رائے عامہ کے ایک تازہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے 51 فیصد لوگ وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور اسے ’بہت اچھا‘ یا ’اچھا‘ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی نئی حکومت کے لئے پانچ ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد یہ ایک مثبت اور حوصلہ افزا اشاریہ ہے۔ اگرچہ پاکستان میں رائے عامہ کی حمایت اقتدار حاصل کرنے یا اس پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے کافی نہیں ہوتی اور نہ ہی رائے عامہ کا ایک جائزہ جس میں صرف بارہ سو کے لگ بھگ لوگوں سے رابطہ کر کے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا ہو، کسی حکومت کی تقدیر کے بارے میں حتمی ہو سکتا ہے۔ ان شبہات کے باوجود عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے یہ ایک خوش آئیند خبر ہے۔
تحریک انصاف کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں تھا اور اقتدار تک پہنچنے کے لئے اسے بہت سے ایسے عناصر اور جماعتوں کے ساتھ سمجھوتے کرنا پڑے ہیں جو تحریک انصاف اور عمران خان کے نظریات سے متضاد خیالات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو دگرگوں معیشت کو سنبھالنے، خالی خزانے کی وجہ سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے وسائل کا انتظام کرنے اور عوام کی حد سے بڑھی ہوئی توقعات پر پورا اترنے کا نہایت مشکل مرحلہ درپیش رہا ہے۔
اس کے باوجود مقبولیت کے اس جائزہ میں عمران خان کی کامیابی، ان کے لئے حوصلہ کا سبب ہونی چاہیے اور انہیں اپنی کارکردگی پر مطمئن ہونے کے علاوہ اس بات کی بھی تسلی ہونی چاہیے کہ ان کا ووٹر اب بھی ان کی حمایت کرتا ہے۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کے لئے یہ بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ اس کا ’کور ووٹر‘ بدستور اس کا حامی ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنی بدزبانی، میڈیا کی مخالفت، اضطراری مزاج، غیر ذمہ دارانہ فیصلوں اور بیانات سے قطع نظر، اسی لئے اطمینان سے گرجتے برستے رہتے ہیں کیوں کہ 2016 کے انتخابات میں ان کی حمایت کرنے والے ایک تہائی امریکی ووٹر بدستور ان کے حامی ہیں اور ان کے تمام فیصلوں کی تائد کرتے ہیں۔
عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کو ایک کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ ووٹ ملے تھے۔ یہ کل دیے جانے والے ووٹوں کا 32 فیصد تھا۔ تازہ سروے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان کو بدستور اپنے ان ووٹروں کی حمایت حاصل ہے جنہوں نے انہیں گزشتہ برس جولائی میں ووٹ دیے تھے۔ کسی بھی پارٹی یا لیڈر کے لئے ایک تہائی ووٹروں کی حمایت بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے جسے وہ اپنی طاقت بنا کر اپنے حامیوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے بے فکر ہو کر اقدامات کر سکتا ہے۔
پاکستان میں عمران خان کی مقبولیت امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ٹرمپ کو تیس فیصد کے لگ بھگ ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ اور وہ ان ووٹروں کو مطمئن اور خوش رکھنے کے لئے براہ راست کانگرس سے ٹکر لینے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے سلسلہ میں انہوں نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا ہے اور 35 روز کے سرکاری شٹ ڈاﺅن کے باوجود اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ اگر کانگرس نے آئیندہ تین ہفتے میں ان کی تجویز کے مطابق چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم منظور نہ کی تو وہ ایمرجنسی نافذ کر کے دفاعی بجٹ میں سے دیوار کی تعمیر کے لئے مصارف پورے کر لیں گے۔
ٹرمپ یہ اعلان اس مقبولیت کی بنیاد پر ہی کرنے کے قابل ہوئے ہیں جو انہیں بدستور امریکی ووٹروں میں حاصل ہے۔ ان پر گھبراہٹ یا پریشانی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور وہ اس بات پر پشیمان یا شرمندہ نہیں ہیں کہ حکومت کے آٹھ لاکھ ملازمین کو پانچ ہفتے تک تنخواہیں نہیں ملیں اور متعدد سرکاری امور انجام نہیں پا سکے۔ ووٹروں کی حمایت انہیں مضبوط بناتی ہے اور ان کی ’فائیٹنگ اسپرٹ‘ میں اضافہ کرتی ہے۔
اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے لیڈروں پر گھبراہٹ اور پریشانی طاری رہتی ہے۔ اس کا اظہار عام طور سے پارٹی کے لیڈروں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور ٹویٹ پیغامات سے ہوتا ہے۔ اپوزیشن پر غصہ نکال کر اس مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے جو انہیں اپنی کارکردگی کے علاوہ اقتدار کے تسلسل کے بارے میں لاحق ہے۔ حالانکہ قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن طاقت ور ہونے کے باوجود ابھی تک کسی ایسی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر سکی جو حکومت کے لئے براہ راست خطرہ بن سکتا ہو۔ اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیاں ایک طرف ایک دوسرے کے بارے میں بد اعتمادی کا شکار ہیں تو دوسری طرف وہ کسی ایسی حکمت عملی پر متفق نہیں ہوسکی ہیں جو حکومت کو اسمبلیوں میں پریشان کرسکے۔
مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اپوزیشن پنجاب یا مرکز میں تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسٹریٹ پاور کے ذریعے کوئی بڑا بحران پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عمران خان نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن وہ عرب ملکوں سے کثیر مالی امداد لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے علاوہ خلیجی ممالک بھی پاکستان میں کثیر سرمایہ کاری کے بارے میں غور و خوض کر رہے ہیں۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں پر پیدا ہونے والے اختلافات پر قابو پالیا گیا ہے۔ نئی حکومت دھیرے دھیرے امور مملکت کو سمجھ رہی ہے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ اس کے باوجود حکمران جماعت پر خوف اور پریشانی کی کیفیت طاری ہے۔
اس خوف کو پیدا کرنے میں ساہیوال جیسے غیر متوقع سانحہ نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اس سانحہ کے نتائج کے بارے میں شبہات بھی تحریک انصاف کی پریشانی اور بے یقینی میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کے بعد کمانڈ لائن کی عدم موجودگی نے تحریک انصاف کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اس معاملہ کی سنگینی کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
عمران خان نے ٹویٹ پیغام جاری کرنے کے علاوہ براہ راست کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ بے عملی خاص طور سے اس لئے بھی ناقابل فہم تھی کہ عمران خان پنجاب حکومت کو براہ راست کنٹرول کر رہے ہیں۔ اگرچہ مناسب حکمرانی اور صوبائی خود مختاری کے اصول کے تحت یہ غلط حکمت عملی ہے لیکن پنجاب کے بارے میں یہ پالیسی اپنا لینے کے بعد کسی بڑے سانحہ کی صورت میں بھی انہیں خود آگے بڑھ کر اس سے نمٹنا چاہیے تھا۔
اس کی بجائے انہوں نے ’بے خبر‘ عثمان بزدار کو خود ساہیوال جانے کی ہدایت کی جو پھولوں کا گلدستہ لے کر پولیس کی غنڈہ گردی کی وجہ سے یتیم ہونے والے زخمی بچوں کی عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ اس کے بعد میڈیا کو معلومات فراہم کرنے کی ذمہ داری پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کو سونپ دی گئی جن کی متضاد بیانی نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کیا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے 72 گھنٹے میں انصاف فراہم کرنے کا دعویٰ کر کے نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں کی مستعدی کا چرچا شروع کر دیا۔ اس طرح وہ خود اپنی اور پارٹی و حکومت کی تضحیک کا سبب بنے۔ اب تحریک انصاف کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اس واقعہ کا حکومت کے مستقبل پر کیا اثر مرتب ہو سکتا ہے؟ اور اس بدحواسی میں غیر متعلقہ لیڈر غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے صورت حال کو غیر موافق کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
اس دوران حکومت پر ان حلقوں کا دباﺅ بھی بڑھ رہا ہے جو اپنے ایجنڈے کے مطابق کارکردگی اور نتائج چاہتے ہیں۔ حکومت نے اگرچہ اس ایجنڈے پر اسکول کے سلیبس کی طرح عمل شروع کیا ہے لیکن اس کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ فیصلے کرنے والوں سے ہی کام کرنے کی توقع بھی کر رہی ہے۔ اسی لئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ کیا ہے کہ عرب ملکوں سے امداد لانے کا کام آرمی چیف نے کیا ہے، حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ حکومت اس چیلنج کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے میں کامیاب نہیں رہی۔
اب طاقت کے مراکز سے کبھی آزمائے ہوئے طریقوں سے حکومت کو یہ ’پیغام‘ بھجوایا جاتا ہے کہ اسے چھے مہینے کا وقت دیا گیا تھا جو اب پورا ہونے والا ہے۔ اس مدت میں اگر کارکردگی دیکھنے میں نہ آئی تو قوت فراہم کرنے والا ’دست شفقت‘ میسر نہیں رہے گا۔ اور کبھی ’کمپنی نہ چلنے‘ کا اشارہ دے کر واضح کیا جاتا ہے کہ حکومت کو جو کرنا ہے، وہ اب کر لے پھر دیر ہوجائے گی۔ ماضی کی سب سیاسی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کی حکومت بھی دوسروں کے فیصلوں سے پیدا ہونے والی غلطیوں پر احتجاج کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی اور نہ ہی فیصلہ سازی کو اپنے اختیار اور پارلیمنٹ کے مینڈیٹ کا حصہ بنانے کی قدرت رکھتی ہے۔
یہ صورت حال ہی تحریک انصاف کے خوف کی بنیادی وجہ ہے۔ اس کا اظہار اشتعال انگیز بیانوں اور اپوزیشن کو دھمکیوں کی صورت میں تو ہوتا ہے لیکن اسے تبدیل کرنے کے لئے جس حوصلہ اور قائدانہ صلاحیت کی ضرورت ہے، وہ دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا رویہ ان الزامات کی تائید کرتا ہے جو اس کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے والے عوامل کے بارے میں لگائے جاتے رہے ہیں۔
’ایک پیج‘ کا منتر اپنا جادو کھونے لگا ہے اور منتخب حکومت ووٹروں کی حمایت کو قوت سمجھ کر خود فیصلہ ساز بننے کی بجائے، خود کو فیصلہ سازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے انجام کا انتظار کر رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ