وزیر اعظم عمران خان کے صدمے، گورنر پنجاب محمد سرور کی حقیقت پسندی، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہمدردی اور صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سچائی عام کرتی پریس کانفرنس کے بعد بھی اگر حکومت کی نیت اور عوام دوستی کے بارے میں کوئی شبہ باقی ہو تو اسے صوبائی حکومت کی طرف سے ہفتہ کو ساہیوال سانحہ میں زندہ بچ جانے والے تین کم سن بچوں کی تاحیات کفالت کے علاوہ متاثرین کو دو کروڑ روپے امداد دینے کے اعلان کے بعد رفع ہوجانا چاہیے۔ مزید یقین دہانی کے لئے وزیر اعلی کے حکم پر نہ صرف مرحومین کے اہل خانہ کی ’مرضی‘ کے مطابق ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے بلکہ اس سانحہ میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے 16 اہلکاروں کوگرفتار بھی کرلیا گیا۔
سچ پوچھئے تو ایک سانحہ ہوا اور اس پر منتخب صوبائی اور وفاقی حکومت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے صورت حال کو قابو کرنے اور متاثرین سے ہمدردی کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ پیغامات میں گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’سہمے ہوئے بچوں کو دیکھ کر جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے مار ڈالا گیا، میں ابھی تک صدمے میں ہوں۔ اپنے بچوں کے بارے میں ایسی صدمہ انگیز صورتحال کے تصور ہی سے کوئی بھی والدین پریشان ہوجائیں گے۔ ریاست اب ان بچوں کا ذمہ لے گی اور ان کی مکمل دیکھ بھال کرے گی‘۔ آج صبح ٹوئٹر پیغامات میں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’اگرچہ محکمہ انسداد دہشت گردی نمایاں خدمات سرانجام دے چکا ہے تاہم قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آتے ہی اس کی روشنی میں سخت کارروائی کی جائے گی۔ اپنے تمام شہریوں کا تحفظ حکومت کی ترجیح ہے‘۔
شاید صدمے سے دوچار وزیر اعظم کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے لئے ہی گورنر پنجاب نے جو برطانیہ میں رہنے کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں، میر پور میں ایک بیان دینا ضروری سمجھا اور واضح کیا کہ ’اس قسم کے واقعات پوری دنیا میں رونما ہوتے ہیں۔ تاہم ساہیوال سانحہ کی رپورٹ آنے پر مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی‘۔ گورنر کے بے حسی کی حد تک بے مقصد بیان سے پہلے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کل رات سانحہ میں سی ٹی ڈی کے ظلم کا پتہ لگتے ہی ساہیوال روانہ ہوگئے تھے اور ہسپتال جا کر زندہ بچ جانے والے تینوں بچوں کی عیادت کی، مقتولین کے لواحقین سے تعزیت کی اور انہیں ہر قیمت پر انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ ان کے حکم سے اس شوٹ آﺅٹ میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام اہل کاروں کو گرفتار کرلیا گیا اور مبینہ طور پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔
یہیں سے شبہات، یقین میں بدلنے سے پہلے ہی مزید تقویت پکڑنے لگتے ہیں۔ ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک سانحہ ہوا ہے جس میں کچھ لوگ مارے گئے ہیں۔ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر پوری جانچ پڑتال کرتے ہوئے کارروائی کی تھی۔ تاہم جب محکمہ کی گاڑی نے کار میں سوار دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی اور خود ہی اپنی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے‘۔ دوسری طرف عینی شاہدین اور زندہ بچ جانے والے دس سالہ بچے کا بیان سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ تو ایک شادی میں شرکت کے لئے بوریوالہ جا رہے تھے کہ پولیس نے انہیں روکا۔ بچے کے بقول اس کے والد نے گاڑی روکنے والوں سے کہا کہ ’آپ جو چاہے لے لیں لیکن ہمیں زندہ رہنے دیں لیکن پولیس والوں نے فائرنگ کرکے کار میں سوار چار افراد کو ہلاک کردیا‘۔
بعد میں پتہ چلا کہ ان میں ایک خاندان اور ان کا ایک دوست یا گاڑی کا ڈرائیور شامل تھا۔ مرنے والوں میں چار بچوں کے ماں باپ، ایک تیرہ سالہ بہن اور زیشان نامی شخص شامل تھا جو اس بچے کے بقول اس کے والد کا دوست تھا۔ یہ دو متضاد کہانیاں ہیں۔ قصور وار کا تعین تو تب ہی ہو سکتا ہے جب سارا سچ سامنے ہو اور تمام شواہد اور گواہیوں کی روشنی میں اس سانحہ کی پوری تصویر بنا لی جائے۔ حکومت کا یہ موقف درست تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے پر ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ سوال تو صرف یہ ہے کہ اس صورت حال میں وزیر اعلیٰ نے کس قانون اور اختیار کے تحت سی ٹی ڈی کے ان اہل کاروں کو گرفتار کرنے اور دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا، جو دراصل دہشت گردی کے خلاف مہم کا حصہ تھے۔ کیا یہ صرف سیاسی شعبدہ بازی تھی اور منتخب حکومت میڈیا پر سامنے آنے والی ہمدردی کی کسی بھی لہر کے سامنے یوں ہی سرنگوں ہوتی رہے گی۔ اور اس قسم کے دباﺅ میں ان ہی لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی جو دراصل دہشت گردی کے خلاف اس کا دست و بازو ہیں۔ کیا کسی قانون کی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ دہشت گردوں کے بچے نہیں ہو سکتے یا یہ کہ وہ اہل خانہ کے ساتھ سفر نہیں کرسکتے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو جے آئی ٹی رپورٹ میں سارا سچ سامنے آنے سے پہلے، ایک موقف کو درست مانتے ہوئے دووسرے فریق کے خلاف جو حکومت کا ہی حصہ ہے، سخت ترین اقدام کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس رویہ سے تو یہی تاثر قوی ہوگا کہ دہشت گردی ہو یا شہریوں کے حقوق کا معاملہ، حکومت صرف منفی شہرت سے بچاﺅ کے لئے ہاتھ پاﺅں ماررہی ہے۔
پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے آج سہ پہر لاہور میں ساہیوال سانحہ کے بارے میں پریس کانفرنس کی اور سی ٹی ڈی کے موقف کو درست قرار دیا۔ انہوں نے دستیاب شواہد کی بنیاد پر بتایا کہ سانحہ کا شکار ہونے والی کار میں سوار ذیشان نامی ایک شخص دہشت گرد اور داعش کا رکن تھا بلکہ یہ گاڑی بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوتی رہی تھی۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد منعقد کی گئی اس پریس کانفرنس سے حکومت کی نیت اور واقعہ کی صحت کے بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے آنے کی بجائے مزید سوال سامنے آئے ہیں اور حکومت کے ارادوں اور طریقہ کار کے بارے میں شبہات میں اضافہ ہو?ا ہے۔ اگر محکمہ انسداد دہشت گردی کی ٹیم نے انٹیلی جنس رپورٹوں اور دیگر معلومات کی بنیاد پر درست گاڑی کو نشانہ بنایا تھا اور گاڑی میں موجود ایک شخص نے پہلے فائر کیا تھا اور گاڑی میں سے دو خود کش جیکٹیں، 8 گرنیڈ، پستول اور گولیاں برآمد ہوئی تھیں، تو اس واقعہ میں ملوث سی ٹی ڈی کی ٹیم کو گرفتار کر نے اور ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کیا جواز ہے؟ کیا حکومت ایسے ہونہار پولیس والوں کو محض چند درجن لوگوں کے مظاہرے اور میڈیا پر اٹھنے والے ہنگامے کی بنیاد پر قربانی کا بکرا بنا دے گی؟ پھر قانون کی اس سربلندی اور رٹ کا کیا ہوا جس کا ذکر وزیر اعظم نے آج ہی اپنے پیغام میں کیا ہے؟
راجہ بشارت کا بیان دو ٹوک اور واضح ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سانحہ میں ملوث گاڑی دہشت گردوں کے استعمال میں تھی اور انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کے پاس اس بارے میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کار کا ڈرائیور ذیشان داعش کے لئے کام ہی نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے گھر پر دہشت گرد ٹھہرے ہوئے تھے جو ساہیوال فائرنگ کی خبر سن کر وہاں سے فرار ہوگئے لیکن مستعد پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور گوجرانوالہ میں انہیں گھیر کر مار ڈالا گیا۔ راجہ بشارت نے متنبہ کیا کہ اگر سی ٹی ڈی یہ کارروائی نہ کرتی تو یہ دہشت گرد صوبے میں بہت بڑا نقصان پہنچا سکتے تھے۔ صوبائی وزیر قانون نے دعویٰ کیا ہے کہ ذیشان کا گھر دہشت گردوں کا ٹھکانہ تھا اور پولیس کافی دنوں سے اس کی نگرانی کر رہی تھی۔ اسی نگرانی کے نتیجہ میں جی ٹی روڈ پر اس کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور یہ سانحہ رونما ہوگیا۔ جس کی وجہ سے اصل واقعہ کی شکل بدل گئی۔
مختلف اوقات میں سی ٹی ڈی کی طرف سے اس واقعہ کی جو وضاحتیں دی گئی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ کے اس تبادلہ میں گاڑی کے سیاہ شیشوں کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ کار میں بچے بھی سوار تھے۔ جبکہ راجہ بشارت یہ بتا رہے ہیں کہ پولیس اور انٹیلی جنس ادارے گاڑی کی روانگی کے وقت سے ہی اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ اب تو صرف یہ جاننا باقی ہے کہ خاندان کے سربراہ خلیل کا ذیشان سے کیا تعلق تھا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس اس کار کی نگرانی کررہی تھی تو اسے یہ کیوں معلوم نہیں تھا کہ سفر کے آغاز پر کون کون اس میں سوار ہو?ا تھا؟ راجہ بشارت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس ایکشن میں سی ٹی ڈی کے ہمراہ آئی ایس آئی کے ارکان بھی شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے پھر اس سانحہ میں ملوث صرف پولیس اہلکاروں کو ہی گرفتار کرنے کا حکم کیوں دیا ہے؟
پنجاب کے وزیر قانون کی پریس کانفرنس میں ’حقائق‘ سامنے آنے کے بعد پنجاب حکومت کو یہ جواب بھی دینا ہے کہ اگر ساری معلومات موجود بھی ہیں اور مصدقہ بھی ہیں۔ اور اگر یہ کار دہشت گردی میں ملوث تھی اور اسے ایک دہشت گرد ہی چلا رہا تھا تو پھر حکومت کو جے آئی ٹی بنانے اور اس کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ یا وزیر قانون کے انکشافات کے بعد جے آئی ٹی کے سامنے لائے ہوئے ’حقائق‘ کی کیا اہمیت باقی رہ جائے گی؟
پنجاب کے وزیر قانون کی پریس کانفرنس کے بعد اب وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت کو یہ جواب دینا ہے کہ میڈیا کے دباﺅ میں آئی ہوئی حکومت سچ بیان کر رہی ہے یا کسی سچ کو چھپانے اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ