دو برس سے کچھ دن زیادہ تک سپریم کورٹ کے سربراہ رہنے کے بعد ثاقب نثار آج اپنے عہدے سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ ان کے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس میں انہوں نے اس دوران کیے گئے اقدامات کو درست قرار دیا اور سو موٹو کے تواتر سے استعمال کے علاوہ ڈیم فنڈ جیسے معاملہ میں عدلیہ کو ملوث کرنے کے فیصلہ کو جائز کہا۔ چیف جسٹس کے عہدہ سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں وقت ہی فیصلہ کرے گا۔ اس موقع پر ان کی غلطیوں یا کمزوریوں کا حساب کرنے کی بجائے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے نئے چیف جسٹس کس حکمت عملی کے ساتھ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس ریفرنس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے گو کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی توصیف کی اور کہا کہ انہوں نے ایک مشکل وقت میں چیف جسٹس کی ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی حکمت عملی کا جس انداز میں ذکر کیا ہے وہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی متنازعہ پالیسیوں سے اجتناب کرنے کا اعلان ہے۔ انہوں نے سو موٹو کے اختیار کا استعمال محدود کرنے کے علاوہ ڈیم فنڈ کے لئے چندہ اکٹھا کرنے سے گریز کا اعلان ان لفظوں میں کیا ہے ’میاں صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ زندگی میں ان کے دو مقاصد ہیں۔ ڈیم تعمیر کرنا اور قوم کا قرض اتارنا۔ میں بھی کچھ ڈیم بنانا چاہتا ہوں۔ ایک بند مقدمات کی غیر ضروری تاخیر کے خلاف۔ ایک بند بے مقصد اور فضول مقدمے بازی کے خلاف۔ اور ایک بند جھوٹے گواہوں اور بیانات کے خلاف۔ اور میں کچھ قرض بھی اتارنا چاہتا ہوں۔ زیر التوا مقدمات کا قرض۔ میری خواہش ہے کہ ان مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ہوسکے۔ ملک میں انیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ لیکن ان مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے صرف تین ہزار جج ہیں۔ اگر یہ سب دن میں چھتیس گھنٹے بھی کام کریں تو بھی اتنی کثیر تعداد میں مقدمات کا فیصلہ نہیں کرسکتے‘۔
سابق ہونے والے چیف جسٹس کی حکمت عملی تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اداروں کے درمیان مشاورت اور افہام و تفہیم کے لئے قومی کانفرنس بلانے اور آئینی حدود کے مطابق ان کے اختیارات کا تعین کرنے کے بارے میں تجویز بھی دی ہے۔ یہ تجویز غیر روایتی ہونے کے علاوہ نہایت متنازع ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تجویز پر عمل کرنے کی صورت میں آئین، پارلیمنٹ حتی ٰ کہ سپریم کورٹ کی خود مختاری اور آئینی حیثیت متاثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گا۔ جسٹس کھوسہ نے صدر مملکت سے اپیل کی ہے کہ وہ پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور فوج کے علاوہ انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کریں جس میں مل جل کر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کے لئے مناسب حکمت عملی اختیار کی جاسکے تاکہ سب ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرسکیں۔
یہ ایک عجیب تجویز ہے۔ ملک کا آئین ریاست کے مختلف اداروں کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ اور پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ قرار دیتا ہے۔ لیکن نامزد چیف جسٹس اس مجوزہ قومی کانفرنس میں پارلیمنٹ کو فریق بنا تے ہوئے حکومت، عدلیہ اور فوج کے ساتھ مل کر اپنی حدود متعین کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جسٹس کھوسہ کا خیال ہے کہ اس طرح ماضی میں پیش آنے والے مسائل سے سبق سیکھتے ہوئے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے لئے ایک متفقہ اور بہتر انتظام کیا جاسکتا ہے جسے انہوں نے ’عملی پالیسی فریم ورک‘ کا نام دیا ہے۔
اس حوالے سے ایک سادہ سا سوال تو یہ ہوگا کہ اگر ملک کا متفقہ آئین اور با اختیار پارلیمنٹ ریاست کے مختلف اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنے پر مجبور نہیں کرسکے تو قومی سطح پر اداروں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کیسے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو سکتا ہے۔ اس وقت ملک کو جن آئینی اور انتظامی مسائل کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں فوج اور عدالت جیسے اداروں نے پارلیمنٹ کے اختیار اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے پامال کرنے کے اقداماتکیے تھے۔
اگر یہ دونوں ادارے مل بیٹھ کر پارلیمنٹ اور حکومت کو یقین کروا بھی دیں کہ وہ مستقبل میں اس ’کانفرنس‘ میں طے شدہ اصولوں کے مطابق کام کریں گے اور اپنے اختیار سے تجاوز نہیں کریں گے تو بھی جس بات کی ضمانت ملک کا آئین فراہم نہیں کرسکا، ایک قومی کانفرنس میں تیار کیا گیا ’پالیسی فریم ورک‘ کیسے عدم مداخلت کے وعدوں پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروا سکے گا۔
صدر مملکت اگر نامزد چیف جسٹس کے مشورے پر یہ کانفرنس منعقد کرتے ہیں تو سپریم کورٹ کے نئے سربراہ اس قسم کی کانفرنس کے مجوزہ مینڈیٹ کے لئے کون سا آئینی جواز فراہم کریں گے۔ ملک میں مروج آئین کی عام تفہیم رکھنے ولا شخص بھی یہ بتا سکتا ہے کہ ملک کو درپیش آئینی اور قانونی مسائل کو پارلیمنٹ اور عدالتوں کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اس کانفرنس میں کیے گئے فیصلے دراصل پارلیمنٹ کے اختیار کو ویٹو کرنے کے مترادف ہوں گے۔
اس کے علاوہ ملک کے آئین اور قوانین کی تشریح اور صراحت کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کا اختیار بھی متاثر ہوگا۔ مستقبل میں کسی اختلاف کی صورت میں آسانی سے یہ کہا جاسکے گا کہ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کی بجائے ویسی ہی کانفرنس بلا لی جائے جو صدر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے کہنے پر بلائی تھی۔ اس تجویز پر عمل ملک میں آئینی انارکی کی طرف پیش قدمی ہوگا۔
نامزد چیف جسٹس نے ملک کو درپیش مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس طرح انتظامی ادارے اور محکمے سیاسی قیادت کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے انتظامی لحاظ سے خود مختار ہوسکتے ہیں تاکہ اچھا نظم حکومت سامنے آسکے۔ ہمیں کسی تردد اور پریشانی کے بغیر حکومت کے معاملات میں مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کے بارے میں بھی بات کرنی چاہیے‘۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تسلیم کیا کہ سویلین قیادت کے اختیار کو حاصل برتری اور سول قیادت کے احتساب کا معاملہ جمہوری نظام کا لازمی حصہ ہے۔ اس لئے ایسا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر ہم ایک ترقی پذیر جمہوریت کے طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جہاں آئین کی حکمرانی ہو تو ہمیں ان معاملات پر بات کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ حوصلہ مندی سے ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے مختلف اداروں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔ اور کہا کہ ’اب ملک اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہوئے‘ چارٹر آف گورننس ’بنانا چاہیے تاکہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں‘۔
یہ منظر نامہ پیش کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ اس کا یہ حل بتاتے ہیں کہ ’صدر عارف علوی ایک ایسا اجلاس بلائیں جس میں پارلیمنٹ، عدالت، حکومت کے علاوہ فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان شریک ہوں۔ اداروں کا یہ سربراہی اجلاس ایک ایسا عملی پالیسی فریم ورک بنا سکتا ہے جس کے تحت ریاست کے تمام ادارے اور شعبے آئین کی متعین حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کریں۔ اس اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیاجائے کہ ماضی میں عدلیہ، حکومت یا پارلیمنٹ نے کیا غلطیاں کی ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ‘ ہمیں یہ بات کرنی چاہیے کہ ماضی میں کہاں اور کیسے ایک دوسرے کے اختیار کو سلب کیا گیا تاکہ مستقبل کے لئے واضح لائحہ عمل بنا لیا جائے ’۔ انہوں نے انتظامی پالیسی معاملات میں عدلیہ کی مبینہ مداخلت کے سوال پر بات کرنے کی دعوت بھی دی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تجویز دی کہ مقننہ کو قانون سازی کے کام تک محدود رکھا جائے اور اسے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم، نوکریوں کی تقسیم اورسرکاری ملازموں کے تبادلوں او رترقی کے لئے استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ اسی طرح اختیار کے غلط استعمال اور بدعنوانی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جو نظم حکومت میں خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
نئے چیف جسٹس کی طرف سے مسائل کی نشاندہی کے لئے کی گئی باتیں درست ہونے کے باوجود ان کے حل کے لئے پیش کی جانے والی تجویز نامناسب اور ناقابل عمل ہے۔ اس پر عمل کرنے سے تنازعات اور اختلافات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگر ملک کے آئینی مسائل کو حل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی بجائے ایک ایسی کانفرنس میں معاملات طے کیے جائیں گے جہاں فوج، ایجنسیوں اور عدلیہ کے نمائیندے بھی موجود ہوں گے تو کل کو کسی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے کہ قومی اہمیت کے قانونی معاملات کو عدالت کی بجائے کسی قومی کانفرنس میں حل کیاجائے جہاں مدعی اور مدعا علیہ دونوں موجود ہوں اور مل جل کر متنازعہ امور کا حل تلاش کرلیں۔ سوچنا چاہیے کہ اس طرح کیوں کر انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔
نامزد چیف جسٹس کی یہ بات درست ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لیا جائے اور مستقبل میں ان کے تدارک کے لئے کام کیا جائے۔ لیکن یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب ملک کے آئین کے تحت جس ادارے کو جو اختیار حاصل ہے، اس پر قدغن عائد کرنے کا کوئی انتظام قبول کرنے سے انکار کیا جائے۔ ماضی کا جائزہ لینے کے لئے بطور چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ باقاعدہ سماعت کے ذریعے ماضی میں آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دینے والے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انہیں مسترد کردیں اور ایسے تمام ججوں کو آئین شکن قرار دیں جنہوں نے آئینی حلف کے باوجود مختلف ادوار میں فوجی حکمرانوں کے پی سی او پر حلف لینا قبول کرلیا تھا۔
اسی طرح ان کے پاس آئین کی بالادستی اور اداروں کی حدود مقرر کرنے کا ایک نادر موقع سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے الزام کا مقدمہ بھی ہے۔ اس معاملہ پر سرعت سے غور اور فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ بلاشبہ ملک کو ایسا ’قانونی فریم ورک‘ دے سکتے ہیں جس کی روشنی میں نہ تو مستقبل کا کوئی جرنیل کبھی آئین شکنی کا حوصلہ کرے اور نہ ہی کوئی جج اس آئین شکنی کو جائز قرار دینے کا اقدام کرسکے۔ اداروں کے درمیان اختیار کا جو توازن آئین نے قائم کیا ہے اسے یقینی بنانے کے لئے جسٹس کھوسہ کے پاس ایک مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلہ پر نظر ثانی سے متعلق بھی موجود ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ متفقہ طور سے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دے چکی ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ قرار داد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ماتھے پر کلنک کی حیثیت رکھتی ہے۔ نئے چیف جسٹس یہ داغ دھو سکیں تو وہ ملک کی عدالتی تاریخ میں امر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے مسائل کی بنیاد افہام و تفہیم کی کمی نہیں بلکہ غیر منتخب ادارو ں کا یہ اصرار ہے کہ وہ قومی معاملات طے کرنے میں پارلیمنٹ اور اس کی منتخب کردہ حکومت سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی قومی کانفرنس کی تجویز اس مزاج کی توثیق کا سبب بنے گی۔ اسی لئے یہ غلط بھی ہے اور اسے مسترد کرنا بھی ضروری ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ