملکوں کے وزرائے اعظم اور صدور شریک ہیں۔ پاکستان اور چین اس موقع پر مزید منصوبوں کے لئے دستخط بھی کرنے والے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہو نا چاہئے کہ آج ہونے والا حملہ ایک طرف دہشت گردی کی کارروائی ہے تو دوسری طرف یہ پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش ہے۔ حکومت اس معاہدے کو ملک کی اقتصادی صورت حال کے حوالے سے گیم چینجر قرار دیتی ہے۔ پاک فوج کی طرف سے بھی اس منصوبہ کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے ۔ گوادر میں اس منصوبہ پر کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت کے لئے فوج سیکورٹی بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ چینی کارکنوں اور ماہرین کی حفاظت کے لئے پاک فوج کا ایک خصوصی ڈویژن قائم کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود مسلح دہشت گرد گروہ مزدوروں پر حملے کرنے اور کام میں خلل ڈالنے کے علاوہ بداعتمادی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ہر قیمت پر دہشت گردوں سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ حکومت کی طرف سے ہر حملہ کے بعد اس قسم کے روایتی بیان دے کر ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ناراض گروہوں کے ساتھ مفاہمت اور بلوچستان میں اعتماد سازی کے لئے قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔ فوجی حکومت کے عہد میں اگر غلط فہمیاں اور مشکلات پیدا ہوئی تھیں تو ملک میں سول سیاسی حکومت قائم ہونے کے بعد اس سلسلہ میں زیادہ محنت کرنے اور سیاسی طور سے خود کو مین اسٹریم سے الگ سمجھنے والے عناصر سے بات چیت کا آغاز کرنے کے لئے ماحول سازی کا کام کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں سیاسی لحاظ سے قابل ذکر اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ بدقسمتی سے مرکز میں برسر اقتدار پارٹی بلوچستان کے مفاد پرست سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر صوبے میں اپنی حکومت بنانے میں تو دلچسپی رکھتی ہے لیکن بلوچستان کے عوام کی محرومی اور پریشان حالی پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
حکومت کی طرف سے بجا طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے قوم پرست انتہا پسندوں کو بھارت کی طرف سے وسائل اور جنگی تربیت فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس بات کا جواب سامنے نہیں آتا کہ حکومت اس کے جواب میں مؤثر سیاسی اقدامات کرنے، مراعات دینے، ناجائز طور سے گرفتار کئے گئے سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے اور سیاسی مراعات دیتے ہوئے مفاہمت اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے۔ جو عناصر اسلحہ اور سفارتی امداد کے لئے بھارت کے چنگل میں پھنستے ہیں ، انہیں ان کے ہی وطن میں سیاسی معاملات میں حصہ دار بنا کر مطمئن کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت میں بھی ایسے بعض لوگ ضرور ہوں گے جو کسی قیمت پر مفاہمت کے لئے راضی نہیں ہوں گے لیکن اکثریت کو اپنے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ اس طرح بچے کھچے لوگوں کو غیر مؤثر اور تنہا کیا جا سکتا ہے۔
گوادر پاک چین اقتصادی راہداری میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی بندرگاہ کے ذریعے چین براستہ کاشغر بحر ہند تک رسائی حاصل کرے گا۔ یہ منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ تصور میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی معیشت کے لئے سی پیک کی اہمیت بھی کسی شبہ سے بالا تر ہے۔ لیکن جب بلوچستان سے یہ شکائتیں موصول ہوتی ہیں کہ وہ علاقہ جو پورے پاکستان کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرنے والا ہے، اس کے عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں، وہاں اسکول تعمیر نہیں کئے جاتے، صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور مواصلات میں حائل مشکلات اپنی جگہ روزگار اور کاروبار کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں تو اسے عاقبت نااندیشی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچستان میں ترجیحی بنیادوں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں اور اس صوبے میں بنیادی تعلیم کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ادارے قائم ہوں تاکہ بلوچستان کے رہنے والے نوجوان تعلیم حاصل کرکے اور ہنر سیکھ کر صوبے اور ملک کی ترقی میں حصہ ادا کرسکیں۔ ان سہولتوں کی عدم موجودگی میں عام لوگ بھی انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کی باتوں میں سچائی تلاش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ملک کی معیشت کا اہم ترین منصوبہ بلوچستان اور گوادر میں تشکیل پا رہا ہے لیکن اس کے سارے معاملات اسلام آباد سے طے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کبھی کبھار دورے پر وہاں جاتے ہیں۔ نہ جانے کب کسی وزیر اعظم کو یہ خیال آئے گا کہ انہیں بلوچستان میں کیمپ آفس قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے وقت کا کافی حصہ صوبے میں گزار کر وہاں کے عوام کو یہ باور کروا سکیں کہ ان کے معاملات ان کے نمائیندوں کی مشاورت سے ان ہی کے صوبے میں بیٹھ کر طے کئے جاتے ہیں۔ تب ہی قوم پرست دہشت گردی غیر مؤثر ہوں گے اور ترقی کا سفر آسان ہو سکے گا۔
(بشریہ:کاروان ۔ ناروے
فیس بک کمینٹ