ماں کی مرقد پر ۔۔ منزہ اعجاز
یہ دن تاریخ تو کچھ عام سی تھی
مگر معلوم کب تھا اتنی طاق نکلے گی
جمع جو کچھ تھا اسے تفریق میں بدل دے گی
منقسم کر کے ہر اک دل پہ یہ ضرب دے گی
یہ عام سی اٹھارہ اکتوبر
میری ماں کو یوں لے ہی جائے گی
بکھیر دے گی ہر ایک تنکا یہ آشیاں کا
اجاڑ دے گی چمن وہ جسے سجانے کو
حیات دی ہے میری ماں نے جان بھی دی ہے
پلٹ کے دیکھوں تو یہ کل کی بات لگتی ہے
وجود جاں میں بسی اس کی ذات لگتی ہے
وہ اپنے سامنے اپنے تمام بچوں کو
جمع کرتی تھی مسکراتی تھی
خدا کر ے کہ میرا چمن مہکتا رہے
یہ میری آنکھوں کے تارے سدا رہیں آباد
مرا حسین سا گلشن سدا مہکتا رہے
مگر یہ کیا ہوا ۔۔
کہ بند ہوتے ہی اس کی آنکھیں
چمن اداس ہے اور گلستان ویراں ہے
ہر اک پرندے نے اپنی اڑان بھر لی ہے
کہاں گئے ہیں وہ بچے؟ کہاں چمن اس کا ؟
جسے سجانے کو اپنی آخری سانسیں
وہ کہہ رہی تھی تم سب ہی میری آنکھیں ہو
ذرا خیال سے رہنا
جدا نہ ہونا کبھی
مگر یہ کیا کہ آج پھر اٹھارہ اکتوبر
ماں کی مرقد پہ سب اکیلے ہیں
وہ جو اک چادر سکون پاتے تھے
آج مخمل میں بے اماں ہیں بس
جو تیری اک ذرا سی آہ پہ ایک جان ہوتے تھے
جو اب مد مقابل ہوں تو اپنی ہی نگاہوں میں
ہر اک کو تولتے ہیں اور پرکھ کر طے یہ کر تے ہیں
کہاں پہ ملنا ہے اور کہاں ہے منقسم ہونا
کہاں پہ جمع کر کے ضرب دینی ہے اپنے رشتوں کو
کسے تفریق کر نا ہے گلے کس کو لگانا ہے
وہ میری پیاری ماں مرقد میں کیا کچھ سوچتی ہو گی
بڑے کو ڈانٹ کر چھوٹے کو سمجھا کر ہنسا دوں میں
ضرب تقسیم کو تفریق کر کے
سبھی کو جمع کر دوں اور مِلا دوں میں
*** منزہ اعجاز